SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, انتھونی زرچر
- عہدہ, بی بی سی نیوز
-
ایک گھنٹہ قبل
امریکی صدور کے ساتھ سفر کرنے والے زیادہ تر صحافیوں کو صدارتی طیارے ایئر فورس ون کے اندرونی حصے کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہوتا کہ وہ کیسا نظر آتا ہے اور وہاں کیا کیا آسائشیں دستیاب ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پریس کیبن طیارے کے پچھلے حصے میں ہوتا ہے اور اس میں عقب میں لگے زینوں سے داخل ہونا ہوتا ہے۔ یہ سیڑھیوں کے ساتھ مڑتے ہی نظر آتا ہے۔
طیارے کے اگلے حصے میں موجود صدارتی سویٹ تک پہنچنے کے لیے ان کا سامنا پہلے پڑوسی کیبن میں موجود مسلح خفیہ سروس کے ایجنٹوں سے ہوتا ہے جن سے بات چیت کے بعد ہی آگے جایا جا سکتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ مشرق وسطیٰ کے دورے میں جب اس مخصوص اور مشہور طیارے کے مستقبل پر بہت بات ہو رہی تھی تو فاکس نیوز کے پریزینٹر شان ہینیٹی کو ترجیحی نشست اور صدر تک رسائی دی گئی تھی تاکہ وہ دورانِ پرواز ان کا انٹرویو کر سکیں۔
لیکن صدر کے ہمراہ سفر کرنے والے باقی تمام صحافیوں کو طیارے کے چھوٹے سے مخصوص حصے تک ہی محدود رکھا گیا تھا۔
یہ ایک تیز رفتار سفر تھا جس میں تین راتوں میں تین ممالک کا دورہ کیا گیا اور تقریبا نصف دنیا کا فاصلہ طے کیا گيا۔ صدر نے اسے قوت ‘برداشت کے امتحان’ کے طور پر بیان کیا گیا کیونکہ اس دوران ان کے عملے اور ہم سفر صحافیوں کو اس مشکل سے گزرنا پڑا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
تاہم امریکہ کے صدارتی طیارے میں سفر کرنا کسی طور بُرا سفر نہیں کہا جا سکتا۔ صحافیوں کے لیے مختص کیبن میں 14 نشستیں ہوتی ہیں جو عموماً ملکی فضائی کمپنیوں کی فرسٹ کلاس جتنی آرام دہ ہوتی ہیں۔

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
ایک باتھ روم اور ایک میز ہوتی ہے جس پر ہلکی پھلکی خوراک رکھی جاتی ہے (جس میں صدر کے دستخط والے مشہور ایئر فورس ون ایم اینڈ ایمز بھی شامل ہیں جو کہیں اور دستیاب نہیں ہوتے)۔
کیبن میں دو ٹی وی سکرینیں آویزاں ہیں، جن پر عموماً صدر کے پسندیدہ نیوز چینل (جو بائیڈن کے دور میں سی این این، جبکہ ٹرمپ کے دور میں فاکس نیوز) چل رہے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار فٹبال اور دیگر کھیلوں کے مقابلے بھی چلائے جاتے ہیں۔
لمبے سفر کے دوران، جہاز کے باورچی خانے سے پلیٹ میں کھانے پیش کیے جاتے ہیں (صدر کے لیے علیحدہ اور زیادہ نفیس مینیو ہوتا ہے) اور مختصر پروازوں میں عموماً پیکڈ کھانا دیا جاتا ہے۔
لیکن اگر ٹرمپ نے قطر کی ‘فضا میں محل’ جیسے طیارے کی پیشکش قبول کر لی تو اس مشہور طیارے کا اندرونی حصہ جلد ہی مکمل طور پر بدل سکتا ہے۔ واضح رہے کہ قطر نے ایئرفورس ون کی جگہ امریکی صدر کو نئے طیارے کی تحفتا پیشکش کی ہے جو کہ کسی امریکی صدر کو ملنے والا سب سے بڑا غیر ملکی تحفہ ہو گا۔
تکنیکی طور پر ’ایئر فورس ون‘ ایک ریڈیو کال سائن یعنی مخصوص پکارے جانے والا نام ہے جو ایسے کسی بھی فضائیہ کے طیارے کے لیے استعمال ہوتا ہے جس میں امریکی صدر سوار ہو۔ چنانچہ سنہ 1960 کی دہائی میں جب لِنڈن بی جانسن آسٹن سے اپنے ٹیکساس والے فارم گئے تھے تب انھوں نے ایک چھوٹا پروپیلر طیارہ استعمال کیا تھا اور اسے بھی ایئر فورس ون کہا گیا تھا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
