SOURCE :- BBC NEWS

مقتولہ کا جوتا

،تصویر کا ذریعہPUNJAB POLICE

  • مصنف, شہزاد ملک
  • عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد
  • ایک گھنٹہ قبل

جب رابعہ بی بی کی والدہ نے انھیں شوہر کے ساتھ دلہن کی طرح تیار کرنے کے بعد گلے میں لاکٹ ڈال کر روانہ کیا تو یہ خیال تک نہیں آیا ہو گا کہ چند ہی دن بعد اسی لاکٹ کی مدد سے رابعہ کی لاش کی شناخت کرنا ہو گی۔

رابعہ کی شادی نہیں ہو رہی تھی بلکہ انھیں گھریلو ناچاقی پر شوہر کا گھر چھوڑ دینے کے بعد ایک بار پھر سے تیار کیا گیا اور شوہر کے ساتھ اس شرط پر بھیجا گیا کہ اب رابعہ کے ساتھ ناروا سلوک نہیں روا رکھا جائے گا۔

تاہم چند ہی دن بعد پاکستان کے صوبہ پنجاب میں راجن پور سے رابعہ بی بی لاپتہ ہو گئیں۔ ان کی لاش پولیس کو دریائے سندھ سے ملی جسے ان کی والدہ نے اسی لاکٹ کی مدد سے شناخت کیا۔

اس مقدمہ میں پولیس نے رابعہ بی بی کے ایک ماموں کو بھی سہولت کاری کے الزام میں حراست میں لیا ہے۔ پولیس کے مطابق سرکار کی مدعیت میں درج ہونے والے مقدمے میں مقتولہ کے شوہر، سسر اور ساس بھی مقدمے میں نامزد ملزم ہیں جن کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

لیکن یہ معاملہ کیا ہے؟ رابعہ کے ماموں کو کیوں گرفتار کیا گیا اور اس واردات کو غیرت کے نام پر ہونے والا قتل کیوں قرار دیا گیا؟

ناچاقی اور علیحدگی

علامتی تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مقدمہ کے تفتیشی افسر سب انسپکٹر محمد خلیل نے بی بی سی کو بتایا کہ رابعہ بی بی اپنی والدہ کی اکلوتی بیٹی تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ دو سال قبل رابعہ بی بی کی شادی ہوئی تاہم برے سلوک کی وجہ سے وہ کچھ ہی عرصہ قبل اپنی والدہ کے گھر آ گئی۔

مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتولہ کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد اپنے ماموں کے گھر آگئی جہاں دو ہفتے بعد ان کے شوہر نے آ کر ساتھ چلنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔

مقدمے کے تفتیشی افسر سب انسپکٹر محمد خلیل کا کہنا تھا کہ مقتولہ کی والدہ رضامند نہیں تھیں جن کو خدشہ تھا کہ ان کی بیٹی کو قتل کر دیا جائے گا۔

لیکن اس خدشے کی وجہ کیا تھی؟

مقامی پولیس نے بی بی سی کو بتایا کہ اپنے ماموں کے گھر آنے سے قبل رابعہ بی بی دارالامان میں تھیں کیوں کہ وہ مبینہ طور پر ایک شخص کے ساتھ چلی گئی تھیں جس کا مقدمہ ضلع رحیم یار خان کے ایک تھانے میں درج ہے۔

تفتیشی افسر کے مطابق رحیم یار خان تھانے میں درج ہونے والے مقدمے میں ملزم کو جیل بھیج دیا گیا جبکہ رابعہ بی بی کچھ عرصہ دارلاامان میں رہی جہاں سے ان کو ماموں اپنے گھر لے آئے۔

’بیٹی کو دلہن کی طرح تیار کیا‘

مقامی پولیس کے مطابق رابعہ بی بی کے شوہر اور اس کے والدین نے لڑکی کی والدہ کو یقین دہانی کروائی کہ وہ مستقبل میں اچھا سلوک کریں گے اور انھیں دوبارہ شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔

تفیشی افسر کے مطابق ’رابعہ کے ماموں نے اپنی بہن کو مجبور کیا کہ وہ اپنی بیٹی کو شوہر کے ساتھ بھیج دیں۔‘

اس کے بعد دو مقامی افراد کو بطور گواہ بلایا گیا جن کے سامنے رابعہ کے شوہر نے مستقبل میں اچھا سلوک کرنے کی یقین دہانی کروائی اور پھر رابعہ کو ان کی والدہ نے دلہن کی طرح سجا کر روانہ کیا۔

رابعہ بی بی کو سسرال والوں کے ساتھ بھجنے سے پہلے ان کی والدہ نے اپنے گلے سے لاکٹ اتار کر بھی پہنایا۔

