SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, عمیر سلیمی اور تنویر ملک
- عہدہ, بی بی سی اردو
-
ایک گھنٹہ قبل
آئی ایم ایف نے قرض پروگرام کے سلسلے میں پاکستان سے درآمد شدہ اشیا پر ٹیرف میں کمی کا مطالبہ کیا ہے جن میں پرانی گاڑیوں کی درآمد پر چھوٹ نمایاں ہے۔
مگر یہ پیشرفت جہاں ایک طرف کار ڈیلرز اور امپورٹرز کے لیے خوش آئند ہے تو وہیں گاڑیوں کی تیاری کی صنعت سے وابستہ افراد نے اس حوالے سے اپنے تحفظات ظاہر کیے ہیں۔
معاشی بحالی اور شرح سود میں کمی سے نئی گاڑیوں کی فروخت میں گذشتہ مہینوں کے دوران اضافہ دیکھا گیا تھا مگر ماہرین کا خیال ہے کہ اگر درآمد شدہ گاڑیوں پر ڈیوٹی میں کمی واقع ہوتی ہے تو ایک بڑی تعداد میں لوگ مقامی طور پر بننے والی گاڑیوں کی بجائے ان کا رُخ کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں کار اسمبل کرنے والی کمپنیوں کو عرصہ دراز سے حکومتی پالیسیوں کے تحت تحفظ حاصل رہا ہے مگر آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ آٹو سیکٹر کو درپیش تجارتی رکاوٹیں ختم کی جائیں۔
حکومت فی الحال آئی ایم ایف کی ہدایت پر نیشنل ٹیرف پالیسی پر غور کر رہی ہے جس کے تحت گاڑیوں کی درآمد میں ریلیف کی توقع ہے۔
مگر اس اقدام کے مقامی صنعت اور درآمد شدہ گاڑیوں پر کیا اثرات ہوں گے، اس حوالے سے ہم نے اس شعبے کے ماہرین سے بات کی ہے۔
آئی ایم ایف پاکستان میں پرانی گاڑیوں کی درآمد کیوں آسان بنانا چاہتا ہے؟
آئی ایم ایف کی رواں ماہ جاری کردہ کنٹری رپورٹ کے مطابق پاکستان کے آٹو سیکٹر کو سخت تجارتی رکاوٹوں کا سامنا ہے لہذا نہ صرف ٹیرف یعنی درآمدی کسٹم ڈیوٹی میں کمی درکار ہے بلکہ گاڑیوں کی مقامی صنعت کو حاصل رعایتیں بھی واپس لینا ہوں گی۔

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
آئی ایم ایف رپورٹ کے مطابق پاکستان میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر پابندی ختم کی جائے گی۔
یاد رہے کہ فی الحال پاکستان میں صرف گفٹ سکیم کے تحت اکثر جاپان سے استعمال شدہ گاڑیاں امپورٹ کی جاتی ہیں مگر آئی ایم ایف نے اس میں زیادہ سے زیادہ تین سال پرانی گاڑی کی شرط ختم کر دی ہے۔ اب پانچ سال پرانی گاڑی درآمد کرنے کی بھی اجازت ہوگی۔
آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان کے آٹو اسمبلرز کو ’بیرونی مقابلے سے تحفظ کے لیے حاصل سبسڈی، رعایت اور ترجیح ختم کی جائے۔‘
کنٹری رپورٹ کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ آٹو سیکٹر پر عائد اضافی درآمدی ڈیوٹی یا سیلز ٹیکس کو ختم کیا جائے گا اور ان تبدیلیوں کا 2030 تک آہستہ آہستہ نفاذ کیا جائے گا۔
اس حوالے سے پاکستانی حکومت نئی قومی ٹیرف پالیسی (این ٹی پی) اور آٹو پالیسی پر مشاورت کر رہی ہے جس کا نفاذ یکم جولائی 2025 سے متوقع ہے۔
آئی ایم ایف کنٹری رپورٹ کے مطابق اگلی آٹو پالیسی کے ذریعے مقامی صنعت کو حاصل تحفظ کو بڑے پیمانے پر کم کیا جائے گا اور اس کا نفاذ جولائی 2026 سے متوقع ہے۔
