SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہISPR
19 منٹ قبل
پاکستان کا دورہ کر کے واپس جانے والے امریکی کانگریس مین جیک برگمین کے جس بیان کا تحریک انصاف کے بہت سے رہنماؤں کو انتظار تھا، وہ بالآخر جاری کر دیا گیا ہے اگرچہ اس میں کئی روز لگے۔
جیگ برگمین کا تعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جماعت رپبلکن پارٹی سے ہے اور اپریل کے وسط میں انھوں نے پاکستانی قیادت بشمول آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیر داخلہ محسن نقوی سے ملاقات کی تھیں۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کے لیے جیک برگمین امریکہ سے آنے والی ایک اہم آواز اس لیے ہیں کیونکہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق اور سیاسی مخالفین کے خلاف مبینہ انتقامی کارروائیوں پر بات کر چکے ہیں۔
تو اب منگل کے روز جیک برگمین نے ایکس پر جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’پاکستان کے دورے، وہاں رہنماؤں اور برادریوں سے روابط قائم کرنے کے بعد میں عمران خان کی رہائی کے مطالبے کو دہرا رہا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان شراکت ایک جیسے اقدار جیسے جمہوریت، انسانی حقوق اور معاشی خوشحالی سے مضبوط ہوتی ہے۔
جیک برگمین نے کہا کہ ’آئیے آزادی اور استحکام کے لیے ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔‘
یاد رہے کہ امریکی کانگریس کے اس وفد میں شامل ارکان کو اس لیے بعض حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا تھا کیونکہ وہ ماضی میں عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کر چکے تھے تاہم پاکستان میں ان کی جانب سے ایسا کوئی بیان نہیں دیا گیا تھا۔

،تصویر کا ذریعہX
جیک برگمین کے بیان پر پی ٹی آئی رہنماؤں کا ردعمل
ملک کے اندر اور باہر تحریک انصاف کی سیاسی قیادت نے سوشل میڈیا پر جیک برگمین کے بیان پر ردعمل تو دیا ہے مگر ان کے تبصرے ایک جیسے نہیں، حالانکہ پاکستانی آرمی چیف سے ملاقات کے بعد برگمین نے پہلی بار عمران خان کی رہائی کا مطالبہ دہرایا ہے۔
احتساب اور داخلی امور پر ماضی میں عمران خان کے مشیر رہنے والے مرزا شہزاد اکبر نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ بیرون ملک پاکستانی نژاد افراد کو برگمین کی آرمی چیف سمیت عسکری قیادت سے ملاقاتوں پر تشویش ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’بدقسمتی سے تاثر معنی رکھتا ہے۔ جب قابل احترام امریکی کانگریس مین باوردی فوجی اہلکاروں سے روابط قائم کرتے ہیں، نہ کہ مختلف جماعتوں کے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ، تو اس سے غیر ارادی طور پر پاکستانیوں میں خیال پنپتا ہے کہ امریکہ غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہX
سابق صدر پی ٹی آئی یو ایس اے سجاد برکی نے یہ اعتراض اٹھایا کہ امریکی کانگریس کے وفد نے تحریک انصاف کی منتخب قیادت سے ملاقاتیں نہیں کیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی برادری آپ کے دورے پر شدید مایوس ہے اور الیکشن کے وقت وہ اسے یاد رکھے گی۔ کاش آپ میں اتنی جرات ہوتی کہ آپ عمران خان کی رہائی کا مطالبہ تب کرتے جب یہ معنی رکھتا تھا۔‘
اسی طرح پی ٹی آئی کے حامی سمجھے جانے والے صحافی معید پیرزادہ نے ٹویٹ کرتے ہوئے سوال کیا کہ آیا برگمین یہی بات نجی طور پر اپنے پاکستانی میزبانوں سے کرنے میں کامیاب رہے تھے۔

،تصویر کا ذریعہX
مگر پی ٹی آئی کے کچھ حلقوں نے برگمین کی حمایت بھی کی ہے۔
امریکہ میں مقیم پی ٹی آئی رہنما شہباز گل نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں اس اعتراض کی مخالفت کی ہے کہ برگمین نے ’اسلام آباد میں عاصم منیر کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کیوں یہی بات نہیں کہی؟‘
ان کا کہنا تھا کہ برگمین نے پاکستان سے واپس آ کر انصاف کے اور جمہوریت کے حق میں، ٹویٹ کیا۔
عمران خان کے سابق مشیر زلفی بخاری نے برگمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہمیں امید تھی آپ دورے کے دوران اپنی آواز اٹھائیں گے لیکن ہم مخصوص پروٹوکولز اور رکاوٹیں سمجھتے ہیں۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ‘ہمیں خوشی ہوئی کہ آپ نے اس جبری طور پر لائی گئی حکومت کی اصلیت دیکھ لی۔‘

،تصویر کا ذریعہISPR
’برگمین جیل میں عمران خان سے کیوں نہیں ملے؟‘
تحریک انصاف کےچند حلقے اس حوالے سے بھی نالاں ہیں کہ امریکی کانگریس مین کا وفد اڈیالہ جیل میں عمران خان سے نہیں مل پایا۔
تاہم اس کے جواب میں شہباز گِل نے یہ پیغام دیا کہ ’مجھے کچھ لوگوں کے جذبات کی سمجھ نہیں آتی۔ ایک کانگرس مین پاکستان میں جنرل عاصم منیر اوران کے ساتھیوں کی پوری بات سن کر واپس آ کر فری عمران خان کی ٹویٹ کرتا ہے۔ ہم شکریہ کی بجائے اس پر حملہ آور ہیں کہ خان کو کیوں نہیں ملے۔‘
’کانگرس مین کی پوزیشن ایک ایم این اے (قانون ساز) کی ہوتی ہے۔ وہ دوسرے ملک میں کیا جیل توڑ کے مل لیتا؟ اس کا کام کوشش تھی جو اس نے کی اور جتنی کی اس پر ہمیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔‘
انھوں نے برگمین کے دفاع میں کہا کہ ’ڈپلومیسی محلے کی عورتوں کی لڑائی نہیں ہے کہ الجھتے رہوں۔ اس میں جو مل جائے وہ لے لو جو نہ ملے اس کی کوشش جاری رکھو۔‘

،تصویر کا ذریعہx
خیال رہے کہ برگمین کی سربراہی میں اس وفد نے رواں ماہ فوجی و سیاسی قیادت کے علاوہ پاکستانی دفتر خارجہ کے حکام سے بھی ملاقات کی تھی۔
پاکستانی فوج کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ اس ملاقات کے دوران پاکستان اور امریکہ نے ’انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں تربیتی تعاون کے لیے مفاہمت کی یادداشتوں پر بھی دستخط کیے ہیں۔‘
آئی ایس پی آر کے مطابق فریقین نے ’باہمی احترام، مشترکہ اقدار اور مشترکہ سٹریٹجک مفادات پر مبنی پائیدار روابط کی اہمیت کا اعادہ کیا۔ دورے پر آئے ہوئے امریکی قانون سازوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج کے کلیدی کردار کو سراہا اور علاقائی امن و استحکام کے لیے پاکستان کے پائیدار کردار کا اعتراف کیا۔‘
SOURCE : BBC