SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہAli Khan Mahmudabad/FB
- مصنف, دلنواز پاشا
- عہدہ, نمائندہ بی بی سی
-
35 منٹ قبل
انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ تنازعے کے دوران کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کی پریس بریفنگ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے والے پروفیسر علی خان محمود آباد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اس گرفتاری کے خلاف سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث جاری ہے اور اس حوالے سے انڈیا میں ‘اشوکا یونیورسٹی’ ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہے۔
ان کی گرفتاری دہلی سے ملحقہ ریاست ہریانہ کی سونی پت پولیس کے ہاتھوں مقامی باشندے یوگیش کی شکایت کی بنیاد پر عمل میں لائی گئی ہے۔ ہریانہ پولیس نے پروفیسر علی خان کے خلاف ’دو برادریوں کے درمیان منافرت‘ پیدا کرنے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
پروفیسر علی خان ہریانہ کی اشوکا یونیورسٹی میں اسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ ان کی اہلیہ نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس اتوار کی صبح تقریباً ساڑھے چھ بجے ان کے گھر پہنچی اور پروفیسر علی خان کو اپنے ساتھ لے گئی۔
اس سے قبل اس معاملے میں ہریانہ ریاست میں خواتین کی کمیشن نے بھی پروفیسر علی خان کو سمن جاری کر کے ان سے جواب طلب کیا تھا جس کے خلاف بہت سے لوگوں نے اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کروایا ہے۔

،تصویر کا ذریعہVineet Kumar
پورا معاملہ کیا ہے؟
اس معاملے میں بی بی سی کے نامہ نگار چندن کمار ججواڑے نے شکایت کنندہ یوگیش سے بات کی ہے۔
یوگیش نے کہا ہے کہ وہ جٹھیڑی گاؤں کے سرپنچ بھی ہیں اور یہ کہ انھوں نے ہی اس معاملے میں ایف آئی آر درج کروائی ہے۔ یوگیش نے کہا ہے کہ وہ بی جے پی کے رکن بھی ہیں حالانکہ ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے کا پارٹی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
خیال رہے کہ 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب پاکستان کے خلاف انڈین فوج کے ‘آپریشن سندور’ کے بعد خارجہ سیکریٹری وکرم مصری کے ساتھ کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ نے پریس بریفنگ میں معلومات دی تھیں۔
اس کے بعد آٹھ مئی کو پروفیسر علی خان محمود آباد نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لکھی تھی۔ اس پوسٹ میں انھوں نے کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کو پریس بریفنگ میں بھیجنے کے بارے میں لکھا تھا۔
اس کے علاوہ پروفیسر علی خان نے اپنی پوسٹ میں انڈیا-پاکستان تنازع اور ’جنگ کا مطالبہ کرنے والوں‘ کے جذبات کے بارے میں بھی لکھا اور جنگ کے نقصانات بھی بتائے۔