اس کے مطابق گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کے لیے نہ صرف ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی کو ختم کیا جائے گا بلکہ کسٹم ڈیوٹی میں بڑے پیمانے پر کمی کی جائے گی۔

،تصویر کا ذریعہLahore Auto Show
پاکستان میں گاڑیوں کی درآمد پر ٹیرف میں کمی زیرِ غور
پاکستان کی وفاقی حکومت نے نیشنل ٹیرف پالیسی کے تحت اگلے پانچ سال میں ملک میں صنعتی اشیا اور ان کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی میں کمی کا فیصلہ کیا ہے۔
ملک کے صعنتی شعبے میں آٹو سیکٹر ایک کلیدی شعبہ ہے جس میں ملک میں مقامی طور پر گاڑیاں تیار کرنے کے لیے آٹو پارٹس اور دوسرے خام مال کی درآمد کے ساتھ مکمل طور پر تیار گاڑیاں بھی بیرون ملک سے منگوائی جاتی ہیں۔
ٹیکس امور کے ماہر ذیشان مرچنٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ درآمدی اشیا پر اکثر اضافی ٹیرف کو کسٹم ڈیوٹی، ایڈیشنل ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی کے ناموں سے لگایا جاتا ہے تاکہ امپورٹ کی حوصلہ شکنی ہو اور حکومت کو زیادہ ٹیکس بھی ملے۔ ان کے مطابق آٹو پارٹس اور دیگر خام مال پر عائد امپورٹ ڈیوٹی میں کمی سے مقامی صنعت کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
ذیشان مرچنٹ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں پرانی اور نئی گاڑیوں، ان کے خام مال یا پارٹس کے علاوہ کیپٹل گڈز یعنی پلانٹ اور مشینری پر بھی امپورٹ ڈیوٹی عائد کی جاتی ہے۔
آٹو سیکٹر کے نگران حکومتی ادارے انجینیئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) نے ٹیرف پالیسی سے متعلق تجاویز مانگتے ہوئے 17 مئی کو ایک نوٹیفیکیشن میں بتایا کہ سنہ 2030 تک آٹو سیکٹر پر زیادہ سے زیادہ ٹیرف سلیب کو اگلے پانچ برسوں میں 15 فیصد تک لایا جائے گا جبکہ ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی کو اگلے پانچ سال میں ختم کرنے کی تجویز زیرِ غور ہے۔
ای ڈی بی کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی کو چار سال میں ختم کیا جائے گا جس کا آغاز آنے والے مالی سال سے کیا جائے گا۔ اسی طرح اگلے پانچ سال میں ریگولیٹری ڈیوٹی کو ختم کر دیا جائے گا۔
ففتھ شیڈول کو بھی اگلے پانچ سال میں ختم کر دیا جائے گا جو کسٹم ایکٹ کا حصہ ہے جو کیپٹل گڈز اور صعنتی خام مال کی درآمد سے متعلق ہے۔ اسی طرح کسٹم ڈیوٹی کے چار سلیب ہوں گے جو موجودہ وقت میں پانچ ہیں اور اس میں بھی زیادہ سے زیادہ کسٹم ڈیوٹی 15 فیصد تک ہو گی۔ موجودہ پانچ سلیبز میں کسٹم ڈیوٹی زیرو فیصد، تین فیصد، 11 فیصد، 16 فیصد اور زیادہ سے زیادہ 20 فیصد ہے۔ نئے سلیب میں کسٹم ڈیوٹی زیرو، پانچ فیصد، دس فیصد اور زیادہ سے زیادہ 15 فیصد ہو گی۔
تاہم وزارت صنعت کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ تجاویز حتمی نہیں ہیں مگر حکومت رواں سال پرانی گاڑیوں کی درآمد پر قانون سازی کرے گی اور اگلے سال کے بجٹ سے آٹو سیکٹر پر عائد امپورٹ ٹیرف میں کمی ہوسکتی ہے۔
کیا آٹو سیکٹر پر ٹیرف میں نرمی سے مقامی صنعت متاثر ہوگی؟
