SOURCE :- BBC NEWS
ایک گھنٹہ قبل

،تصویر کا ذریعہMatthew Kapust / SURF
امریکی ریاست جنوبی ڈکوٹا کے جنگلات میں بنی ایک لیبارٹری میں سائنسدانوں کی ٹیم کائنات کے سب سے بڑے رازوں میں سے ایک کا جواب تلاش کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ ہماری کائنات اپنا وجود کیوں برقرار رکھے ہوئے ہے۔
لیکن یہ ٹیم واحد ٹیم نہیں جو اس کا جواب کھوجنے میں لگی ہوئی ہے۔ ان کا مقابلہ جاپانی سائنسدانوں کی ایک ٹیم سے ہے جو اس تحقیق میں ان سے کئی برس آگے ہیں۔
کائنات کے وجود میں آنے کے بارے میں جو سائنسی تھیوری موجود ہے وہ ہمارے ارد گرد موجود سیاروں، ستاروں اور گلیکسیز کے وجود کے بارے میں کوئی وضاحت پیش نہیں کرتی۔
یہ دونوں ٹیمیں ایسے ڈیٹیکٹرز بنانے میں لگی ہوئی ہیں جو نیوٹرینو نامی ایٹم سے بھی چھوٹے ذرات (سب اٹامک پارٹیکلز) کا جائزہ لے سکیں اور ان سوالات کے جواب ڈھونڈ سکیں۔
امریکی قیادت میں کام کرنے والی بین الاقوامی ٹیم کا خیال ہے کہ اس کا جواب زمین کی گہرائی میں کیے جانے والے تجربے ڈیون (ڈیپ انڈر گراؤنڈ نیوٹرینو ایکسپیریمنٹ) سے مل سکتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہNASA
اس کے لیے سائنسدان سطح زمین سے تقریباً 1500 میٹر نیچے موجود زیرِ زمیں غاروں میں جائیں گے۔ یہ اتنی بڑی جگہ ہے کہ اس کے سامنے تعمیراتی عملہ اور ان کے بلڈوزرز کھلونوں کی مانند نظر آتے ہیں۔
اس مرکز کے سائنس ڈائریکٹر ڈاکٹر جیریٹ ہائس ان دیو قامت غاروں کو ’سائنس کا مقدس مقام‘ قرار دیتے ہیں۔ وہ تقریباً 10 سال سے سینفرڈ انڈر گراؤنڈ ریسرچ فیسیلیٹی (سرف) کی ان غاروں کی تعمیر سے منسلک ہیں۔ یہ ڈیون تجربے کو سطح زمین پر موجود شور اور تابکاری اثرات سے محفوظ رکھتی ہیں۔
اب یہ تجربہ اگلے مرحلے کے لیے تیار ہے۔
ڈاکٹر ہائس کہتے ہیں کہ وہ ایک ایسا ڈیٹیکٹر بنانے جا رہے ہیں جو انسانوں کی کائنات کے بارے میں سوچ کو بدل کر رکھ دے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس ڈیٹیکٹر میں 35 ممالک سے تعلق رکھنے والے 1400 سائنسدانوں کی مدد سے آلات لگائے جائیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تمام سائنسدان یہ جاننے کے لیے بے چین ہیں کہ ہمارا وجود کیوں ہے۔
جب کائنات بنی تو اس وقت دو طرح کے ذرات وجود میں آئے: مادہ (میٹر) جس سے ستارے، سیارے اور ہمارے ارد گرد موجود تمام چیزیں دجود میں آئی ہیں جبکہ ضدِ ذرات پر مشتمل مادہ یا اینٹی میٹر اس کا بالکل متضاد ہے۔
نظریاتی طور پر دونوں کے ایک دوسرے سے ٹکرانے کے نتیجے میں توانائی کے ایک بڑے دھماکے کے سوا کچھ نہیں بچنا چاہیے تھا لیکن پھر بھی ہم یہاں ہیں۔

