SOURCE :- BBC NEWS

ایران

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, مسعود آزر
  • عہدہ, بی بی سی فارسی
  • ایک گھنٹہ قبل

ایران میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں جنم لینے والے شدید مظاہروں کو دو سال کا عوصہ گزر چکا ہے۔ یہ مظاہرے اُس وقت شروع ہوئے تھے جب مہسا امینی کو ایران کی اخلاقی پولیس کی جانب سے حراست میں لے لیا گیا تھا اور ان کی وفات بھی وہیں ہوئی تھی۔

گو کہ اب ایران کی حکومت کی کوشش ہے کہ دنیا کو یہ دکھائے کہ انھوں نے اس بحران پر قابو پالیا ہے، لیکن لازمی حجاب کا قانون اور خواتین کی جانب سے اسے مسترد کرنا ابھی بھی حکام کے لیے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔

حال ہی میں ایرانی حکومت نے پارلیمنٹ کے منظور کیے گئے حجاب کے سخت قوانین کو نافذ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کے باوجود اب بھی ایران میں ریاستی قوانین کو مسترد کرنے والی خواتین کو جرات دکھانے کی اکثر و بیشتر بھاری قیمت چُکانا پڑتی ہے۔

ایران میں ججز کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ اکثر روایتی سزاؤں کو علامتی یا نظریاتی اقدامات کے ساتھ جوڑ کر فیصلے سنا سکیں۔

ایران کی مشہور اداکارہ ترانہ علی دوستی حال ہی میں ایسی ہی پابندیوں کا شکار ہوئی ہیں۔

ترانہ نے 2016 کی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ’دی سیلز مین‘ میں اپنی اداکاری کے باعث شہرت حاصل کی تھی۔ وہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والی ’عورت، زندگی، آزادی‘ کی تحریک کی کھل کر حمایت کرتی رہی ہیں اور حجاب نہ پہن کر اس قانون کی مخالفت کرتی ہیں۔

ان کے ان اقدامات پر ردعمل تو متوقع تھا ہی لیکن ان پر لگائی گئی سخت پابندیوں نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا ہے۔

ترانہ علی دوستی کے معاملے نے اُس وقت توجہ حاصل کی جب انھیں ملک کے جنوبی علاقے کے جزیرے قشم جانے والی ایک فلائٹ میں سوار ہونے سے روک دیا گیا۔

ان کے وکیل نے بتایا کہ ترانہ کے سفر کرنے یا مالی لین دین کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ تاہم ایران کی عدلیہ کے ایک ترجمان نے ان پابندیوں کی تردید کی ہے۔

ترانہ علی دوستی کے خلاف اقدامات دراصل حکومت کی وسیع حکمت عملی کی عکاسی کرتے ہیں۔ جس کے تحت ان کا مقصد اُن با اثر شخصیات پر قابو پانا ہے جو مزید حکومت مخالفت جذبات کو ہوا دے سکتی ہیں۔

دوسری جانب سخت حکومتی فیصلے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایرانی عدلیہ عوام کی بڑھتی ہوئی مزاحمت اور حجاب قوانین کے خلاف عدم تعاون کے سامنے خود کو بے بس محسوس کر رہی ہے۔

ترانہ  علی دوستی اور سعید روسطائی مئی 2022 میں  فرانس میں پیلیس ڈیس فیسٹیول میں 75 ویں سالانہ کانز فلم فیسٹیول کے دوران لیلیٰ  برادراز کے لیے پریس کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

ایران میں ’خاتون، زندگی، آزادی‘ تحریک کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پردیگر بہت سی مشہور شخصیات نے بھی اپنے حجاب اتار دیے تھے۔

مشہور اداکارہ آزادہ صمدی کو چھ ماہ کے لیے سوشل میڈیا استعمال کرنے سے روک دیا گیا تھا۔

اپنے ایک غیرمعمولی فیصلے کے تحت ایرانی عدالت نے انھیں ’اینٹی سوشل شخصیت کے عارضے‘ کے علاج کے لیے نفسیاتی تھراپی کروانے کا حکم دیا اور ان سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ علاج مکمل ہونے کے بعد ہیلتھ سرٹیفکیٹ پیش کریں۔

اسی طرح کی سخت پابندیوں کا سامنا سینئر اداکارہ افسانہ بیگم کو بھی کرنا پڑا تھا۔ انھیں بھی سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی کے ساتھ ساتھ تھراپی سیشنز میں شرکت کا حکم دیا گیا تھا۔

ایسے فیصلے ایرانی عوام اور قانونی ماہرین میں غم و غصے کا باعث بنے جنھوں نے ان فیصلوں کی قانونی حیثیت اور اخلاقی بنیادوں پر سوالات کھڑے کیے ہیں۔