پاکستان میں گاڑیوں کے مقامی اسمبلرز کی نمائندہ تنظیم پاما کے ڈائریکٹر جنرل عبدالوحید خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ سوال کیا کہ ٹویوٹا، ہنڈا، سوزوکی یا کِیا جیسے برانڈز پہلے ہی دنیا بھر میں گاڑیاں اور پارٹس بیچ رہے ہیں تو یہ کیسے پاکستان میں اپنے چھوٹے مینوفیکررز کو عالمی سطح پر فروخت اور دیگر سپلائرز سے مقابلے کی اجازت دیں گے۔
وہ مثال دیتے ہیں کہ اگر وہ خود ہی ہنڈا کار بنا کر افریقہ میں بیچ رہے ہیں تو وہ کیوں چاہیں گے ’میں بھی اپنی کار افریقہ میں جا کر بیچوں۔‘
ان کا خیال ہے کہ پرانی گاڑیوں کی درآمد پر ریلیف دینے سے ’امپورٹڈ کار کا متبادل دینے والی‘ موجودہ صنعت کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ درآمدی ڈیوٹی میں اس ریلیف سے غیر ملکی زر مبادلہ میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔
پاما کے نمائندے نے بتایا کہ آٹو سیکٹر سے 30 لاکھ لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اور گذشتہ دہائیوں میں اس صنعت کو کھڑا کرنے میں بھاری سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ ’حکومت تین کروڑ کی کار پر ایک کروڑ ٹیکس لیتی ہے۔ اس وقت حکومت کے خزانے میں ایک کھرب سے زیادہ کا خسارہ ہے، اگر یہ ڈیوٹی ختم کر دیں گے جو پیٹرولیم کے بعد آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ ہے تو یہ آمدن کہاں سے آئے گی؟ نوکریاں بھی ختم ہوجائیں گی۔‘
عبدالوحید خان کہتے ہیں کہ اس اقدام کا مقامی اسمبلرز پر منفی اثر پڑے گا۔
ادھر آٹو سیکٹر ماہر مشہود علی خان کا کہنا ہے کہ پرانی گاڑیوں کی درآمد پر اس ریلیف کے بعد انھیں مقامی طور پر تیار کردہ گاڑیوں پر برتری حاصل ہوگی۔
وہ بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ اس اقدام سے گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی ہوسکتی ہے۔ ’ٹیرف میں کمی سے مقابلہ بڑھے گا۔ ٹیکس میں کمی یا مارکیٹ میں مقابلہ، یہی دو چیزوں قیمتوں میں کمی کا باعث بنتی ہیں۔ سنہ 2006-2007 میں جب چینی بائیکس جاپانی بائیک کے مدمقابل ہوئیں تو قیمتیں بھی کم ہوئیں اور والیوم بھی بڑھا۔ ڈیڑھ دو، لاکھ کی مارکیٹ آج 20 لاکھ بائیکس سے تجاوز کر گئی۔’
مگر وہ کہتے ہیں کہ گاڑی تین کی بجائے پانچ سال پرانی درآمد ہوگی تو اس کی قیمت تو کم ہوجائے گی مگر یہ فائدہ ’اِن دو ڈھائی لاکھ لوگوں کو ہی ہو گا جو سالانہ پاکستان میں گاڑیاں خریدتے ہیں۔ عوام بڑے پیمانے پر اب بھی ٹو وہیلرز سے فور وہیلرز پر منتقل نہیں ہو پائے گی۔‘
ان کی رائے ہے کہ اس پالیسی سے ’ایک مخصوص طبقہ ہی فائدہ اٹھائے گا۔‘ وہ مثال دیتے ہیں کہ درآمد شدہ گاڑیوں پر ٹیرف میں نرمی کا مطلب یہ بھی ہے کہ ’جو پہلے 11 کروڑ کی لینڈ کروزر خرید رہا تھا، وہ اب نو کروڑ کی خرید لے گا۔‘
ان کا خیال ہے کہ پاکستان کی آٹو انڈسٹری عالمی سطح پر مقابلہ نہیں کر سکتی، اسی لیے اسے تحفظ دیا گیا تھا۔
’عالمی سپلائی چین کا حصہ بننے کے لیے ابھی بہت محنت درکار ہے۔۔۔ ویتنام، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، انڈیا، تائیوان جیسے ملکوں سے مقابلہ کر کے اپنی جگہ بنانی ہوگی اور اس میں ہم بہت پیچھے ہیں۔‘
