SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہShahid Ali
- مصنف, اعظم خان اور روحان احمد
- عہدہ, بی بی سی اردو
-
30 اپريل 2025
اپ ڈیٹ کی گئی 14 منٹ قبل
امراضِ قلب میں مبتلا سات برس کی منسا اور ان کے نو برس کے بڑے بھائی عبداللہ پہلگام حملے کے بعد انڈیا سے واپسی پر اس وقت راولپنڈی کے آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (اے ایف آئی سی) میں زیرِ علاج ہیں۔
ان بچوں کے والد شاہد علی نے بی بی سی کو بتایا کہ اس ہسپتال کے ڈاکٹرز ان کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ وہ یہ بتا رہے ہیں کہ ان بچوں کی جس طرح کی سرجری کی جانی ہے وہ بہت پیچیدہ ہے اور اس طرح کے کیسز ان کے سامنے معمول میں نہیں آتے ہیں۔
شاہد علی کے مطابق انھیں ڈاکٹرز نے بتایا ہے کہ بڑی اور آخری سرجری کرنے کے لیے کم از کم دو برس کا عرصہ درکار ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل سندھ میں امراضِ قلب کے ہسپتال این آئی سی وی ڈی کی جانب سے دونوں بچوں کے مفت علاج کی پیشکش کی تھی اور ایک اعلامیے میں کہا تھا کہ ڈاکٹروں کا ایک بورڈ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ دونوں بچوں کا علاج یہاں ممکن ہے۔
تاہم شاہد علی کے مطابق این آئی سی وی ڈی کے ڈاکٹرز نے انھیں بتایا تھا کہ وہ ان بچوں کی سرجری کے بجائے انجیو پلاسٹی کر سکتے ہیں۔ شاہد علی نے کہا کہ پہلے ہی وہ اپنے بچے کی تین بار انجیو پلاسٹی کروا چکے ہیں اور یہ کوئی دیرپا علاج نہیں ہے اس لیے وہ انھیں کراچی نہیں لے جا رہے۔
شاہد علی نے وفاقی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ ایک نوٹیفکیشن جاری کر کے اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان بچوں کا خرچہ حکومت آخر تک برداشت کرے گی۔
شاہد علی کے مطابق ’مجھے یہ خدشہ ہے کہ کہیں میرے بچوں کا علاج اب کی بار بھی ادھورا نہ رہ جائے اور پھر مجھے کہیں سے ڈونیشن بھی نہ مل سکیں۔‘
ان کے مطابق اس وقت لوگوں کا خیال ہے کہ یہ خرچ حکومت اٹھا رہی ہے مگر وہ حکومت سے اس وجہ سے یقین دہانی چاہتے ہیں کیونکہ اس علاج کے اخراجات برداشت کرنے کی ان میں سکت نہیں ہے۔
ڈاکٹرز نے منسا اور عبداللہ کے والدین کو جواب دینے کے لیے کچھ وقت دیا ہے تاکہ ان بچوں کا علاج شروع کیا جا سکے۔
شاہد علی کہتے ہیں کہ ’اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ یہاں اس علاج میں پیچیدگیاں ہیں تو پھر میرے بچوں کے لیے امریکہ اور برطانیہ میں علاج کا انتظام کیا جائے۔‘

،تصویر کا ذریعہShahid Ali
پہلگام حملے کے بعد جب منسا اور عبداللہ کو بغیر علاج انڈیا سے واپس آنا پڑا
اس سے قبل جب عنبرین شاہد اور ان کے شوہر شاہد علی بچوں کے علاج کی غرض سے سات برس سے انڈین ویزے کے حصول کی کوشش کر رہے تھے اور پھر وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوئے تو 21 اپریل کو اپنی سات برس کی بیٹی منسا اور نو برس کے بیٹے عبداللہ کو لے کر ہریانہ کے علاقے فرید آباد میں واقع ہسپتال ایشین انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز پہنچے تھے۔
شاہد علی نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ابھی ہسپتال میں ان کا داخلہ بھی نہیں ہوا کہ 22 اپریل کو ہسپتال میں اپنے بچوں کے پاس بیٹھے ٹی وی سکرین پر نظر پڑی جہاں پہلگام میں حملے کی خبریں نشر ہونا شروع ہو گئیں۔
شاہد علی کے مطابق ’میں دوڑا دوڑا ڈاکٹرز کے پاس پہنچا اور انھیں اپنی پریشانی کی وجہ بتائی۔ ڈاکٹرز نے کہا بے فکر رہو آپ لوگ 45 دن کے میڈیکل ویزے پر آئے ہو تمھارے بچوں کی سرجری کر کے بھیجیں گے۔‘
مگر حالات اتنی تیزی سے بدلے کہ انڈین ڈاکٹرز کو اپنی حکومت سے درخواست کرنا پڑی کہ ان بچوں کی سرجری کی اجازت دی جائے۔