علامتی تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ یہ 13 اپریل کا دن تھا۔ رابعہ کی والدہ نے بعد میں جب بیٹی کے ساتھ فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی تو رابطہ نہیں ہو سکا۔

ایسے میں انھوں نے بیٹی کے سسرال کا رخ کیا جو کہ ان کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا لیکن دروازے پر تالا تھا اور بیٹی کا موبائل فون بند تھا۔ تب رابعہ کی والدہ نے مقامی تھانے میں ان کی گمشدگی کی درخواست دی اور پولیس کی تحقیقات کا آغاز ہوا۔

پل پر چیخوں کی آواز، جوتا اور شاپر بند لاش

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

اس مقدمے کے تفتیشی افسر کے مطابق تحقیقات کے آغاز میں معلوم ہوا کہ مقتولہ کے زیر استعمال فون کی آخری لوکیشن دریائے سندھ پر تعمیر ہونے والے سٹیل پل کی تھی۔

مقامی پولیس کے مطابق اس مقام پر علاقہ مکینوں سے پوچھ گچھ کی گئی تو انھوں نے بتایا کہ چند روز قبل اس سٹیل پل پر کسی خاتون کے رونے اور چیخنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ یہ آوازیں کچھ دیر تک آتی رہیں اور اس کے بعد یہ آوازیں آنا بند ہوگئیں۔

اس مقدمے کے تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ پولیس کو شک گزرا کہ کہیں رابعہ بی بی کو قتل کرکے دریائے سندھ میں نہ پھینک دیا گیا ہو۔ ان کے مطابق رابعہ بی بی کی والدہ نے پہلے ہی اس شبے کا اظہار کیا تھا کہ سسرال والے اس کو قتل کر دیں گے۔

انھوں نے کہا کہ والدہ کے خدشے اور سٹیل پل کے قریب واقع بستی کے مکینوں کے ابتدائی بیانات کی روشنی میں عمر کوٹ تھانے کی حدود میں واقع دریائے سندھ کے کناروں پر رابعہ بی بی کی لاش کو تلاش کرنا شروع کر دیا گیا۔ ایک ہفتے کے بعد ایک لاش ایک شاپر میں بند مل گئی۔

پولیس کے مطابق پانی میں زیادہ دن رہنے کی وجہ سے یہ لاش قابل شناخت نہیں رہی تھی تاہم مقتولہ رابعہ بی بی کی لاش کو اس کی والدہ نے اس لاکٹ سے شناخت کیا جو انھوں نے گلے سے اتار کر اپنی بیٹی کو پہنایا تھا۔

علامتی تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پولیس کے مطابق مقتولہ کے جسم کے نمونے فارنزک لیباٹری میں بھجوا دیے گئے ہیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ رابعہ بی بی کو دریا میں پھینکنے سے پہلے اس پر کس نوعیت کا تشدد کیا گیا۔

ماموں کو کیوں گرفتار کیا گیا؟

مقامی پولیس کے مطابق جب مقتولہ کے ماموں کو رابعہ کے قتل کے بارے میں علم ہوا تو وہ بھی گھر سے فرار ہوگیا۔

اسی وجہ سے پولیس کو شک ہوا اور اس کی تلاش شروع کر دی گئی۔ بعد ازاں ملزم کے زیر استعمال موبائیل کی لوکیشن کی وجہ سے ملزم کو گرفتار کر لیا گیا۔

مقامی پولیس کے مطابق ملزم مقتولہ کے سسرال اور بالخصوص اس کے شوہر کے ساتھ بھی رابطے میں تھا اور مبینہ طور پر رابعہ بی بی کے کسی دوسرے شخص کے ساتھ فرار ہونے پر انھیں رنج تھا۔

اس مقدمے کے تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ ملزم عبدالغفور نے اس مقدمے میں نامزد دیگر ملزمان سے رابعہ بی بی کو ان کے ساتھ بھیجنے کے لیے کچھ پیسے لینے کے بارے میں بھی بتایا ہے۔

تفتیشی افسر کے مطابق رابعہ بی بی کے قتل کے مقدمے میں اس کے ماموں کو بھی نامزد کیا گیا ہے اور اس مقدمے میں یہ کہا گیا ہے کہ ملزمان نے ماموں کی ایما پر ہی رابعہ کا قتل کیا۔

پولیس کے مطابق یہ مقدمہ غیرت کے نام پر قتل کا ہے اور یہ مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔

تفتیشی افسر کا کہنا ہے کہ اس مقدمے میں نامزد دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے بھی چھاپے مارے جارہے ہیں۔

SOURCE : BBC