لیکن جس ایئر فورس ون کا اکثر لوگوں کے ذہن میں تصور ہے وہ ہیرسن فورڈ کی ایکشن فلم میں پیش کیا جانے والا طیارہ 747-200 بی طیارہ ہے جو اوپر سے آبی نیلے اور سٹیل نیلے اور سفید رنگ کا ہے جبکہ اس کا نچلا حصہ زرد یا نارنج رنگ کا ہے۔ ایئرفورس ون کے اس رنگین خاکے کو سنہ 1962 میں خاتونِ اول جیکی کینیڈی نے منتخب کیا تھا۔
فی الحال فضائیہ کے بیڑے میں ایسے دو 747 طیارے ہیں جو 1990 سے استعمال ہو رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہوائی جہازوں کی ٹیکنالوجی اور دیگر تمام لوازمات میں کافی ترقی ہو چکی ہے۔ اگرچہ طیاروں کو اپ گریڈ کیا گیا ہے مگر اب ان کے فریم اور انجن کو برقرار رکھنا کافی مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ ان طیاروں پر سال کے اثرات نظر آنے لگے ہیں۔
طیارے کی یہ صورتحال موجودہ وائٹ ہاؤسکے مکین کو خاصی ناگوار گزری ہے کیونکہ وہ واحد امریکی صدر ہیں جن کے پاس عہدہ سنبھالنے سے پہلے ذاتی جیٹ اور حتیٰ کہ ایک فضائی کمپنی بھی تھی۔
انھوں نے ابوظہبی میں ایک انڈسٹری بریفنگ میں طیارے کی عمر کے بارے میں مبالغہ آمیز انداز میں بات کرتے ہوئے کہا: ’میں اب رخصت ہوتا ہوں اور ایک 42 سالہ بوڑھے بوئنگ پر سوار ہونے جا رہا ہوں۔ لیکن نئے طیارے آ رہے ہیں۔‘

نئے طیارے آ تو رہے ہیں، مگر ٹرمپ کے لیے شاید جلد نہیں۔ اپنے پہلے دور میں، انھوں نے ایک نئے صدارتی طیارے کا اعلان کیا تھا جو بوئنگ بنا رہا تھا۔ انھوں نے ذاتی طور پر اس کا رنگ سکیم منتخب کیا تھا اور جیکی کینیڈی کا روایتی ڈیزائن ہٹا کر سرخ، سفید اور نیلے رنگ کا انتخاب کیا ہے۔ انھوں نے اس نئے طیارے کے ماڈل کو اوول آفس میں فخر سے سجا رکھا ہے۔
یہ طیارے در اصل سنہ 2021 تک تیار ہونے تھے، مگر تاخیر اور لاگت میں اضافے کی وجہ سے اب اس چار ارب ڈالر میں بننے والے دو طیارے کے مکمل ہونے کا امکان بہت کم ہے، خاص طور پر ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے دوران جو جنوری 2029 میں ختم ہو نے والا ہے۔
انھوں نے ٹیکنالوجی کے ارب پتی تاجر ایلون مسک کو طیارے کے مکمل کرنے کے عمل تیز کرنے کا کام سونپا ہے، اور نجی طور پر ان سے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ایسے پرانے طیارے میں سفر کرنا ان کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صدر نے اپنی فضائی نقل و حمل کے مسائل کے حل کے لیے فوری اور پرکشش متبادل پر غور کرنا شروع کر دیا ہے۔ اور یہ متبادل انھیں خلیجی ریاست قطر کی طرف سے پیش کیا گیا ہے۔
گذشتہ ہفتے قطر کی طرف سے انھیں تحفے میں دیے جانے والے 400 ملین ڈالر مالیت کے شاندار 747-8 طیارے کی خبر شہ سرخیوں میں آئی تھی۔ لیکن اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ تحفہ کئی مہینوں سے زیر غور تھا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
فروری کے وسط میں اپنے دوسرے دورِ صدارت کے آغاز کے کچھ ہفتوں بعد ٹرمپ نے خفیہ طور پر اس طیارے کو دیکھا بھی۔
اتنے بڑے غیر ملکی تحفے کے قانونی اور اخلاقی پہلوؤں پر صدر کے ناقدین اور کچھ اتحادیوں کی طرف سے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک غیر ملک کا 747 طیارے کو امریکی صدر کے استعمال کے لیے تیار کرنا کئی تکنیکی چیلنجز بھی پیدا کرتا ہے۔
