SOURCE :- BBC NEWS

کچھ لوگ مونجارو انجیکشن کی طرف مائل ہو رہے ہیں

،تصویر کا ذریعہReuters

51 منٹ قبل

سیمون تقریباً ایک سال سے وزن کم کرنے کے انجیکشنز کا استعمال کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان انجیکشنز نے وہ کر دکھایا جو ڈائٹ، یعنی خوراک میں کمی، ان کے لیے کبھی نہیں کر سکی۔

34 سالہ سیمون کے ذہن میں ہر وقت یہی سوال ہوتا تھا کہ اگلا کھانا کب ہوگا؟ کیا کھانا ہوگا؟ کیا وہ ان کے لیے کافی ہوگا؟

وہ کہتی ہیں کہ ’اتنی شدید خواہش ہوتی تھی کہ ناقابل برداشت ہوجاتی تھی۔ میں نے ہر قسم کی ڈائٹ آزما کر دیکھی ہے۔ آپ ایٹکنز، کلین ایٹنگ، سلِم فاسٹ، سلمِنگ ورلڈ، میل ریپلیسمنٹ شیکس جیسی کسی بھی ڈائٹ کا نام لیں میں نے سب کچھ آزمایا لیکن کچھ بھی میرے لیے کارگر ثابت نہیں ہوا۔‘

کچھ سال قبل جب ان کا وزن 102 کلوگرام ہو گیا تو وہ لاکھوں لوگوں کی طرح ’ویٹ واچرز‘ کی جانب رجوع ہوئیں۔ انھوں نے ایپ ڈاؤن لوڈ کی اور اس کے پوائنٹس سسٹم پر سختی سے عمل پیرا رہیں، وہ جو کچھ کھاتیں، وہ سکین کرتیں اور روزانہ کے پوائنٹس کے اندر رہتیں۔

’ویٹ واچرز‘ کھانے پینے کی اشیاء کو پوائنٹس دیتے ہیں۔ اور اس ضمن میں ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک ’انقلابی الگوردم‘ ہے جس کے ذریعے صارفین کو بہتر غذاؤں کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے۔

لیکن سیمون کہتی ہیں کہ چند ہفتوں بعد انھیں ایسا لگنے لگا جیسے انھیں ناکام ہونے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا: ’میں طویل عرصے تک وزن کیسے کم رکھ سکتی تھی اگر مجھے اس عجیب پوائنٹس سسٹم کو فالو کرنا پڑتا؟ کھانے کو پوائنٹس میں نہیں بلکہ کیلوریز، فیٹ اور مائکرونیوٹریئنٹس میں ناپا جاتا ہے۔‘

’مجھے محسوس ہوا جیسے میں قید ہو گئی ہوں، اور جتنا زیادہ میں نے تحقیق کی اور سمجھا اتنا ہی مجھے یقین ہوتا گیا کہ یہ سب میرے لیے نہیں۔‘

سیمون پہلے ویٹ واچر کی رکن تھیں اب وہ مونجارو انجیکشن لیتی ہیں

مونجارو انجیکشن

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

ان کے مطابق، وزن کم کرنے کی جدوجہد میں جو چیز ان کے لیے واقعی مؤثر ثابت ہوئی وہ وزن کم کرنے کا انجیکشن ’مونجارو‘ تھا۔ اس انجیکشن کو انھوں نے تقریباً ایک سال قبل لینا شروع کیا تھا۔

وہ بتاتی ہیں کہ اس وقت ’میں اپنی زندگی کے سب سے زیادہ وزن 21 اسٹون (یعنی 133 کلو گرام) سے کچھ اوپر تھی۔ اور ڈاکٹر نے بتایا کہ میں پری-ڈائیبیٹک (ذیابیطس کے دہانے پر) ہوں۔ مجھے معلوم تھا کہ کچھ بدلنا ہو گا، میرے دو بچے ہیں جو مجھ پر منحصر ہیں۔‘

انھیں دوا شروع کرنے کا مشورہ دیا گیا، لیکن اس کے لیے انھیں دو سال کے انتظار کا کہا گيا تو انھوں نے نجی طور پر اسے آن لائن خریدنے کا فیصلہ کیا۔ صرف چند دنوں میں، وہ خوشی کے آنسو بہا رہی تھیں۔