،تصویر کا ذریعہhscw.in
ہریانہ سٹیٹ ویمن کمیشن کا سمن

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
ہریانہ سٹیٹ ویمن کمیشن نے ان کی پوسٹ کا ازخود نوٹس لیا اور انھیں 12 مئی کو سمن جاری کیا۔ اس سمن میں کہا گیا کہ ان کا بیان مسلح افواج میں خواتین کی مبینہ طور پر توہین اور فرقہ ورانہ منافرت کو ہوا دے رہا ہے۔
ہریانہ ویمن کمیشن نے اپنے نوٹس میں چھ نکات کا تذکرہ کیا اور ساتھ ہی ’کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ سمیت یونیفارم میں خواتین کی توہین کرنے اور انڈین مسلح افواج میں پیشہ ور افسران کے طور پر ان کے کردار کو کمزور دکھانے‘ کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ ہریانہ ویمن کمیشن نے پروفیسر علی خان کو کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے لیے 48 گھنٹے کا وقت دیا اور ان سے تحریری جواب بھی طلب کیا ہے۔
اس کے بعد پروفیسر علی خان کے وکلا نے ان کی جانب سے خواتین کمیشن کو تحریری جواب دیا۔ جواب میں انھوں نے آئین کے آرٹیکل 19 (1) کے تحت اظہار رائے کی آزادی کا حوالہ دیا۔
پروفیسر علی خان کے وکلا نے کہا کہ وہ تاریخ اور سیاسیات کے پروفیسر ہیں اور انھوں نے یہ بیانات ’اپنی علمی اور پیشہ ورانہ مہارت کا استعمال کرتے ہوئے‘ دیے ہیں اور جسے ’غلط سمجھا گيا ہے۔‘
سنیچر یعنی 17 مئی کو ہریانہ کے سونی پت کے مقامی باشندے یوگیش نے پروفیسر علی خان کے ان بیانات کے حوالے سے ایف آئی آر درج کروائی تھی۔
اس شکایت کی بنیاد پر ہریانہ پولیس نے انھیں گذشتہ روز اتوار کو گرفتار کر لیا۔
ہریانہ پولیس نے پروفیسر علی خان کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 196 (1) بی، 197 (1) سی، 152 اور 299 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔

،تصویر کا ذریعہAli Khan Mahmudabad/FB
پروفیسر علی خان نے کیا کہا؟
آٹھ مئی کو کی گئی ایک پوسٹ میں پروفیسر علی خان نے لکھا: ’میں بہت سے دائیں بازو کے مبصرین کو کرنل صوفیہ قریشی کی تعریف کرتے ہوئے دیکھ کر خوش ہوں، لیکن شاید یہ لوگ اسی طرح ماب لنچنگ، گھروں کو مسمار کرنے اور بی جے پی کی منافرت سے متاثرہ افراد کے لیے آواز اٹھا سکتے ہیں کہ ان لوگوں کو انڈین شہری ہونے کے ناطے تحفظ دیا جائے۔‘
پروفیسر علی خان نے لکھا: ’دو خواتین فوجیوں کے ذریعے معلومات دینے کا نظریہ اہم ہے لیکن اس نظریے کو حقیقت میں بدلنا چاہیے، نہیں تو یہ محض منافقت ہے۔‘
تاہم پروفیسر علی خان نے اپنی پوسٹ میں انڈیا کے تنوع کی تعریف کی ہے۔
انھوں نے لکھا: ’عام مسلمانوں کو درپیش زمینی حقیقت اس سے مختلف ہے جو حکومت دکھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ پریس کانفرنس (کرنل صوفیہ اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کی پریس بریفنگ) سے پتہ چلتا ہے کہ انڈیا تنوع میں یگانگت کی سوچ پر عمل پیرا ہے اور ایک خیال کے طور پر یہ ابھی پوری طرح سے مرا نہیں ہے۔‘
پروفیسر علی خان نے اپنی پوسٹ کے آخر میں انڈین جھنڈے کے ساتھ ’جے ہند‘ لکھا ہے۔

،تصویر کا ذریعہVineet Kumar
پروفیسر علی خان کی اہلیہ اور وکیل نے کیا کہا؟
پروفیسر علی خان محمود آباد کی گرفتاری کے بارے میں جاننے کے لیے بی بی سی نے ان کی اہلیہ سے بات کی ہے۔
پروفیسر علی خان کی اہلیہ عنائزہ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’صبح تقریباً ساڑھے چھ بجے پولیس کی ایک ٹیم اچانک ہمارے گھر پہنچی اور پروفیسر علی خان کو بغیر کوئی اطلاع دیے اپنے ساتھ لے گئی۔‘
عنائزہ نے کہا کہ ’میں نو ماہ کی حاملہ ہوں، جلد ہی ڈلیوری ہونے والی ہے۔ میرے شوہر کو بغیر کسی ٹھوس وجہ کے زبردستی گھر سے لے جایا گیا ہے۔‘
دریں اثنا پروفیسر علی خان محمود آباد کے وکلا کی ٹیم کے ایک وکیل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم یہ فرض کر رہے ہیں کہ انھیں گرفتار کر لیا گیا ہے اور انھیں ٹرانزٹ ریمانڈ پر سونی پت لے جایا جا رہا ہے۔ انھیں وہاں کی مقامی عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ ابھی ہم مزید معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
ہریانہ پولیس نے پروفیسر علی خان محمود آباد کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق پولیس نے انھیں فوج کے ’آپریشن سندور‘ پر تبصرہ کرنے پر گرفتار کیا ہے۔

