SOURCE :- BBC NEWS

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, فرحت جاوید
  • عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد
  • ایک گھنٹہ قبل

پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں تشہیر کا شوق نہیں ہے۔

مگر حالیہ ہفتوں میں بظاہر شہرت خود ان کا تعاقب کرتی دکھائی دی اور اُن کا نام نا صرف پاکستان بلکہ سرحد پار انڈیا اور دنیا کے مختلف سفارتی دارالحکومتوں میں بھی لیا جا رہا ہے۔

کشمیر سے متعلق اُن کے بیان نے، جو 22 اپریل کو انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے سے چند روز قبل دیا گیا تھا، پاکستان کی عسکری پالیسی اور خطے میں بڑھتی کشیدگی میں اس کے کردار پر بحث چھیڑ دی ہے۔

سنہ 1947 میں تقسیم کے بعد سے مسئلہ کشمیر انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازعے کی بنیاد رہا ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک اِس کے مکمل کنٹرول کے دعویدار ہیں تاہم دونوں کے پاس ہی اس خطے کا جزوی انتظام ہے۔

اگرچہ پاکستان کے آرمی چیف کے کشمیر سے متعلق حالیہ بیان کا براہِ راست تشدد سے کوئی تعلق نہیں تھا، مگر ان کی جانب سے ادا کیے جانے والے الفاظ اور لہجے کو تجزیہ کاروں نے جنرل عاصم منیر اور پاکستان کی فوج کی جانب سے ٹکراؤ پر مبنی طرز عمل کی جانب ایک شفٹ کے طور پر دیکھا۔

جنرل عاصم منیر کو پاکستان کا سب سے طاقتور شخص تصور کیا جاتا ہے یعنی ایک ایسے ملک کا سب سے طاقتور شخص جس کی فوج پر طویل عرصے سے سیاست میں مداخلت، حکومتوں کو لانے اور ہٹانے جیسے الزامات لگتے رہے ہیں۔ اور اب جبکہ پہلگام حملے کے تناظر میں انڈیا کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، جنرل عاصم منیر کو جوہری ہتھیاروں سے لیس اس خطے میں مرکزی کردار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

تو پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کون ہیں اور کیا چیز انھیں متحرک کرتی ہے؟

تصویر

،تصویر کا ذریعہISPR

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

جنرل عاصم منیر کی عمر لگ بھگ ساٹھ برس کے قریب ہے۔ وہ ایک سکول کے پرنسپل اور مقامی مذہبی سکالر کے بیٹے ہیں۔

انھوں نے پاکستانی فوج میں شمولیت سنہ 1986 میں منگلا کے آفیسرز ٹریننگ سکول سے تربیت مکمل ہونے کے بعد اختیار کی، جہاں انھیں بہترین کیڈٹ قرار دیتے ہوئے اعزازی شمشیر سے بھی نوازا گیا۔ ٹریننگ سکول سے فراغت کے بعد انھیں 23 فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن ملا۔

تقریباً چار دہائیوں پر محیط اپنی سروس کے دوران انھوں نے کشمیر کے ساتھ پاکستان کی حساس شمالی سرحدوں پر فوج کی کمان کی، پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی قیادت کی اور سعودی عرب میں دفاعی تعلقات مضبوط بنانے کے حوالے سے خدمات سرانجام دیں۔

اُن کے پاس اسلام آباد کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے ’پبلک پالیسی اور سٹریٹجک سکیورٹی مینجمنٹ‘ میں ماسٹرز کی ڈگری ہے جبکہ وہ جاپان اور ملائیشیا کی ملٹری اکیڈمیوں سے بھی فارغ التحصیل ہیں۔

میں نے پہلی بار جنرل عاصم منیر کو سنہ 2023 میں اسلام آباد کے ایک ہوٹل کے اس ہال میں دیکھا جو وزرا، سفارتکاروں، آرمی افسران اور صحافیوں سے بھرا ہوا تھا۔ سول لباس میں ملبوس اور پُراعتماد انداز میں سٹیج کی جانب بڑھتے ہوئے وہ اپنے اردگرد نظر دوڑا رہے تھے۔

