SOURCE :- BBC NEWS

kurd and baloch separatists

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, سارہ عتیق
  • عہدہ, بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
  • 23 منٹ قبل

’جیسا کہ کردستان میں علیحدگی کی تحریک ختم ہوئی، میں بلوچستان میں بھی ایسی نام نہاد تحریک کو ختم ہوتے دیکھ رہا ہوں کیونکہ بلوچستان کے لوگوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ بندوق کے زور پر کسی نظریے کو مسلط ہونے نہیں ہونے دیں گے۔‘

وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی حالیہ دنوں میں دو مختلف تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں اُن کے خیال میں بلوچستان میں جاری علیحدگی پسند تحریک کا انجام بھی وہی ہو گا جو آزاد کردستان کے لیے مسلح جدوجہد کرنے والی کالعدم تنظیم ’کردستان ورکرز پارٹی‘ کا ہوا ہے۔

یاد رہے کہ رواں ہفتے کالعدم کُردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) نے اپنی تنظیم تحلیل کرنے اور ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا ہے جسے اس کالعدم تنظیم کے ترکی کے ساتھ گذشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری تنازع کے خاتمے کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔ اس تنازع میں اب تک 40 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ترکی، عراق اور شام میں سرگرم کالعدم کُردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) نے 40 سال تک آزاد کرد ریاست کے قیام کی مسلح کوشش کی۔ اس دورانیے میں ترک ریاست، اس کی سکیورٹی فورسز اور ترکی کے مختلف شہروں میں عسکریت پسندی پر مبنی کارروائیاں کی گئیں جن میں سکیورٹی اہلکاروں کے علاوہ عام شہری بھی نشانہ بنے۔

اس کالعدم تنظیم کی مسلح کارروائیوں کی وجہ سے اسے ترکی، یورپ اور امریکہ کی جانب سے دہشتگرد تنظیموں کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا تھا۔

اس کالعدم تنظیم کے رہنما عبداللہ اوجلان گذشتہ 25 سال سے زائد عرصے سے ترکی کی ایک جزیرے پر واقع جیل میں قید ہیں۔ ترک حکام کے ساتھ حالیہ امن مذاکرات کے نتیجے میں رواں برس فروری میں عبداللہ اوجلان نے اپنی تنظیم کے کارندوں کو ہتھیار ڈالنے اور تنظیم تحلیل کرنے کی اپیل کی تھی اور اب رواں ہفتے انھوں نے اپنی پارٹی تحلیل کرنے اور ہتھیار ڈالنے کا باقاعدہ اعلان کیا ہے۔

تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلوچستان میں شورش اور اس میں سب سے متحرک کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور ترکی میں چالیس سال تک جاری رہنے والے تنازع میں سرگرم کالعدم تنظیم پی کے کے میں ایسی کیا نظریاتی یا عسکریت پسندانہ کارروائیوں میں مماثلت ہے جس کی بنیاد پر وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی کالعدم بی ایل اے کا انجام اسی سے ملتا جلتا قرار دے رہے ہیں؟

kurd separatists

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بی ایل اے اور پی کے کے: کیا ان تنظیموں میں کوئی مماثلت ہے؟

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

اگرچہ پاکستان میں حکام کی جانب سے کبھی کالعدم کردستان ورکرز پارٹی اور بلوچستان کی مسلح علیحدگی پسند کالعدم تنظیموں بشمول بلوچ لبریشن آرمی کے درمیان تعلق یا اتحاد کی کوئی بات نہیں کی گئی ہے تاہم پاکستان میں مسلح علیحدگی پسند تنظیموں پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق گذشتہ کچھ برسوں سے کالعدم بی ایل اے پر کُردمسلح تحریک کا اثر ضرور نظر آتا ہے۔

مسلح گروپوں پر نظر رکھنے والے صحافی و محقق ضیا الرحمان کے مطابق کالعدم بی ایل اے کے لٹریچر میں بھی اکثر کرد مسلح تحریک کا ذکر نظر آتا ہے۔

یاد رہے کہ کالعدم بلوچ شدت پسند گروپوں جیسا کہ بی ایل اے اور بی ایل ایف کی طرح پی کے کے بھی سوشلسٹ نیشنلسٹ نظریے کی حامل مسلح تحریک تھی۔

سکیورٹی تجزیہ کار عامر رانا کے مطابق ’دنیا بھر میں سوشلسٹ نیشنلسٹ نظریے کی حامل اکثر مسلح گروپ، گوریلا جنگ اور اپنی حکمت عملی میں ایک دوسرے سے متاثر ہو کر تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں۔‘

تاہم ماہرین کے مطابق کالعدم بی ایل اے پر کرد تحریک کا اثر گذشتہ برسوں میں تب واضح ہوا جب شدت پسند گروپ نے اپنے خودکش حملوں میں خواتین کا استعمال شروع کیا۔