انھوں نے کہا: ’مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ مجھے کھانے پر کنٹرول حاصل ہو گیا ہے۔ پہلی بار میں پریشان نہیں تھی کہ اگلی بار کب کھاؤں گی۔‘

وزن کم کرنے کا یہ انجیکشن جی ایل پی-1 نامی ہارمون کی نقل کرتے ہیں، جو بھوک کم کرتا ہے اور انسان کو زیادہ دیر تک شکم سیر ہونے کا احساس دلاتا ہے۔

اب تک، سیمون اپنا وزن 26 کلو گرام کم کر چکی اور آہستہ آہستہ ان کا وزن مزید کم ہو رہا ہے۔ وہ اپنی کہانی سوشل میڈیا پر شیئر کر رہی ہیں۔

انھوں نے کہا: ’مجھے فوری حل نہیں چاہیے۔ میں وزن کم کرنے کے انجیکشنز کو استعمال کر رہی ہوں تاکہ مجھے وہ کنٹرول مل سکے جو کبھی میرے پاس نہیں تھا۔‘

سیمون نے اپنا وزن کم کرنے اور کھانے کی خواہش کو دبانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا

دس لاکھ اراکین کا نقصان

بہت سے لوگوں کے لیے وزن کم کرنے کے یہ انجیکشن تیز نتائج فراہم کرتے ہیں، لیکن کچھ ماہرین کو اس کے بڑھتے ہوئے رجحان اور طویل المدتی جسمانی و ذہنی اثرات کے متعلق تشویش ہے۔

ایک وقت تھا جب ویٹ واچرز کو محفوظ اور متوازن وزن کم کرنے کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ دنیا بھر میں اس کے تقریبا 45 لاکھ صارفین تھے اور تقریباً ہر شہر میں اس کے ورکشاپس موجود تھے۔

لیکن 50 سال سے زائد عرصے تک ڈائٹ انڈسٹری پر راج کرنے کے بعد ویٹ واچرز نے دس لاکھ سے زائد ممبرز کھو دیے ہیں اور اس نے دیوالیہ ہونے کی درخواست دائر کر رکھی ہے کیونکہ وہ سوشل میڈیا اور وزن کم کرنے والے انجیکشنز کے بدلتے ہوئے منظرنامے کا مقابلہ نہیں کر سکا۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ بند نہیں ہو رہی بلکہ دیوالیہ پن کی درخواست اس کے 1.25 ارب امریک ڈالر کے قرض کو حل کرنے میں مدد دے گی۔

اپنے بیان میں ویٹ واچرز نے کہا ہے کہ اس کا وزن کم کرنے کا پروگرام (جس میں اب اس کے اپنے برانڈ کے انجیکشنز بھی شامل ہیں) اور ورکشاپس جاری رہیں گی۔

کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وہ پچھلے 60 سالوں سے سائنسی طور پر سب سے زیادہ معاون برانڈ رہا ہے اور اس کی افادیت پر 180 سے زائد تحقیقی مطالعے شائع ہو چکے ہیں۔

ویٹ واچرز کا کہنا ہے کہ اس نے ’مکمل دیکھ بھال کا ماڈل‘ اپنا رکھا ہے تاکہ ہر فرد کی مجموعی صحت کا خیال رکھا جا سکے، جس میں موٹاپے کے ماہر کلینکس اور رجسٹرڈ ڈائٹی شیئنز تک رسائی شامل ہے۔

یہ ان چند کمپنیوں میں سے ایک ہے جہاں ڈاکٹر وزن کم کرنے کے لیے مریضوں کو ریفر کر سکتے ہیں اور برطانوی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) مریضوں کی ہفتہ وار ملاقات میں شرکت کے لیے ادائیگی کرتا ہے۔

نیشنل سینٹر فار ایٹنگ ڈس آرڈرز کی ڈائریکٹر ڈین جیڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اب بات صرف کیلوریز کنٹرول کی نہیں رہی بلکہ ایک نیا رجحان ابھر چکا ہے، اور وہ فرد کی مکمل فلاح و بہبود ہے۔‘

’لوگ قبیلوں کی صورت میں چلنا پسند کرتے ہیں، پہلے یہ ویٹ واچرز قبیلے کا قافلہ تھا جو پوائنٹس اور کیلوریز کا حساب رکھتا تھا اب لاکھوں لوگ مختلف طریقوں سے وزن کم کرنے یا صحت مند بننے کے طریقے اپناتے ہیں۔ یہ سوشل میڈیا، انجیکشنز کے ذریعے نئے نئے قبیلے بنا رہے ہیں۔‘