اس طیارے کو دورانِ پرواز ایندھن بھرنے کے قابل بنانا ہو گا، اور اس میں جدید مواصلاتی اور حفاظتی نظام بھی نصب کرنا ہو گا۔ موجودہ طیارے اس قابل ہیں کہ وہ جوہری دھماکے کی برقی مقناطیسی لہروں سے بھی محفوظ رہیں۔
ہوائی تجزیہ کار اور ایروڈائنامک ایڈوائزری کے مینیجنگ ڈائریکٹر رچرڈ ابوالعافیہ کہتے ہیں کہ اس طیارے کی مکمل تیاری میں کئی سال لگیں گے اور یہ کم از کم 2030 تکن ہی تیار ہو سکے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کے بارے میں ‘انھیں یہ فرض کرنا پڑے گا کہ یہ طیارہ 13 سال تک کسی خطرناک مقام پر لاوارث پڑا رہا ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ طیارے کو صرف کھول دینا کافی نہیں، بلکہ اس کا ہر ایک پرزہ بھی الگ کر کے جانچنا پڑے گا۔’

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اس نئے نظام کو چلانے کے لیے اضافی توانائی بھی درکار ہو گی، اور ہو سکتا ہے کہ اندرونی ترتیب بھی بدلنی پڑے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اصل ڈیزائن میں صحافیوں کے لیے کوئی کیبن موجود نہ ہو۔
سنٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے دفاع و سلامتی شعبے میں سینیئر مشیر مارک کانسیئن کہتے ہیں کہ ایسی تبدیلیوں کی لاگت ایک ارب ڈالر تک جا سکتی ہے۔
تاہم، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ٹرمپ چاہیں تو ان حفاظتی تبدیلیوں میں سے کچھ یا سب کو معاف کر سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’وہ صدر ہیں‘، کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
جب فضائیہ بالآخر موجودہ 747 طیاروں کو ریٹائر کر رہی ہوگی تو وہ ایک ایسے طیارے کو رخصت کرے گی جو کئی دہائیوں تک امریکی تاریخ کا حصہ رہا ہے۔ یہ وہی طیارہ ہے جو صدر بل کلنٹن، جمی کارٹر اور جارج ڈبلیو بش کو 1995 میں اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن کے جنازے میں لے کر اسرائیل پہنچا تھا۔
11 ستمبر کے حملے کے بعد صدر جارج ڈبلیو بش نے اسی طیارے پر گھنٹوں فضا میں سفر کیا اور دورانِ پرواز ایندھن بھرا گیا۔ بہت دیر بعد ہی سکیورٹی ٹیم نے انھیں زمین پر اترنے اور قوم سے خطاب کرنے کی اجازت دی۔ اس کے بعد ہی وہ واشنگٹن واپس پہنچے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
چھ امریکی صدور نے ان طیاروں میں امریکہ کے طول و عرض اور دنیا کے کئی خطوں میں جانے کے لیے ان طیاروں سے سفر کیا ہے۔ انھی میں سے ایک صدر بائیڈن کو 7 اکتوبر کے حماس حملے کے چند دن بعد اسرائیل لے گیا تھا۔
ٹرمپ نے بھی اس طیارے کو اپنی انتخابی مہم کے دوران مؤثر انداز میں استعمال کیا تھا، ہوائی اڈوں پر جلسے کیے، مجمع کے اوپر سے طیارہ گزارا اور پھر لینڈنگ کے بعد انھوں نے اسے اپنی تقریر کے لیے ایک شاندار پس منظر کے طور پر استعمال کیا۔
ٹرمپ کے حالیہ مشرق وسطیٰ کے سفر کے دوران، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے فوجی طیاروں نے ایئر فورس ون کو اپنی فضائی حدود میں تحفظ فراہم کیا۔
اگرچہ یہ طیارہ اب بوڑھا ہو چکا ہے لیکن ایئر فورس ون اب بھی دنیا میں امریکی صدارتی طاقت اور اختیار کی سب سے نمایاں علامتوں میں سے ایک ہے۔ یہ ایک فوجی طیارہ جو ایک اعلیٰ مقصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
ابوالعافیہ کہتے ہیں کہ ’یہ عیش و عشرت کے لیے نہیں بنایا گیا۔ یہ ایک فضائی کمانڈ پوسٹ ہے۔ آپ وہاں پارٹی کرنے نہیں جاتے۔‘
میکس ماٹزا کی اضافی رپورٹنگ کے ساتھ
SOURCE : BBC