SOURCE :- BBC NEWS
ایک گھنٹہ قبل
تم لڑکیوں کے کپڑوں کے ساتھ کیوں کھیل رہے ہو؟
جب گیبریلا نے یہ سوال اپنے دو سالہ بیٹے مینوئل سے کیا تو بیٹے کا جواب تھا ’میں لڑکی ہوں، میں شہزادی ہوں۔ لوانا۔‘
لوانا (مینوئل) کی والدہ گیبریلا مانسیلا سنہ 2009 سے اپنی بیٹی کی صنف کی شناخت میں اُس کی مدد کر رہی ہیں۔
والدہ گیبریلا یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’وہ وقت جب سب کچھ بدلنا شروع ہوا دراصل وہ لمحہ تھا جب اُس نے ناصرف مجھے یہ بتایا کہ وہ ایک لڑکی ہے، بلکہ یہ بھی کہ اس نے اپنا نام (لوانا) خود منتخب کر لیا ہے۔‘
اس واقعے کے چند برسوں بعد یعنی سنہ 2013 میں لوانا اپنی شناختی دستاویزات پر اپنا نام تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئیں، وہ شناختی دستاویز جو ووٹ ڈالنے، شادی کرنے اور نوکری حاصل کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے، یعنی آپ کا شناختی کارڈ۔
حقیقت یہ ہے کہ چھ سال کی عمر میں اپنی جنس تبدیلی اور اس حوالے سے آفیشل سرکاری دستاویز حاصل کر کے لوانا دنیا کی پہلی ٹرانس جینڈر لڑکیوں میں سے ایک بن چکی ہیں جنھیں یہ تمام عمل مکمل کرنے کے لیے عدالتوں کے چکر نہیں لگانا پڑے ہیں۔
مگر اس سارے عمل میں ان کی والدہ کا کردار انتہائی اہم رہا ہے۔
گیبریلا کہتی ہیں کہ ’میں بہت خوفزدہ تھی۔ مگر کسی کو تو یہ کرنا تھا۔‘
یہ لوانا کی کہانی ہے۔
’میرا نام لوانا ہے‘
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
گیبریلا مانسیلا کے ہاں سنہ 2007 میں جڑواں لڑکوں کی پیدائش ہوئی تھی۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد ان میں سے ایک کی شناخت لڑکی کے طور پر ہونے لگی۔
گیبریلا وہ وقت یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’اس حوالے سے میری یادیں اتنی خوشگوار یا خوش کن نہیں ہیں کیونکہ لوانا نے بہت دُکھ اٹھائے ہیں۔ ہم سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ جب وہ چھوٹی تھی تو اُس کے ساتھ کیا ہو رہا تھا۔ جتنا مجھے یاد پڑتا ہے وہ اُس کے مسلسل رونے کی آوازیں تھیں، وہ سو نہیں پاتی تھی۔‘
صرف دو سال کی عمر میں جب لوانا ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں انھیں بات بتانے کے قابل ہوئی تو صورتحال میں کسی حد تک بہتری ہونا شروع ہوئی۔
گیبریلا اپنے آپ کو ملامت کرتی ہے کہ اُس وقت وہ بطور ماں اُس بات کو سمجھنے سے قاصر تھیں جو ان کی بیٹی انھیں بتانا چاہ رہی تھی۔
لوانا کی والدہ ’خاندان کے لیے اُس مشکل مرحلے‘ کو یاد کرتی ہیں جب اُن کے بیٹے نے اپنی شناخت بطور لڑکی کرنا شروع کی تھی۔
یہ ایک طویل سفر کا آغاز تھا جس میں ڈاکٹروں، ماہر نفسیات اور نیورولوجسٹ سے رابطے شروع ہوئے تاکہ جنس کا تعین ہو سکے اور آہستہ آہستہ یہ سب ان کی زندگی کا حصہ بننے لگا۔
اور اس کے بعد وہ لمحہ آیا جب اس نے کہا کہ ’میرا نام لوانا ہے۔‘
مگر یہ لمحہ آنے سے 15 برس قبل والدہ گیبریلا نے اپنی بیٹی کو ٹرانس گرل کے طور پر سپورٹ کرنے کے سفر کا آغاز کیا تھا۔ یعنی ایک لڑکی جس کی صنفی شناخت پیدائش کے وقت تفویض کردہ جنس سے میل نہیں کھاتی تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ جس چیز نے ہمیں بچایا وہ صرف لوانا کو سننا اور اسے گلے لگانا تھا۔ میں اپنی بیٹی کے لیے جو محبت محسوس کرتی ہوں، اس نے اس کہانی کو بچایا، کیونکہ میں نے سب کی باتیں سننا چھوڑ دیں اور صرف اسے سننا شروع کر دیا۔‘
جیسے جیسے لوانا بڑی ہوئیں، گیبریلا نے ان مشکلات کو دیکھا جو ان کی بیٹی کو اس عمل میں درپیش تھیں۔
مثال کے طور پر، جس دن انھوں نے لوانا کو توتو کے ساتھ بیلرینا کا لباس پہنے دیکھا، لیکن سکول میں انھوں نے لوانا کو ایک ڈرامے میں بندر کا کردار ادا کرنے پر مجبور کیا کیونکہ تمام لڑکے بندر کے کردار میں تھے اور لڑکیاں بیلیرینا بنی ہوئی تھیں۔
گیبریلا یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’اس نے مجھے بتایا: ماں، میں ایک رقاصہ ہوں کیونکہ میں ایک لڑکی ہوں۔‘