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ میٹر یا مادے نے وہ بڑی لڑائی کیوں جیتی، اس کا جواب نیوٹرینو اور اس کے متضاد اینٹی نیوٹرینو نامی زرات کے مطالعے میں مضمر ہے۔
ڈیون تجربے کے تحت سائنسدان ان دونوں ذرّات کی شعاعیں امریکی ریاست الینوے میں زیرِ زمین غار سے چھوڑی جائیں گی جنھیں 800 میل دور جنوبی ڈکوٹا میں لگائے گئے ڈیٹیکٹرز کی مدد سے پکڑنے کی کوشش کی جائے گی۔
ایسا اس لیے کیا جائے گا کیونکہ جیسے جیسے نیوٹرینو اور اینٹی نیوٹرینو سفر کرتے ہیں ان میں تبدیلی آتی جاتی ہے۔
سائنسدان یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ آیا نیوٹرینو اور اینٹی نیوٹرینو میں آنے والی یہ تبدیلیاں ایک جیسی ہوتی ہیں یا مختلف۔ اگر دونوں میں مختلف انداز میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں تو اس سے شاید اس بات کا جواب مل جائے کہ مادہ اور ضدِ ذرہ پر مشتمل مادہ ٹکرا کر ایک دوسرے کو ختم کیوں نہیں کر دیتے۔
سسیکس یونیورسٹی کی ڈاکٹر کیٹ شا بھی اس تحقیق میں شامل سائنسدانوں میں سے ایک ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ اس تجربے سے ہونے والی دریافت سے ہمارے اپنی کائنات کو دیکھنے کے نظریے کو مکمل طور پر تبدیل کر کے رکھ دے گی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ واقعی بہت پرجوش ہے کہ اب ہمارے پاس ایسی ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور کمپیوٹر سافٹ ویئر کی مہارتیں ہیں جن کی مدد سے ہم ان بڑے سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے کے قابل ہو گئے ہیں۔‘

،تصویر کا ذریعہKamioka/ICRR/Tokyo University
ہزاروں میل دور، دنیا کے دوسرے کونے میں جاپانی سائنسدان چمکیلے سنہری گلوبز کو استعمال کرتے ہوئے ان ہی سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جاپانی سائنسدان ’ہائپر کے‘ نامی نیوٹرینو ڈیٹیکٹر بنا رہے ہیں جو کہ پہلے سے موجود ’سوپر کے‘ نامی ڈیٹیکٹر کا بہتر اور بڑا ورژن ہیں۔
جاپانی قیادت والی یہ ٹیم تین سال سے بھی کم عرصے میں نیوٹرینو شعاعوں کا تجربہ کرے گی جو کہ امریکی پروجیکٹ سے کئی سال پہلے ہو گا۔
ڈیون کی طرح ’ہائپر کے‘ بھی بین الاقوامی تعاون سے کیا جانے والا تجربہ ہے۔ لندن کے امپیریل کالج کے ڈاکٹر مارک سکاٹ سمجھتے ہیں کہ ان کی ٹیم کائنات کے وجود میں آنے کے بارے میں سب سے بڑی دریافت کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ دونوں تجربات کیونکہ ایک ساتھ چل رہے ہیں ’لیکن میں پہلے وہاں پہنچنا چاہوں گا۔‘
لندن کی کوئین میری یونیورسٹی کی ڈاکٹر لنڈا کریمونیسی جو ڈیون پراجیکٹ سے منسلک ہیں، کہتی ہیں کہ جاپانی قیادت میں کام کر رہی ٹیم بے شک اپنا تجربہ پہلے کر پائے گی لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انھیں اس بارے میں مکمل تفصیلات دستیاب ہوں گی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ایک طرح کی ریس ضرور ہے لیکن ’ہائپر کے‘ کے پاس ایسے صلاحیتیں نہیں کہ وہ سمجھ سکیں کہ نیوٹرینو اور اینٹی نیوٹرینو کیسے مختلف طریقے سے برتاؤ کرتے ہیں۔‘
ان تجربات کے پہلے نتائج کچھ سال میں حاصل ہو پائیں گے لیکن تب تک یہ بات ایک معمہ ہی رہے گی کہ ہم اور ہماری کائنات کیسے وجود میں آئی۔
SOURCE : BBC