کیا ٹیرف میں نرمی سے طویل مدت میں برآمدات بڑھ پائیں گی، مشہود علی خان اس حوالے سے زیادہ پُرامید نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگلے پانچ سال میں امپورٹڈ گاڑیوں کی تعداد بہت بڑھ جائے گی جس سے ’تجارتی خسارہ بڑھے گا کیونکہ پارٹس مینوفیکچرر کم اور امپورٹر زیادہ ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ پرانی گاڑیوں کی درآمد بڑھے گی بلکہ اسمبلرز بھی مقامی طور پر تیار کردہ پارٹس کی بجائے کم قیمت کے باعث درآمدہ شدہ پارٹس کو ترجیح دیں گے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
کیا پرانی گاڑیوں کی درآمد پر ریلیف کے بعد ان کی قیمت کم ہو سکتی ہے؟
آل پاکستان موٹرز ڈیلرز اسوی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت پرانی گاڑیاں گفٹ سکیم کے تحت درآمد کی جاتی ہیں جن پر عائد ڈیوٹی اور ٹیکسز ڈالر میں وصول کیے جاتے ہیں جو حکومت کے لیے آمدن کا ایک ذریعہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جس شخص کے نام پر گاڑی آتی ہے، وہی اس کی ڈیوٹی اور ٹیکسز ڈالر میں ادا کرنے کا پابند ہے، لہذا ان کے بقول یہ واحد امپورٹڈ چیز ہے جس پر حکومت کو ڈالر میں آمدن ہوتی ہے۔
اس وقت پاکستان میں گفٹ سکیم کے تحت درآمد کی جانے والی گاڑیوں پر کتنی ڈیوٹی اور ٹیکسز ہیں، اس بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ چھوٹی 660 سی سی گاڑیوں پر 50 فیصد کسٹم ڈیوٹی کے علاوہ مختلف ٹیکسز ملا کر 90 فیصد تک وصول کیا جاتا ہے جو کہ 1300 سی سی تک کی کار کے لیے 110 فیصد اور 1500 سی سی کے لیے 130 فیصد تک ہے۔ ان بڑی کاروں پر 60 فیصد سے 100 فیصد تک صرف کسٹم ڈیوٹی وصول کی جاتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ڈیوٹی میں کمی اور پانچ سال تک پرانی گاڑیوں کا ریلیف قیمتوں میں بڑی کمی کا سبب بن سکتے ہیں۔
وہ مثال دیتے ہیں کہ اگر تین سال پرانی گاڑی ’میرا‘ قریب پانچ ہزار ڈالر کی ہے تو یہی کار پانچ پرانی ہو تو ڈھائی ہزار ڈالر تک کی مل سکتی ہے۔ یعنی ساڑھے سات لاکھ روپے صرف گاڑی کی قیمت میں کم ہوجاتے ہیں جبکہ ڈیوٹی میں ریلیف مزید کمی کا باعث بن سکتا ہے۔
شہزاد پوچھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کیوں نہ مقامی صنعت کا درآمد شدہ گاڑیوں سے برابر کا مقابلہ ہو۔ ’ہماری گاڑیوں میں لوکلائزیشن نہیں، ہم اسمبلر ہیں۔ جب تک لوکلائزیشن نہیں ہو گی، ہم سستی کار نہیں بنا سکتے۔‘
انھوں نے کہا کہ مقامی طور پر اسمبل ہونے والی گاڑیاں، چونکہ اتنی لوکلائزڈ نہیں، اس لیے ان کے پارٹس کی درآمد پر ڈیوٹی کا فارمولہ الگ ہے جس میں حکومت نے اس شعبے کو بعض رعایتیں دے رکھی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی درآمد پر ریلیف ملک میں گاڑیوں کی اسمبلی کے لیے موجودہ پالیسیوں پر نظرثانی کا موقع ہے،کیونکہ یہ ممکن ہے کہ پانچ سال پرانی گاڑی کی درآمد پر چھوٹ ان کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتی ہے۔
SOURCE : BBC