SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, مرزا اے بی بیگ
- عہدہ, بی بی سی اردو، نئی دہلی
-
33 منٹ قبل
انڈیا پاکستان کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی کی آنچ ہزاروں میل دور ایشیا اور یورپ کی سرحد پر آباد ملک ترکی اور آزربائيجان پر پڑتی نظر آ رہی ہے۔
ترکی کے اگرچہ انڈیا سے دیرینہ تعلقات رہے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور سیاحت کے شعبے میں اضافہ نظر آیا ہے لیکن انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ جھڑپ کے بعد جس طرح سے پاکستان کی حمایت میں ترکی کو کھڑا دیکھا گیا ہے اس نے انڈیا میں ترک مخالف جذبات کو بھڑکا دیا ہے اور سوشل میڈیا پر ’بائیکاٹ ترکی‘، ’بائیکاٹ آذربائیجان‘ جیسے ہیش ٹيگ ٹرینڈ کر رہے ہیں۔
دوسری طرف انڈیا میں سیاحت کے شعبے میں خدمات انجام دینے والی بعض کمپنیوں نے ترکی کے لیے اپنی خدمات بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔
خیال رہے کہ 22 اپریل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں عسکریت پسندوں کے حملے میں 26 افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد انڈیا نے پاکستان پر اس کا الزام عائد کیا تھا جسے پاکستان نے مسترد کر دیا لیکن پھر چھ سات مئی کی درمیانی شب انڈیا نے ’آپریشن سندور‘ کے تحت پاکستان میں مبینہ طور پر شدت پسند تنظیموں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا جس کے بعد پاکستان نے جوابی کارروائی کی۔
جمعے کو انڈیا نے پاکستان پر ترکی ساختہ ڈرونز کے استعمال کا الزام لگایا جبکہ پاکستان نے انڈیا پر اسرائیلی ڈرونز کے استعمال کا الزام لگایا۔ لیکن پھر سنیچر کی شام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا اور پاکستان میں جنگ بندی کا اعلان کیا۔
اس سے قبل جمعرات کو ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوغان نے پاکستانی عوام کو ’بھائیوں کی طرح‘ بیان کیا اور ان کے لیے ’دعاگو ہونے‘ کی بات کہی۔

،تصویر کا ذریعہTCKulturTurizm
اسی دوران انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر میں پونے کے زرعی پیداور کی کمیٹی (اے پی ایم سی) نے ترکی سے آنے والے پھلوں بطور خاص سیب کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
انھوں نے مزید کہا: ’انڈیا دہشت گردی کے خلاف کارروائی کر رہا تھا، لیکن ترکی نے پاکستان کو ڈرون فراہم کیے، صارفین بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ ترکی کے سیب نہیں چاہتے۔ انھیں دیکھ کر ہم نے بھی ترکوں کے سیب کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ترکی کے سیب یہاں سال میں 3 ماہ تک فروخت ہوتے ہیں یہ کاروبار تقریباً 1200-1500 کروڑ روپے کا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب ترکی میں زلزلہ آیا تھا تو انڈیا ان کی مدد کرنے والا پہلا ملک تھا، لیکن انھوں نے پاکستان کا ساتھ دیا۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
انڈیا اور ترکی کے درمیان تجارت

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