،تصویر کا ذریعہANI
سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث
پروفیسر علی خان محمود آباد کی گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر کئی معروف لوگوں نے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
سوراج ابھیان کے شریک بانی یوگیندر یادو نے کہا کہ پروفیسر علی خان کی گرفتاری چونکا دینے والی ہے۔
علی خان محمود آباد کی پوسٹ شیئر کرتے ہوئے یوگیندر یادو نے ایکس پر لکھا: ‘اس پوسٹ کو پڑھیں اور اپنے آپ سے پوچھیں کہ اس میں عورت مخالف کیا ہے؟ یہ پوسٹ کس طرح مذہبی منافرت پھیلا رہی ہے؟ اور یہ انڈیا کے اتحاد، سالمیت اور خودمختاری کو کیسے خطرے میں ڈال رہی ہے؟ (ایف آئی آر میں انڈین جسٹس کوڈ کی دفعہ 152)) پولیس ایسی شکایت کی بنیاد پر کیسے کارروائی کر سکتی ہے؟’
یوگیندر یادو نے یہ بھی لکھا: ‘یہ بھی پوچھیے کہ کیا مدھیہ پردیش کے اس وزیر کے خلاف کوئی کارروائی ہوئي جس نے درحقیقت کرنل صوفیہ کی توہین کی ہے؟’
مورخ رام چندر گوہا نے پروفیسر علی خان کی گرفتاری کی خبر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا: ‘جمہوریت کی ماں۔’
مصنف اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند نے کہا کہ ‘ہریانہ پولیس نے علی خان محمود آباد کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا ہے۔’
پروفیسر اپوروانند نے ایکس پر لکھا: ‘ہریانہ پولیس نے ڈاکٹر علی خان کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا ہے۔ انھیں دہلی سے بغیر ٹرانزٹ ریمانڈ کے ہریانہ لے جایا گیا۔ رات 8 بجے ایف آئی آر درج کی گئی اور پولیس اگلی صبح 7 بجے ان کے گھر پہنچ گئی!’
انھوں نے اس معاملے میں دہلی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے مداخلت کا مطالبہ کیا ہے اور پربیر پورکایستھ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا ذکر کیا ہے۔
دوسری طرف راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے ایم پی منوج کمار جھا نے بھی علی خان محمود آباد کی گرفتاری کے بارے میں پوسٹ کرتے ہوئے لکھا: ’حقیقی جمہوریت وہ ہے جہاں آپ اپنی رائے کا اظہار کرنے پر ’بند‘ نہ کر دیے جائیں۔
انھوں نے لکھا کہ ’علی خان محمود آباد انڈیا کے نامور سکالرز میں سے ایک ہیں جن کی عالمی پہچان ہے۔ اگر انھیں مکی ماؤس جیسے الزام میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ہے تو یہ صرف ان کے نام کی وجہ سے ہے۔‘
دریں اثناء ‘دی ہندو’ اخبار کی صحافی سوہاسنی حیدر نے کہا کہ پروفیسر علی خان کی پوسٹ امتیازی سلوک سے متعلق تھی۔ انھوں نے کہا: ‘انھیں گرفتار کر لیا گیا ہے، جب کہ ایک وزیر نے اس معاملے پر فرقہ وارانہ تبصرہ کیا اور وہ آزاد گھوم رہا ہے۔’
اس سے پہلے 1203 لوگوں نے ہریانہ سٹیٹ ویمن کمیشن کے سمن کے خلاف پروفیسر علی خان کی حمایت میں ایک خط جاری کیا تھا۔
اس خط کے ذریعے ان لوگوں نے ہریانہ سٹیٹ ویمن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ ‘سمن واپس لے اور پروفیسر علی خان محمود آباد سے عوامی طور پر معافی مانگے۔’
جبکہ کئی صارفین نے ان کے اباؤ اجداد کا ذکر کیا ہے جو تحریک آزادی میں ایک زمانے پاکستان کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے والی سیاسی پارٹی مسلم ليگ سے قریب تھے۔
سکرول کے مدیر نریش فرنانڈیز نے ششی تھرور، اسدالدین اویسی اور پرینکا چترویدی کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ ‘دنیا کا دورہ کرنے والے آل پارٹی مندوب کس طرح سے اس گرفتاری کی دنیا کو وضاحت پیش کریں گے؟’
اس کے ساتھ ہی ان لوگوں نے اشوکا یونیورسٹی سے اپنے پروفیسر کے ساتھ کھڑے ہونے کی اپیل کی لیکن جب اشوکا یونیورسٹی نے اس معاملے سے علیحدگی کا اعلان کیا اس کے بعد سے وہ ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہے۔
دہلی یونیورسٹی سے وابستہ تاریخ کی استاد ڈاکٹر روچیکا شرما نے ایکس پر لکھا: ‘اشوکا یونیورسٹی نے خود کو اپنے ہی گرفتار ہونے والے فیکلٹی سے دور کر لیا۔ کیسا مذاق ہے۔ اگر آپ ریاست کے دباؤ میں اپنی فیکلٹی کا ساتھ نہیں دے سکتے تو براہ کرم اپنے آپ کو ‘لبرل آرٹس یونیورسٹی’ کہنا چھوڑ دیں۔’