وہ اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ دوا اس کا حل ہے جس کی لوگوں کو تلاش ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’کوئی بھی دوا انسان کو یہ سہولت فراہم نہیں کرتی کہ انجیکشنز بند کرنے کے بعد دوبارہ ان کے وزن نہ بڑھیں۔‘

ان کا ماننا ہے کہ ’یہ ایک عارضی حل ہے، اور وزن کم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ انسان زیادہ کھانے کے پیچھے کی نفسیاتی وجوہات کو سمجھے۔‘

جینیفر کا کہنا ہے کہ وزن کم کرنا صرف ترازو پر کم ہونا نہیں ہے

،تصویر کا ذریعہJennifer

زیادہ جامع نقطہ نظر

ڈاکٹر جوان سلور لندن کے ایٹنگ ڈس آرڈرز کلینک ’اوری‘ کی چیف ماہرِ نفسیات ہیں اور وہ اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وزن کم کرنے والے انجیکشنز جسم کی فطری ضروریات کو بالکل خاموش کر دیتے ہیں جو کہ جسم کو سمجھنے کے عمل کے خلاف ہے۔

’لوگ نفسیاتی وجوہات کی بنا پر بے تحاشا کھا سکتے ہیں، وہ جذبات کو سنبھالنے یا خود کو تسلی دینے کے لیے کھاتے ہیں۔ ایٹنگ ڈس آرڈرز صرف کھانے کے بارے میں نہیں ہوتے۔‘

خوراک اور غذائیت اب ایک بڑی، جامع حکمت عملی کا حصہ بن چکی ہیں جسے لوگ اپنی ویل بیئنگ یا فلاح و بہبود کے لیے اپنا رہے ہیں۔

جینیفر پائبس لیورپول کی ایک فٹنس کوچ ہیں۔ وہ آن لائن اور ذاتی طور پر کلائنٹس کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صحت مند زندگی صرف وزن کم کرنے کا نام نہیں۔

’میں جن خواتین کے ساتھ کام کرتی ہوں، ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہوں کہ وہ اپنی بہتری کو صرف وزن کے ترازو پر نہ تولیں۔‘

’اس بات پر توجہ دیں کہ وہ کیسا محسوس کر رہی ہیں، پرانی اور نئی تصویریں دیکھ کر جسم کی تبدیلی کو دیکھیں، نیند کیسی آتی ہے، دل کی رفتار، جم میں کارکردگی جیسی تمام چیزیں بہت اہم ہیں۔‘

اگرچہ ڈائٹ انڈسٹری تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے لیکن اب بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اکٹھے بیٹھ کر اپنے تجربات بانٹنے، اور اپنے کمیونٹی کے دوسرے لوگوں کی وزن کم کرنے میں مدد کرنے کے روایتی انداز کو ترجیح دیتے ہیں۔

لنڈا ویڈ بیٹر کا کہنا ہے کہ ویٹ واچرز اپنا راستہ کھو چکے ہیں

بی ویڈ

چیشائر کے وِنزفرڈ شہر کے ایک چھوٹے سے چرچ ہال میں خواتین کا ایک گروپ نظر آ رہا ہے جو یکے بعد دیگرے صبر کے ساتھ ترازو پر چڑھنے کا انتظار کر رہا ہے۔

وہ دھیمی آواز میں باتیں کر رہی ہیں اور اس وقت ان کے خوشگوار قہقہے سنائی دیتے ہیں جب وہ ایک دوسرے سے اپنا تازہ وزن شیئر کرتی ہیں۔

کوئی کہتی ہے کہ ’میرا ایک پاؤنڈ بڑھ گیا ہے! میں نے ویک اینڈ پر تھوڑی سی، بلکہ شاید کافی، وائن پی لی تھی۔‘

ایک دوسری پوچھتی ہے کہ ’تم نے جن کیوں نہیں پی؟ وہ تو صرف 55 کیلوریز کا ایک شاٹ ہوتا ہے!‘