ہم نے اس پورے پس منظر پر سابق سفیر اور انڈیا کے حوالے سے مشرق وسطی پر دو کتاب کے مصنف انیل تریگونایت سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ ’انڈیا میں جس طرح کے جذبات ہیں اس کا اثر اگر عمومی طور پر تجارت پر نہیں پڑیگا لیکن سیاحت پر ضرور پڑ رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ابھی گذشتہ ہفتے ہی آٹھ مئی کو ہم ترکی سے واپس آئے ہیں اور وہاں ہم نے یہ دیکھا کہ عوام پاکستان کے بجائے انڈیا کے ساتھ رشتہ چاہتے ہیں جبکہ سیاسی رہنما اپنے مفاد کے تحت پاکستان کی حمایت کرتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ سنہ 2023 میں انڈیا اور ترکی کے درمیان 13 ارب امریکی ڈالر کی تجارت تھی جو گذشتہ سال کم ہو کر 10 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ لیکن اس کمی کو سیاحت میں اضافہ پورا کر رہا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ گذشتہ سال سنہ 2024 میں انڈیا سے کوئی سوا دو لاکھ انڈینز نے ترکی کا سفر کیا۔ ’ٹرکش ایئرلائن انڈیا آتی ہے جبکہ انڈین ائیرلائن انڈیگو کی ترکی کے لیے تقریبا روزانہ پرواز ہے۔‘
مسٹر انیل تریگونایت نے کہا کہ ’انڈیا اور ترکی کا رشتہ صدیوں پرانا ہے اور حالیہ دنوں میں اس میں بہتری آ رہی تھی۔ ہم جی 20 کے رکن ممالک ہیں۔ ہم نے اپنے حالیہ دورے میں ترکی کے سیاست دانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ ان کا پاکستان کے ساتھ رشتہ رکھنا زیادہ فائدہ مند ہے یا انڈیا کے ساتھ رشتہ رکھنا زیادہ سود مند ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جنگی صورت حال کے دوران ترکی کے طیارے پاکستان میں اترے اور اس کے جہاز کراچی کی بندرگاہ پر نظر آئے۔ اگرچہ وہ اس کی وجہ کچھ اور بتاتے ہیں لیکن یہ سب پر واضح ہے کہ ترکی کس طرف کھڑا ہے۔‘
بزنس سٹینڈرڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال انڈیا نے ترکی کو 65۔6 ارب ڈالر کا سامان برآمد کیا جبکہ اس کی درآمدات 78۔3 ارب ڈالر رہی۔
سابق سفیر نے کہا اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت ابھی انڈیا کے حق میں ہے لیکن ترکی کے لیے انڈیا ایک بڑی منڈی ثابت ہو سکتا ہے۔
ترکی کی وزارت سیاحت کے مطابق گذشتہ سال کوئی 6 کروڑ 22 لاکھ لوگ ترکی پہنچے جن میں انڈیا سے کوئی دو لاکھ 30 ہزار 778 افراد نے ترکی کا رخ کیا۔

،تصویر کا ذریعہktb.gov.tr
انڈین میڈیا کے مطابق حالیہ دنوں میں ترکی روس اور ایران کے بعد انڈینز کے لیے سب سے زیادہ پرکشش ملک رہا ہے لیکن انڈیا پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی نے اس کو متاثر کیا ہے اور سوشل میڈیا پر بہت سے انڈین شہری ترکی کے اپنے مجوزہ دورے کو منسوخ کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔
ٹکٹنگ اور ہوٹل بکنگ کی خدمات فراہم کرنے والی ایک کمپنی ایگزیگو کے سی ای او آلوک واجپئی نے سوشل میڈیا پلیٹفارم ایکس پر لکھا کہ ’بس بہت ہو گیا، خون اور بکنگ ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس لیے ہم ترکی، چین اور آذربائیجان کے لیے تمام فلائٹس اور ہوٹل بکنگ منسوخ کر رہے ہیں۔‘