،تصویر کا ذریعہsocial media
پروفیسر علی خان کون ہیں؟
پروفیسر علی خان اشوکا یونیورسٹی، ہریانہ میں اسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ یہ ایک پرائیویٹ یونیورسٹی ہے۔
علی خان محمود آباد علم سیاسیات اور تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ وہ شعبہ سیاسیات یعنی پولیٹیکل سائنس شعبے کے سربراہ بھی ہیں۔
علی خان محمود آباد کی فیس بک پروفائل کے مطابق وہ اتر پردیش کے محمود آباد کے رہائشی ہیں۔
اشوکا یونیورسٹی کی آفیشل ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق انھوں نے امریکہ کے ایمہرسٹ کالج سے تاریخ اور سیاسیات میں گریجویشن کیا ہے۔
اس کے بعد انھوں نے دمشق یونیورسٹی شام سے ایم فل کیا۔ اس عرصے میں انھوں نے نہ صرف شام بلکہ لبنان، مصر اور یمن کا بھی سفر کیا اور کچھ وقت ایران اور عراق میں بھی گزارا۔ انھوں نے کیمبرج یونیورسٹی، انگلینڈ سے پی ایچ ڈی مکمل کی تھی۔
اپنے انسٹاگرام اور ایکس پروفائل میں علی خان محمود آباد نے خود کو سماج وادی پارٹی کا لیڈر بتایا ہے۔ ان کے انسٹاگرام اور فیس بک ٹائم لائن پر پارٹی سربراہ اور ریاست اترپردیش کے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو کے ساتھ ان کی کچھ تصاویر بھی ہیں۔
تاہم اس معاملے پر نہ تو سماج وادی پارٹی اور نہ ہی اکھلیش یادو نے کوئی ردعمل ظاہر کیا ہے۔
SOURCE : BBC