وہ سب بی ویڈ نامی سلمنگ گروپ میں اپنی ہفتہ وار جانچ کے لیے آئی ہیں۔ کچھ خواتین نے کئی پاؤنڈز کم کر لیے ہیں، کچھ کا تھوڑا سا وزن بڑھا ہے، لیکن مجموعی طور پر، اس کلاس میں شامل ہونے کے بعد سب کا وزن کم ہوا ہے۔

وہ یہ سیکھ رہی ہیں کہ اعتدال میں کھانا کیسے کھایا جائے، محفوظ طریقے سے ورزش کیسے کی جائے، اور خود سے اچھا محسوس کیسے کیا جائے۔

بادی النظر میں یہ کسی ویٹ واچرز کی کلاس لگ سکتی ہے جہاں خواتین اکٹھی ہو رہی ہیں تاکہ اپنے وزن کم کرنے کی کہانیاں سنائیں اور ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کریں۔ لیکن بی ویڈ کی مالک اور بانی، لنڈا لیڈبیٹر کہتی ہیں بی ویڈ اور ویٹ واچرز میں کچھ اہم فرق ہیں۔

وہ 18 سال تک ویٹ واچرز کی گروپ لیڈر رہیں، لیکن سنہ 2018 میں انھوں نے اپنا الگ گروپ قائم کرنے کے لیے وہاں سے استعفیٰ دے دیا۔

وہ کہتی ہیں: ’میرا خیال ہے کہ ویٹ واچرز نے واقعی بہت سی خواتین کے لیے کچھ مختلف اور امید افزا فراہم کیا، لیکن اب وہ اپنا راستہ کھو چکے ہیں۔‘

بی ویڈ گروپ کی ارکین

ادویات پر شبہات

’میں غذائیت کے بارے میں سکھاتی ہوں، میں انھیں اس کے بارے میں تعلیم دیتی ہوں، میں کوئی اضافی چیز فروخت نہیں کرتی۔ مجھے لگتا ہے کہ ویٹ واچرز اب صرف مصنوعات بیچنے تک محدود ہو گیا ہے، اس کا ہمیشہ اضافی فروخت پر زور تھا، اصل میں لوگوں کو درست طریقے سے وزن کم کرنے میں مدد دینا مقصد نہیں رہا۔‘

وہ وزن کم کرنے والی ادویات کی تاثیر پر شک کرتی ہیں، اور ان کے کچھ ممبرز جنھوں نے اوزیمپک اور ویگوی جیسی ادویات کا سہارا لیا وہ گروپ چھوڑ چکے ہیں۔ لیکن بہت سے لوگ اب بھی ان کے ساتھ ہیں اور وہ ان انجیکشنز کے ساتھ ساتھ بی ویڈ کی میٹنگز میں شرکت کرتی ہیں تاکہ جذباتی حمایت حاصل کر سکیں۔

38 سالہ کیتھرین بریڈی سنہ 2023 سے بیئنگ ویڈ کی رکن ہیں، اور اس دوران وہ تین سٹون (تقریباً 19 کلوگرام) وزن کم کر چکی ہیں۔ لیکن ان کی شادی چونکہ اب صرف چند ہفتے دور ہے اس لیے وہ مونجارو انجیکشن کا استعمال کر رہی ہیں تاکہ تیزی سے وزن کم کیا جا سکے۔

لیکن معاملات ویسے نہیں چلے جیسے انھوں نے امید کی تھی۔

انھوں نے کہا: ’میں ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے مونجارو پر ہوں، اور اگرچہ میں نے پہلے ہفتے میں تقریباً 6 پاؤنڈ کم کیا، لیکن پھر میں نے اس میں سے آدھا واپس بڑھا لیا۔‘

’دو ہفتے تک بالکل بھوک نہ لگنا بہت عجیب سا تجربہ تھا، اور میں اتنے پیسے خرچ کر رہی ہوں لیکن اس حساب سے وزن کم نہیں ہو رہا۔‘

وہ اسے جاری رکھنا چاہتی ہیں، لیکن ابھی مکمل طور پر اس کے لیے قائل نہیں ہوئیں۔

وہ کہتی ہیں: ’چاہے میں پتلے ہونے کا انجیکشن استعمال کرتی رہوں لیکن میں بیئنگ ویڈ میں جانا جاری رکھوں گی، وہاں دوسرے لوگوں کی موجودگی اور حمایت مجھے ہمت دیتی ہے۔‘

SOURCE : BBC