اسی طرح ایک دوسری کمپنی ’ایز مائی ٹرپ‘ نے بھی ترکی اور آذربائیجان کے لیے اپنی خدمات کو منسوخ کر دیا ہے۔ نیوز 18 کی ایک رپورٹ کے مطابق ایزمائی ٹرپ کے شریک بانی پرشانت پِٹٹی نے کہا کہ ترکی اور آذربائیجان کے اپنے سفر کو بہت سے لوگ منسوخ کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا: ’ترکی کے لیے ہم نے تقریباً 22 فیصد کی منسوخی دیکھی ہے، اور آذربائیجان کے لیے یہ 30 فیصد سے زیادہ ہے۔ پچھلے سال انڈیا سے 3.8 لاکھ لوگوں نے آذربائیجان یا ترکی کا سفر کیا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر آپ 60-70 ہزار روپے ہی اوسط لگا لیں تو یہ ڈھائی تین سو کروڑ روپے تک آتے ہیں جو انڈینز وہاں خرچ کرتے ہیں۔‘

،تصویر کا ذریعہsocial media
اس کے علاوہ کاکس اینڈ کنگ اور ٹریوومنٹ جیسے پلیٹ فارم نے بھی ترکی اور آذربائیجان کے لیے بکنگ بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ترکی انڈیا کو خام تیل، ماربل یا سنگ مرمر، اور سونے کے علاوہ پھل بھی برآمد کرتا ہے جبکہ انڈیا ترکی کو انجینیئرنگ کے سازوسامان، الیکٹرک سازوسامان، ریفائنڈ تیل وغیرہ برآمد کرتا ہے۔
اکانومک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ریاست راجستھان میں ادے پور کے ماربل کے تاجروں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جاری کشیدگی کے درمیان ترکی کے ساتھ کاروبار ختم کر دیا ہے۔
ادے پور ماربل پروسیسرز کمیٹی کے صدر کپل سورانا نے کہا: ’ادے پور ماربل کا ایشیا کا سب سے بڑا برآمد کرنے والا ہے، کمیٹی کے تمام ممبران نے متفقہ طور پر ترکی کے ساتھ تجارت روکنے پر اتفاق کیا ہے کیونکہ وہ پاکستان کی حمایت کرتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ انڈیا میں درآمد ہونے والے ماربل کا 70 فیصد ترکی سے آتا ہے اور ’صرف ادے پور ہی نہیں، اگر ماربل کی تمام ایسوسی ایشنز انڈین حکومت کو یہ پیغام دے کہ وہ ترکی کے ساتھ تجارت نہیں کریں گے، تو یہ دنیا کو ایک مضبوط پیغام دے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر ہم ترکی کے ساتھ تجارت بند کردیں تو انڈین ماربل کی مانگ بڑھے گی۔‘
سوشل میڈیا پر بازگشت
دوسری جانب سویڈن میں پیس اینڈ کنفلکٹ ریسرچ کے پروفیسر اشوک سوائیں نے ایکس پر بائیکاٹ ترکی کے حوالے سے لکھا کہ سیاحوں کے لیے ’دنیا کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے چار شہروں میں سے دو ترکی میں ہیں۔ 2024 میں 526 لاکھ سیاحوں نے ترکی کا دورہ کیا، ان میں سے صرف 3 لاکھ سیاح انڈیا سے تھے۔ ترکی کے سفر پر پابندی لگانے سے پہلے، بنیادی اعدادوشمار کو چیک کرنا ضروری ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہX
بہت سے صارفین نے لکھا ہے کہ ’یہ کام چین کے ساتھ کر سکو تو سمجھیں‘ جبکہ بہت سے صارفین نے یہ لکھا ہے اس طرح کی بیان بازیوں میں نہ آئیں کیونکہ انڈیا کے ترکی کے ساتھ زیادہ تجارتی مفاد جڑے ہیں۔
ترکی کی وزارت سیاحت کی رپورٹ کے مطابق ان کے یہاں گذشتہ سال جرمنی سے 70 لاکھ سے زیادہ سیاح پہنچے جبکہ برطانیہ سے 35 لاکھ سے زیادہ، صرف یورپ سے وہاں دو کروڑ 28 لاکھ سیاح پہنچے تھے۔ جبکہ جنوبی ایشیا سے 21 لاکھ سے زیادہ سیاح پہنچے جن میں پاکستان سے 66 ہزار سے زیادہ سیاح شامل تھے۔
SOURCE : BBC