اُس روز انھوں نے اپنی تقریر کا آغاز قرآن کی تلاوت سے کیا، جو اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ وہ حافظ قرآن بھی ہیں۔ کسی افسر کا حافظ قرآن ہونا پاکستان کی فوجی قیادت میں خال ہی نظر آتا ہے۔

نجی گفتگو میں وہ نرم گفتار اور شائستہ نظر آئے، مگر سٹیج پر جاتے ہی اُن کا انداز سخت اور نگاہیں چوکس ہو گئیں، بالکل ایک ایسے شخص کی مانند جو برسوں تک خفیہ اداروں کی قیادت کرتا رہا ہو۔ اور یہی حقیقت بھی ہے کہ جنرل عاصم منیر پاکستان کے پہلے آرمی چیف ہیں جو پاکستان کی دونوں فوجی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ رہے ہیں۔

ایک ایسا انسان جس کی ٹریننگ دیکھنے، سُننے اور انتظار کرنے کی ہو، اب اُس کے الفاظ پاکستان کی سرحدوں سے باہر بھی گونج رہے ہیں۔

جنرل عاصم منیر نومبر 2022 میں پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف بنے۔ وہ اس عہدے پر ایک ایسے وقت میں تعینات ہوئے جب ملک سیاسی بحران اور معاشی بدحالی کا شکار تھا جبکہ فوج کے گورننس جیسے معاملات میں مبینہ کردار پر عوام مایوسی کا شکار تھے۔

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ان کی تقرری کئی ماہ کی قیاس آرائیوں کے بعد ممکن ہو پائی تھی، اور اس کی بنیادی وجہ اُن کے اور سابق وزیراعظم عمران خان کے درمیان اختلافات تھے۔

اس سے قبل جنرل عاصم منیر صرف آٹھ ماہ تک پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے انٹرسروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ رہے تھے مگر پھر اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے انھیں اس عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ مبصرین اسے عمران خان کا ذاتی اور سیاسی فیصلہ قرار دیتے ہیں، تاہم دونوں ہی اسے رد کرتے ہیں۔

اور یہی وہ موقع تھا جو ان دونوں شخصیات کے درمیان ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ آج عمران خان جیل میں قید ہیں جبکہ جنرل عاصم منیر ملک کے طاقتور ترین شخص بن چکے ہیں۔

عاصم منیر

،تصویر کا ذریعہISPR

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ جنرل عاصم منیر اپنے مزاج اور انداز میں اپنے پیشرو جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ سے مختلف ہیں۔

جنرل باجوہ عوامی سطح پر زیادہ متحرک تھے جنھوں نے انڈیا سے بیک ڈور سفارتکاری کی حمایت کی اور سنہ 2019 میں پلوامہ حملے کے تناظر میں دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے تناؤ کو احتیاط سے سنبھالا۔

اپنے اس ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ میں انھوں نے روایتی سکیورٹی ترجیحات کے ساتھ ساتھ علاقائی استحکام اور جیو اکنامکس پر زور دیا۔

سنہ 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد انڈیا کے فضائی حملوں کا فوجی جواب دینے کے عمل کی نگرانی جنرل باوجوہ نے کی مگر انھوں نے کشیدگی کو ایک حد سے بڑھنے نہ دیا۔ انہوں نے انڈین پائلٹ ابھینندن ورتھمان کو واپس انڈیا بھیجا، جس سے جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے سنگاپور کے ایس راجارٹنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز سے وابستہ عبدالباسط کہتے ہیں کہ ’جنرل باجوہ کے سفارتی چینلز کھلے تھے، وہ کشمیر، افغانستان اور امریکہ کے انخلا جیسے کئی محاذوں کو حقیقت پسندی سے سنبھال رہے تھے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنرل عاصم منیر پر ’عمل (ایکٹ) کرنے کے حوالے سے بہت زیادہ اور فوری دباؤ میں ہے۔ وہ ایسے وقت میں آئے ہیں جب انھیں ملک کی سلامتی کی اندورنی صورتحال کو مستحکم کرنے کے نامکمل ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ اور جن مسائل کا انھیں سامنا ہے (یعنی شدت پسندی میں اضافہ، سیاسی عدم استحکام، معاشی بحران، علاقائی کشیدگیاں) وہ سنگین اور فوری نوعیت کے ہیں اور وہ اپنے پیشرو جنرل باجوہ کی طرح طویل مدتی حکمت عملی اپنانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ انھیں داخلی اور خارجی دونوں سطح پر جلد، بروقت اور مضبوط نوعیت کے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق کشمیر کا معاملہ ایسا ہے جس پر کوئی پاکستانی فوجی قیادت نرم دِکھائی دینا نہیں چاہے گا۔

سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار عامر ضیا کہتے ہیں کہ ’کشمیر پاکستان کی قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ یہاں ہر بچہ سکول میں کشمیر کے بارے میں یہی پڑھتا ہے۔ یہ بالکل عام فہم بات ہے کہ ہم انڈیا کو کشمیر کے معاملے پر کوئی رعایت نہیں دے سکتے۔‘

گذشتہ ہفتے پہلگام میں ہونے والا حملہ انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں گذشتہ دو دہائیوں میں عام شہریوں پر ہونے والا سب سے بڑا حملہ تھا، اور انڈیا نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا، جس کی پاکستان نے متعدد مرتبہ تردید کی ہے اور اب خدشات ہیں کہ انڈیا اس معاملے پر فوجی کارروائی کی صورت میں ردعمل دے سکتا ہے۔

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جنرل عاصم منیر نے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے کے بعد عوامی سطح پر زیادہ بیانات نہیں دیے، مگر ان کی 17 اپریل کی ایک تقریر نے خاصی توجہ حاصل کی ہے۔

پاکستانی تارکین وطن کے لیے اسلام آباد میں منعقد ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستانی اور ہندو، مذہب سے لے کر طرزِ زندگی تک ہر لحاظ سے مختلف ہیں۔

انھوں نے کشمیر کو پاکستان کی ’شہ رگ‘ قرار دیا اور کہا کہ پاکستان ’کشمیر کے عوام کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔‘

یہ تقریر ماضی میں پاکستانی رہنماؤں کی جانب سے دی جانے والی کئی نظریاتی تقاریر جیسی ہی رہتی، اگر اس کے کچھ ہی دنوں بعد پہلگام کا حملہ نہ ہوتا۔

اس تقریر کے پانچ ہی روز بعد یعنی 22 اپریل کو، انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر نامعلوم مسلح افراد کی جانب سے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 26 افراد ہلاک ہو گئے۔

جانز ہاپکنز یونیورسٹی سے منسلک جنوبی ایشیا کے امور میں مہارت رکھنے والے تجزیہ کار جوشوا ٹی وائٹ کہتے ہیں کہ ’یہ معمول کی بیان بازی نہیں تھی اگرچہ مواد پاکستان کے نظریاتی بیانیے سے ہم آہنگ ہے، لیکن لہجہ، خاص طور پر ہندو مسلم اختلافات کی براہ راست بات، اسے خاص طور پر اشتعال انگیز بناتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’پہلگام حملے سے کچھ ہی دن پہلے اس بیان کے آنے نے پاکستان کی طرف سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا دعویٰ کرنے یا پس پردہ سفارتکاری کی کوششوں کو بُری طرح پیچیدہ بنا دیا ہے۔‘

عبدالباسط اس تاثر سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ ممکن ہے وہ (جنرل عاصم منیر) اس لمحے جذبات کی رو میں بہہ گئے ہوں۔ انھوں نے ایسی باتیں کہیں جو نجی ماحول میں تو شاید قابل قبول ہوتیں، لیکن اس عوامی پلیٹ فارم پر، بطور آرمی چیف، وہ واضح طور پر ٹکراؤ پر مبنی لگیں۔‘