،تصویر کا ذریعہShahid Ali

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
شاہد علی کے مطابق ابھی ان کے بچے ہسپتال میں داخل نہیں تھے مگر ڈاکٹرز نے یہ ظاہر کیا کہ وہ داخل ہیں۔ ان کے مطابق پہلے سرجری 27 اپریل کو طے تھی مگر ڈاکٹرز نے خود ہی ایک دن پیچھے کر کے 26 اپریل ظاہر کی مگر ڈاکٹرز کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔
‘ایک اہلکار نے آ کر ہمیں بتایا کہ آپ لوگوں کے ویزے منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ یہ سنتے ہی میری اہلیہ نے دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیا۔’
ان کے مطابق اہلیہ کو تسلی کیا دیتا وہ تو ایک ایک دن گن کر سات برس بعد اس ہسپتال تک پہنچی تھی۔ مگر یہ سات سال کے انتظار کے بعد ملنے والی خوشی سات دن میں ہی غم میں تبدیل ہو گئی۔
شاہد علی کے مطابق ’ہم نے جب واپسی کی تیاری شروع کی تو بچوں نے پوچھا ہم بغیرعلاج کے ہی واپس کیوں جا رہے ہیں، اب اہلیہ ہی نہیں بلکہ میں نے بھی رونا شروع کر دیا۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’جب مجھ سے کوئی جواب نہیں بن پایا تو میں نے بس بچوں سے اتنا کہا کہ پھر آئیں گے۔‘
شاہد علی اور ان کے اہلخانہ ان پاکستانیوں میں شامل ہیں جنھیں 22 اپریل کو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں پہلگام کے تفریحی مقام پر سیاحوں پر حملے میں 26 افراد کی ہلاکت کے بعد انڈین حکومت کے سخت اقدامات کے اثرات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

،تصویر کا ذریعہShahid Ali
پہلگام حملے کے بعد انڈین حکومت نے نہ صرف واہگہ بارڈر بند کرنے کا اعلان کیا بلکہ پاکستانیوں کو دیے گئے ویزے بھی منسوخ کر کے انھیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں متاثر ہونے والوں میں قابلِ ذکر تعداد ایسے افراد کی بھی ہے جو علاج کی غرض سے پاکستان سے انڈیا گئے ہوئے تھے۔
شاہد علی کے مطابق ان کے ویزوں کی منسوخی پر جہاں وہ پریشان تھے وہیں ان کے بچوں کا علاج کرنے والے انڈین ڈاکٹرز بھی افسردہ تھے۔
ان کے مطابق ’ان ڈاکٹرز کے دل بھی منسا اور عبداللہ کے لیے بہت رو رہے تھے مگر ان کا بس نہیں چلا۔ ہمارے علاوہ وہاں ہسپتال کے ڈاکٹر بھی بہت افسردہ تھے۔ انھوں نے ہمیں کہا کہ چلیں ہم جب کسی اور ملک جائیں گے تو آپ کو بچوں کی سرجری کے لیے وہاں بلا لیں گے۔’
شاہد علی کے مطابق واپسی کا کا سفر بہت طویل اور تھکا دینے والے تھا اور ان کے بچوں نے جب 65 سے 70 گھنٹوں کا تکلیف دہ سفر کیا تو ان کی حالت مزید بگڑ گئی۔
شاہد علی کے مطابق ’یہ ہماری زندگی کا مشکل ترین سفر تھا۔‘ ان کے مطابق ’ہم انڈیا بہت سی امیدیں لے کر گئے تھے مگر سب خواب ادھورے رہ گئے اور بچوں کے دل کا کیا علاج ہوتا، ہمارا تو اپنا دل کرچی کرچی ہو گیا۔‘
ان کے مطابق وہ انڈیا جانے سے قبل پاکستان میں بھی بچوں کے علاج کے مواقع تلاش کرتے رہے مگر انھیں کہیں سے کامیابی نہ ملی اور ڈاکٹرز کے مشورے پر ہی انھوں نے انڈیا کو منزل بنایا تھا۔
ان کے مطابق ٹاف نامی اس بیماری میں دل میں سوراخ اور دل کے والو ناقص ہوتے ہیں جس وجہ سے وہ منسا اور عبداللہ کو سرجری کے لیے انڈیا لے گئے تھے۔
شاہد علی کے مطابق اس علاج پر کل ایک کروڑ روپے کے اخراجات آنے تھے جن میں سے دس لاکھ تک انھوں نے خرچ بھی کیے۔ عنبرین اور شاہد علی نے اب حکومت سے یہ اپیل کی ہے وہ ان کے بچوں کو علاج کی غرض سے برطانیہ یا امریکہ بھیجیں کیونکہ اب وہ یہ اخراجات بھی برداشت نہیں کر سکتے۔