یاد رہے کہ کالعدم کردستان ورکز پارٹی کی بھی ایک خاص بات اس میں خواتین کا متحرک ہونا تھا۔ خواتین ناصرف اس تنظیم کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہیں بلکہ عسکریت پسندی پر مبنی اور خودکش کارروائیوں میں بھی خواتین کا استعمال کیا گیا۔ اس کالعدم تنظیم کے ضوابط کے مطابق اس تنظیم میں 40 فیصد خواتین کی نمائندگی ضروری ہے۔

کالعدم بی ایل اے کی جانب سے خاتون خودکش حملہ آور کا استعمال پہلی بار اپریل 2022 میں کیا گیا تھا جب شاری بلوچ نامی خاتون نے کراچی یونیورسٹی کے سامنے چینی باشندوں کی ایک وین کو نشانہ بنایا تھا۔

اس سے قبل مذہبی شدت پسند تنظیموں جیسا کہ القاعدہ اور نام نہاد دولت اسلامیہ کی جانب سے اپنی کارروائیوں اور خودکش حملوں میں مبینہ طور پر خواتین کا استعمال کیا لیکن ان خواتین کی شناخت اور ان کی تشہیر کبھی ویسے نہیں کی جیسا کہ کالعدم بی ایل اے نے اپنے اس حملے کے بعد کی تھی۔

صحافی ضیا الرحمان کے مطابق ’اس کی مثال بھی ہمیں کرد مسلح گرپوں میں ملتی ہے جہاں حملے کی بعد تنظیم کی جانب سے خواتین حملہ آوروں تصاویر اور ویڈیوز جاری کی جاتی ہے۔‘

ماہرین کے مطابق اس کی ایک اور واضح مثال اگست 2024 میں یونیورسٹی کی طالبہ ماہل بلوچ نے بلوچستان میں ایف سی کیمپ پر خودکش حملہ کیا اور اپنا عرفی نام ’ذلان کرد‘ کے نام پر رکھا۔

یاد رہے ذلان کردستان ورکرز پارٹی کی پہلی خاتون خودکش حملہ آور تھیں جن کی جانب سے کیے گئے حملے کے نتیجے میں سنہ 1996 میں دس سے زائد ترک فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔

balochistan

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بی ایل اے کی ماہل بلوچ کی جانب سے کیے گئے حملے کے کچھ عرصے بعد کالعدم پی کے کے سے منسلک ایک گروپ ’ایچ بی ڈی ایچ‘ نے ستمبر 2024 میں ترکی کے شہر استنبول میں ایک عسکریت پسندی پر مبنی کارروائی کی۔ اس کارروائی کے بعد ترکی کی کمیونسٹ پارٹی کی ویب سائٹ، جو پی کے کے اور ایچ بی ڈی ایچ کی جانب سے ریلیز کی جانے والی پریس ریلز شائع کرتی ہے، نے اس گروپ سے منسوب ایک بیان شائع کیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ایچ بی ڈی ایچ نے یہ کاروائی کالعدم بی ایل اے کی خودکش حملہ آور ماہل بلوچ اور رضوان بلوچ کے نام کی ہے۔

بلوچ مسلح تحریک پر ریسرچ کرنے والے محقق ڈاکٹر طفیل بلوچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کالعدم بلوچ مسلح گروپوں کی حکمت عملی پر بائیں بازو کے نظریے والے سٹڈی سرکلز کا بڑا اثر و رسوخ ہوتا ہے اور اِن سرکلز میں اکثر دوسری گوریلا تحریکوں کا بغور جائزہ لیا جاتا ہے جن میں کردستان کی تحریک سمیت تامل ٹائیگرز اور الجزائر کی تحریکیں شامل ہیں۔ اور اگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ان تمام ہی عسکریت پسندی پر مبنی تحریکوں میں خواتین کا کردار رہا ہے۔

عامر رانا کا کہنا ہے کہ بے شک کالعدم بی ایل اے اور پی کے کے کی حکمت عملی میں کچھ مماثلت تھی لیکن اِس کی بنیاد پر یہ پیش گوئی کرنا جس حکمت عملی سے کالعدم پی کے کے کو ختم کیا گیا اس طرح کالعدم بی ایل اے کو بھی ختم کر لیا جائے گا، تو یہ ممکن نہیں کیونکہ دونوں گروپوں اور ترکی اور پاکستان کے زمینی حقائق ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

ضیا الرحمان بھی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ پی کے کے کی ایک سیاسی جماعت ترکی کی پارلیمان کا حصہ تھی جبکہ پی کے کے کے رہنما ترکی کے تحویل میں تھے جس کے باعث مذاکرات کے ذریعے اس مسلح تنظیم کا تحلیل ہونا ممکن ہو پایا ہے جبکہ پاکستان میں شدت پسند تنظیموں جیسا کہ کالعدم بی ایل اے کی کوئی سیاسی نمائندگی نہیں ہے۔

SOURCE : BBC