پاکستان فوج

،تصویر کا ذریعہISPR

عبدالباسط کا کہنا ہے کہ ’کچھ لوگوں نے اسے طاقت کا مظاہرہ سمجھا۔ یہ ایک ایسا اعلان لگا کہ وہ اب مکمل طور پر کنٹرول میں ہیں، اور یہ کہ پاکستان کی سمت کاتعین ایک بار پھر فوج کے ہاتھ میں ہے۔‘

جنرل عاصم منیر نے اس سال کے شروع میں ایک اور تقریر کی تھی جس کی بنیاد پر کچھ لوگوں نے انھیں ان کے پیشرو سے زیادہ سخت مؤقف اختیار کرنے کے اشارے کے طور پر دیکھا۔

پانچ فروری کو ’یوم یکجہتی کشمیر‘ کے موقع پر مظفرآباد میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’پاکستان نے پہلے ہی کشمیر کے لیے تین جنگیں لڑی ہیں، اور اگر مزید دس جنگیں درکار ہوں، تو پاکستان وہ بھی لڑے گا۔‘

مگر اس حالیہ تقریر کی ٹائمنگ ایسی تھی کہ پہلگام حملے کے تناظر میں اس نے قیاس آرائیوں کو جنم دیا۔ پہلگام حملے کے بعد انڈین حکام نے اس تقریر اور حملے کے درمیان مبینہ تعلق کی طرف اشارہ کیا۔ اگرچہ انڈیا کی جانب سے تاحال پہلگام حملے کے حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیے گئے مگر اس بیان نے دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے موجود بداعتمادی کو مزید گہرا کر دیا ہے۔

ملک کے اندر، جنرل عاصم منیر کے اقدامات کو ایک ایسے رہنما کے اقدامات کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو سوچ سمجھ کر قدم اثھانے والا اور سمجھوتہ نہ کرنے والا ہے اور فوجی اختیار کو دوبارہ مستحکم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

نو مئی 2023 کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے ہنگاموں کے نتیجے میں، جنرل عاصم منیر نے سابق وزیراعظم کے حامیوں کے خلاف ایک بڑے کریک ڈاؤن کا آغاز کیا۔

سویلینز کو فوجی قوانین کے تحت مقدمات کا سامنا کرنا پڑا، ایک اعلیٰ جنرل کو قبل از وقت ریٹائرمنٹ پر مجبور کیا گیا، اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید، جو کبھی عمران خان کے قریبی سمجھے جاتے تھے، کو گرفتار کیا گیا۔

ناقدین نے اسے عمران خان کے وفاداروں کا صفایا قرار دیا، جبکہ حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اُس فوجی نظم و ضبط کو بحال کرنے کی کوشش تھی، جو جنرل باجوہ اور جنرل منیر دونوں کے لیے، عوامی سطح پر بڑھتی تنقید کی وجہ سے متاثر ہو چکا تھا۔

جنرل منیر اپنی پانچ سالہ مدت کے دو سال مکمل کر چکے ہیں، لیکن ان کی میراث کے خدوخال اب واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

انڈیا کے ساتھ موجودہ کشیدگی بڑے فوجی تصادم میں بدلتی ہے یا سفارتکاری کے ذریعے حل ہوتی ہے، اس سے قطع نظر پاکستان کے اپنے ہمسایہ ملک کے ساتھ مستقبل کے تعلقات کا تعین اس بنیاد پر ہو گا کہ جنرل عاصم منیر اسے کس سمت لے جاتے ہیں۔

تجزیہ کار عبدالباسط خبردار کرتے ہیں کہ اگلے چند ہفتے فیصلہ کُن ہوں گے۔

اُن کے مطابق جنرل عاصم منیر اس بحران سے کس طرح نمٹتے ہیں، یہ اُن کے بطور فوجی، ’پاور بروکر‘ اور پاکستان کے اس خطے میں کردار کے تعین کی وضاحت کرے گا۔

’اور فی الحال، یہ فیصلہ بڑی حد تک انھی کے ہاتھ میں ہے۔‘

SOURCE : BBC