،تصویر کا ذریعہShahid Ali
منسا اور عبداللہ کی مشکلات کے بارے میں جب پاکستان کے عسکری حکام کو پتا چلا تو انھوں نے راولپنڈی کے آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے ڈاکٹرز پر مشتمل بورڈ تشکیل دے دیا۔
اس بورڈ کی طرف سے منسا اور عبداللہ کے خاندان سے رابطہ کیا گیا۔ شاہد علی نے رات گئے بی بی سی کو اس پیشرفت کی تصدیق کی اور بتایا کہ انھوں نے ڈاکٹرز سے یہ درخواست کی ہے کہ جو مہنگے ٹیسٹ انڈین ہسپتال میں ہو چکے ہیں اب دوبارہ وہ ٹیسٹ نہ کروائے جائیں۔ ان کے مطابق اب وہ علاج کا خرچہ اٹھانے کی بھی سکت نہیں رکھتے۔
شاہد علی کے مطابق انھوں نے بورڈ ممبران سے یہ درخواست بھی کی ہے کہ وہ بہت طویل سفر کے بعد بیمار بچوں کو لے کر لاڑکانہ پہنچے ہیں اور اب وہ راولپنڈی کا سفر براستہ سڑک کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔
شاہد علی نے حکام سے فضائی سفر کے لیے انتظامات کرنے کی درخواست کی تاہم حکام نے ابھی تک شاہد علی کی کسی بھی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔
’پہلگام حملے کے بعد ہمارے بچے کا علاج رُک گیا‘
کراچی سے تعلق رکھنے والے محمد عمران بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو میڈیکل ویزے پر انڈیا میں موجود تھے جب پہلگام میں سیاحوں پر حملہ ہوا۔
وہ بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ان کا 16 سالہ بیٹا ایان پیرالائزڈ ہے اور بعض ڈاکٹروں نے انھیں بتایا تھا کہ پاکستان میں اس کا علاج ممکن نہیں ہے۔ وہ مارچ میں بیٹے کے علاج کی غرض سے انڈیا پہنچے تھے۔ ‘(ہم) دو سال سے بہت پریشان تھے۔۔۔ فیملی ڈاکٹر نے کہا اس کا علاج انڈیا میں ممکن ہے۔ وہاں میں نے پہلے ہی ڈاکٹر کو رپورٹ بھیج دی تھی۔’
عمران بتاتے ہیں کہ انڈیا میں ان کے بیٹے کا چیک اپ اور ٹیسٹ کا سلسلہ چل رہا تھا جب 22 اپریل کو پہلگام میں حملہ ہوا جس کے بعد ‘ہمارے بچے کا علاج رُک گیا۔’
وہ کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کو 48 گھنٹوں میں واپس پاکستان جانے کا کہا گیا مگر ان کی اہلیہ انڈین شہری ہیں جنھیں پاکستان جانے سے روک دیا گیا۔ ‘ایک پریشانی سے نمٹے نہیں تھے کہ دوسری پریشانی آگئی۔ تیسری پریشانی یہ ہے کہ انھیں (اہلیہ کو) ویزا لے کر پاکستان آنا ہوگا۔’
خیال رہے کہ انڈیا نے بھی انڈین شہریوں کے ویزے منسوخ کیے ہیں۔
عمران نے انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں سے یہ اپیل کی ہے کہ ‘آپ لوگوں کی لڑائی جھگڑے سے عام شہری کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے۔ بیٹے کے علاج میں میرا بھی نقصان ہوگیا۔ میری بیوی انڈیا میں رہ گئی ہیں، انھیں جلد اپنے بچوں کے پاس یہاں بھیجا جائے۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘میرے بچے اپنی والدہ کے بغیر نہیں رہ سکتے۔’
انھوں نے پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف سے اپیل کی کہ ان کے بیٹے کا علاج بیرون ملک ممکن ہے جس کی وہ استطاعت نہیں رکھتے لہذا ان کی مدد کی جائے۔
’انڈیا میں بچوں کے علاج سے متعلق مہارت زیادہ ہے‘
پاکستان سے بڑی تعداد میں لوگ میڈیکل ویزے پر انڈیا علاج کی غرض سے جاتے تھے۔ مگر پہلگام حملے کے بعد فی الحال اس ملک کے ہسپتالوں کے دروازے پاکستانیوں پر بند ہو چکے ہیں۔
سندھ یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے ڈاکٹر عبدال خان نے بی بی سی کو بتایا کہ انڈیا کو پاکستان سے کچھ مریض بھی علاج کی غرض سے جاتے تھے خاص طور پر حکمت کے شعبے میں جہاں انڈیا کو برتری حاصل ہے۔
ڈاکٹر عبدال کے مطابق اب پاکستان میں بھی علاج کے مواقع وسیع ہیں اور انڈیا جانے والوں کی تعداد میں پہلگام حملے سے پہلے ہی کافی کمی واقع ہو چکی تھی۔
طاہر ہارٹ انسٹیٹوٹ کے ڈاکٹر مسعودالحسن نوری نے بی بی سی کو بتایا کہ انڈیا میں بچوں کی علاج کی مہارت زیادہ ہے جبکہ امریکہ اور برطانیہ کی نسبت سستا ہے تو اس وجہ سے لوگ بچوں کو انڈیا لے جاتے ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان میں بھی چند ایک ایسے ادارے ہیں جہاں دل کے امراض میں مبتلا ایسے بچوں کا علاج ممکن ہے مگر یہ ادارے پانچ یا چھ ہی ہیں۔ ان کی رائے میں لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں ایسے بچوں کا علاج ممکن ہو سکتا ہے۔
SOURCE : BBC