ایران کے نامور فلم ساز سعید روسطائی کو اپنی تنقیدی فلم ’لیلیٰ برادرز‘ سے جہاں لازوال شہرت ملی، وہیں وہ اس کے سبب حکومتی پابندیوں کے نشانے پر بھی آگئے۔

انھیں ایک فیصلے کے تحت فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد سے میل جول رکھنے سے روک دیا گیا تھا۔

اس فیصلے کا مقصد سعید روسطائی کو پیشہ ورانہ طور پر تنہا کرنا اور دیگر فلم سازوں کو حساس موضوعات پر کام کرنے سے باز رکھنا تھا۔

یہی نہیں بلکہ انھیں ’اخلاقی فلم سازی‘ کا ایک ریاستی کورس کرنے کا بھی حکم دیا گیا۔ اس کے علاوہ سعید روسطائی کو حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے الزام میں چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

اس الزام کے ثبوت کے طور پر ان کی فلم لیلیٰ برادرز کو کانز فلم فیسٹیول میں پیش کرنے کا حوالہ دیا گیا تھا۔

فوٹوجرنلسٹ یلدا معیری کو بھی چھ سال قید کی سزاکے ساتھ پانچ دیگر سزائیں بھی سنائی گئیں تھیں۔ ان میں ایک 100 صفحات پر مشتمل مقالہ لکھنے کا حکم بھی شامل تھا۔

اس مقالے میں حجاب کے حامی آیت اللہ کے خیالات کا تجزیہ کرنا شامل تھا۔ ان پر دو سال کے لیے موبائل فون اور سوشل میڈیا کے استعمال کی پابندی لگا دی گئی اور انھیں خواتین کے ایک پارک میں دو ماہ تک صفائی کا کام کرنے کا حکم دیا گیا۔

یہ فیصلے نہ صرف عجیب اور سخت ہیں بلکہ اس بات کی بھی علامت ہیں کہ حکومت اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے کس حد تک جا سکتی ہے۔

شروین حاجی پور

،تصویر کا ذریعہGetty Images

گزشتہ سال مارچ کا جائزہ لیں تو اس دوران معروف گلوکار شروین حاجی پور سے متعلق ایک انتہائی متنازع فیصلہ سامنے آیا تھا۔

شروین حاجی پور کو اپنے مشہور نغمے فار پر ایک مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ گانا مہسا امینی تحریک کا ترانہ بن گیا تھا اور انھیں اس گانے کے لیے ’بہترین سماجی تبدیلی کے گانے‘ کی کیٹگری میں پہلا گریمی ایوارڈ بھی ملا۔

عدالت نے انھیں قید کی سزا اور سفری پابندی کے ساتھ ساتھ دو مذہبی کتابیں پڑھنے اور ان کا خلاصہ لکھنے کا حکم بھی دیا تھا۔

ان کتابوں کا عنوان ’اسلام میں عورت کے حقوق‘ اور ’عورت عظمت اور حسن کے آئینے میں‘ تھا جو معروف آیت اللہ کی تصانیف ہیں۔

شروین حاجی پور کی سزا پر وسیع پیمانے پر تنقید ہوئی، جس کے نتیجے میں یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ ایران کے عدلیہ کے سربراہ غلام حسین محسنی نے اس طرح کے فیصلوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ سزائیں ایسی ہونی چاہییں جو روک تھام کا ذریعہ بنیں اوران کا الٹا اثر نہ ہو۔

ترانہ

،تصویر کا ذریعہTaraneh Alidoosti

بند دروازوں کے پیچھے سماعتیں

ایران کی عدلیہ کی جانب سے ‘عجیب و غریب’ سزائیں دینا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ برسوں کے دوران کارکنوں، صحافیوں اور فنکاروں کو غیر معمولی سزائیں دی گئی ہیں، جو اکثر ان کی تذلیل کا باعث بنتی ہیں۔

اگرچہ سرعام کوڑے مارنا اور قید کرنا بھی ایران میں عدالتی نظام کا بنیادی حصہ ہے لیکن حالیہ سزائیں ساکھ اور اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے ایک حربے کے طور پر دی گئی ہیں۔

عدالتی نظام میں حالیہ تبدیلیوں کے باوجود بشمول عوامی مقدمات تک زیادہ رسائی نہیں دی جاتی اور سیاسی کارکنوں کے خلاف مقدمات بند دروازوں کے پیچھے چلائے جاتے ہیں۔

کارکنوں کو اکثر سماجی اور پیشہ ورانہ پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کے مقدمات عدالت میں چلائے بغیر انھیں سزا دی جاتی ہے یا مقدمے میں انھیں اپنے دفاع کا موقع نہیں دیا جاتا ہے۔

بعض معاملات میں وہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات اور دی جانے والی سزاؤں تک سے لاعلم ہوتے ہیں، جب وہ ہوائی جہاز میں سوار ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو انھیں کہا جاتا ہےکہ ان پر فضائی سفر کرنے کی پابندی عائد ہے۔

SOURCE : BBC