لیکن سکول میں وہ اب بھی اسے ایک لڑکے کے طور پر دیکھتے تھے۔ جب وہ گھر پہنچی تو لوانا نے اپنا بندر کا لباس اتار کر ایک رقاصہ کا لباس پہن لیا۔
وہ لوانا کے بارے میں کہتی ہیں کہ ’میں نے اسے کبھی اتنا خوش نہیں دیکھا تھا۔‘
اس کے علاوہ، گیبریلا کو یاد ہے جب لوانا کو اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ کلینک یا ہسپتال اس کا علاج نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ شناختی دستاویز میں کہا گیا تھا کہ وہ مرد ہے اور لوانا میں پہلے سے ہی خواتین کی صنفی خصوصیات موجود تھیں۔
گیبریلا کہتی ہیں کہ اس نے گلابی سکرٹ پہنی تھی، اس کے بال لمبے ہو گئے تھے۔
’جب اسے دمہ کا دورہ پڑا تو ایک ماں کے طور پر مجھے لوانا کے پاس آئی ڈی کی ضرورت تھی تاکہ اس کا علاج ہو سکے اور ایمرجنسی روم میں آکسیجن کے بغیر اس کی موت نہ ہو۔‘
آخر کار کاغذات میں صنفی تبدیلی درج کی گئی۔
دستاویزات میں چیلنج
سنہ 2015 کے وسط میں ارجنٹینا میں اس وقت تبدیلی کا ماحول بنا جب خواتین کی تحریک نے سڑکوں پر مظاہرے کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ ملک کے اداروں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
تین سال قبل ارجنٹینا کی سینیٹ نے ایک نئے قانون کی منظوری کا اعلان کیا تھا جس کے تحت لوگ کسی پیشگی طبی طریقہ کار یا جج کی منظوری کے بغیر سرکاری دستاویزات پر اپنا نام اور جنس تبدیل کر سکیں گے۔
اس نئے قانون کو جسے جسے چرچ اور مختلف قدامت پسند سماجی شعبوں کی مخالفت کے باوجود منظور کیا گیا تھا، کا مطلب یہ تھا کہ ٹرانس لوگوں کو اپنے ذاتی شناختی کارڈ پر اپنی جنس تبدیل کرنے کے لیے کسی طبی طریقہ کار کی ضرورت نہیں تھی۔
’میری بیٹی میری شہزادی‘ کے نام سے کتاب کی مصنف گبیریلا کہتی ہیں کہ ‘میرے لیے یہ ایک راحت کی بات تھی۔ مجھے اس وقت جس چیز کی ضرورت تھی وہ یہ نہیں تھی کہ لوانا کی شناخت شناختی کارڈ پر ظاہر کی جائے تاکہ یہ تسلیم کیا جا سکے کہ ان کی بیٹی ایک ٹرانس ہے، بلکہ وہ یہ چاہتی تھی تاکہ وہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے قابل ہو سکیں۔‘
ان کی کتاب پر 2021 میں ایک فلم میں بنی تھی۔
لیکن لوانا کے لیے صورتحال آسان نہیں تھی۔
ملک کی سینیٹ میں یہ قانون منظور ہونے کے بعد گیبریلا نے لوانا کے لیے ایک نئی شناختی دستاویز کی درخواست دینے کا فیصلہ کیا، لیکن یہ عمل ناکام رہا۔ سب سے پہلے، حکام نے اس کی کم عمری کی وجہ سے اس جنسی شناخت کو تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس وقت لوانا کی عمر صرف پانچ سال تھی۔
لیکن گیبریلا نے ہار نہیں مانی۔ اس وقت انھوں نے ملک میں ٹرانس بچوں کے حقوق کو بڑھانے کے لیے مہم چلانے کا فیصلہ کیا۔
ملک میں ٹرانس جینڈر کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ڈیانا ساکیان جیسی پہلی ٹرانس خاتون سے متاثر ہو کر، جو ملک میں نئی شناخت کے سرکاری دستاویزات حاصل کرنے والی پہلی ٹرانس خواتین میں سے ایک تھیں، گیبریلا نے اپنی بیٹی کی قانونی شناخت حاصل کرنے کے لیے ایک سال تک مہم چلائی۔
آخر کار، اکتوبر 2013 میں، گیبریلا کو بیونس آئرس صوبے سے ایک فون کال موصول ہوئی۔ یہ کال انھیں حکام کی جانب سے یہ بتانے کے لیے تھی کہ وہ لوانا کا پیدائشی سرٹیفکیٹ تبدیل کرنے جا رہے ہیں اور وہ اسے اس کی نئی شناخت دینے جا رہے ہیں۔
گیبریلا کہتی ہیں نئے شناختی کارڈ پر لوانا کی شناخت حاصل کرنے کی جنگ سے زیادہ، ہم نے ثقافتی جنگ لڑی۔ ہم ٹرانس بچوں کے حقوق کے لیے ثقافتی جنگ لڑ رہے ہیں۔
جب سے ارجنٹائن میں صنفی شناخت کی تبدیلی کا قانون متعارف کرایا گیا ہے اس کے بعد سے 16,000 سے زیادہ لوگوں نے اپنی جنس تبدیل کی ہے، جن میں 1,500 سے زیادہ نابالغ بھی شامل ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ لوانا کی خواہش تھی ۔ میں نے صرف اس کا ساتھ دیا تھا۔ یہ ایک ایسی لڑائی ہے جس میں میری بیٹی جیت گئی۔‘
SOURCE : BBC