SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
غزہ پر اسرائیلی فضائی حملے میں ایک ڈاکٹر کے گھر کو نشانہ بنایا گیا اور اس کے 10 میں سے نو بچے ہلاک ہو گئے۔
نصر ہسپتال کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر آلاء النجار کا ایک بچہ اور ان کے شوہر زخمی ہوئے ہیں تاہم وہ زندہ بچ گئے ہیں۔
ہسپتال میں کام کرنے والے برطانوی سرجن گریم گروم، جنھوں نے اسے زندہ بچ جانے والے 11 سالہ بچے کا آپریشن کیا، نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ’ناقابل برداشت ظلم‘ہے کہ ان کی والدہ نے، جنہوں نے بچوں کی دیکھ بھال میں کئی سال گزارے، ایک ہی میزائل حملے میں اپنا سب کچھ کھو دیا۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کے طیاروں نے جمعے کے روز خان یونس میں’متعدد مشتبہ افراد‘ کو نشانہ بنایا تھا اور ’غیر ملوث شہریوں کو نقصان پہنچانے کے دعوے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔‘
حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے ڈائریکٹر کی جانب سے شیئر کی گئی ایک ویڈیو اور بی بی سی نے تصدیق کی ہے کہ خان یونس میں ہونے والے حملے کے ملبے سے چھوٹی جلی ہوئی لاشیں نکالی گئی ہیں۔
خان یونس کا علاقہ ایک خطرناک جنگی علاقہ ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہاں کارروائیاں شروع کرنے سے قبل آئی ڈی ایف نے اپنی حفاظت کے لیے شہریوں کو اس علاقے سے نکال لیا تھا۔ ’
سنیچر کے روز ایک عام بیان میں آئی ڈی ایف نے کہا کہ اس نے گذشتہ روز غزہ بھر میں 100 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیلی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کم از کم 74 افراد کو ہلاک کیا ہے۔
وزارت صحت کے ڈائریکٹر ڈاکٹر منیر البرش نے ایکس پر بتایا کہ ڈاکٹر آلا النجار کے شوہر حمدی اپنی بیوی کو کام پر چھوڑ کر گھر واپس آئے تھے کہ چند منٹ بعد النجار میں ان کے گھر کو نشانہ بنایا گیا۔
ڈاکٹر البرش نے بتایا کہ ڈاکٹر النجار کے بچوں میں سب سے بڑے بچے کی عمر 12 سال تھی۔
ناصر اسپتال وکٹوریہ روز میں کام کرنے والے ایک اور برطانوی سرجن کی انسٹاگرام اکاؤنٹ پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں گروم کہہ رہے ہیں کہ بچوں کے والد ‘بہت بری طرح زخمی’ ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے والد کے سر پر شدید چوٹ لگی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ بچوں کے والد جو خود بھی ہسپتال میں ڈاکٹر ہیں اور ان کا کوئی سیاسی اور فوجی رابطہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ سوشل میڈیا پر نمایاں ہیں۔
انھوں نے اسے ڈاکٹر آلا النجار کے لیے ناقابل تصور صورتحال قرار دیا۔
گروم کا کہنا تھا کہ زندہ بچ جانے والا 11 سالہ لڑکا آدم اپنی عمر کے لحاظ سے ’کافی چھوٹا‘ تھا۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان کا بائیاں بازو لٹکا ہوا تھا، اور جسم زخموں سے بھرا تھا۔‘
’شاید یہ لڑکا زندہ بچ سکتا تھا، لیکن ہم اس کے والد کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔‘
یہ بھی پڑھیے

،تصویر کا ذریعہGetty Images
’ہم نقل مکانی اور بھوک سے تھک چکے ہیں‘
غزہ میں حماس کے زیر انتظام سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود بسال نے جمعہ کی سہ پہر ٹیلی گرام پر بتایا کہ ان کی ٹیموں نے خان یونس میں ایک پٹرول پمپ کے قریب النجار کے گھر سے آٹھ لاشیں اور متعدد زخمی برآمد کیے ہیں۔
ہسپتال نے ابتدائی طور پر فیس بک پر پوسٹ کیا کہ آٹھ بچے ہلاک ہوئے ہیں، پھر دو گھنٹے بعد اس تعداد کو اپ ڈیٹ کرکے نو کر دیا گیا۔
ایک اور ڈاکٹر یوسف ابو الرش نے وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ وہ آپریشن روم میں پہنچے تو ڈاکٹر النجار اپنے زندہ بیٹے کے بارے میں معلومات کا انتظار کر رہی تھیں انھوں نے انھیں دینے کی کوشش کی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ان کے رشتہ دار یوسف النجار نے کہا ’بہت ہو گیا! ہم پر رحم کریں! ہم تمام ممالک، بین الاقوامی برادری، عوام، حماس اور تمام دھڑوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہم پر رحم کریں۔ ہم نقل مکانی اور بھوک سے تھک چکے ہیں، بس!‘
جمعے کے روز اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خبردار کیا تھا کہ غزہ کے لوگ جنگ کے ’ظالمانہ ترین مرحلے‘ کا سامنا کر رہے ہیں اور انھوں نے مارچ میں انسانی امداد پر اسرائیل کی ناکہ بندی کی مذمت کی۔
اسرائیل نے اس ہفتے کے اوائل میں ناکہ بندی کو جزوی طور پر ختم کر دیا تھا۔
اسرائیلی فوج کے ادارے کوگاٹ کا کہنا ہے کہ آٹا، خوراک، ادویات سے لدے مزید 83 ٹرک جمعے کے روز غزہ میں داخل ہوئے۔
اقوام متحدہ نے بارہا کہا ہے کہ علاقے میں داخل ہونے والی امداد کی مقدار علاقے کے 21 لاکھ لوگوں کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس کے مطابق ایک دن میں 500 سے 600 ٹرکوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ زیادہ امداد جانے کی اجازت دے۔
SOURCE : BBC