SOURCE :- BBC NEWS
اسرائیلی حکومت نے غزہ میں جنگ بندی اور
حماس کے ساتھ یرغمالیوں کی رہائی کے نئے معاہدے کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد
اتوار سے اس پر عمل درآمد کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
یہ فیصلہ رات گئے تک جاری رہنے والی
گھنٹوں کی بات چیت کے بعد سامنے آیا۔ دائیں بازو کے دو وزرا نے معاہدے کے خلاف ووٹ
دیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینامن نتن یاہو کے
دفتر کے مطابق سکیورٹی کابینہ نے اس سے قبل معاہدے کی توثیق کی سفارش کرتے ہوئے
کہا تھا کہ یہ ‘جنگ کے مقاصد کے حصول کی حمایت کرتا ہے۔’
وزیر اعظم کے دفتر اور حماس دونوں نے کہا
تھا کہ انھوں نے معاہدے کی تفصیلات کو حتمی شکل دے دی ہے، جس کے دو دن بعد قطر،
امریکہ اور مصر نے اس کا اعلان کیا تھا۔
اس معاہدے کے تحت غزہ میں حماس کے ہاتھوں
یرغمال بنائے گئے 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو چھ ہفتوں تک جاری رہنے والے پہلے مرحلے
کے دوران اسرائیلی جیلوں میں قید سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کیا جائے گا۔
غزہ کے گنجان آباد علاقوں سے بھی
اسرائیلی افواج کا انخلا ہوگا، بے گھر فلسطینیوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے کی
اجازت دی جائے گی اور روزانہ سینکڑوں امدادی گاڑیوں کو علاقے میں داخل ہونے کی
اجازت دی جائے گی۔
معاہدے کے مطابق آگے کیا ہوا؟
دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات جس میں باقی یرغمالیوں کی رہائی، اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا اور ‘پائیدار امن کی بحالی’ شامل ہے سولہویں دن شروع ہوں گے۔’
تیسرے اور آخری مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو اور باقی یرغمالیوں کی لاشوں کی واپسی شامل ہوگی۔
قطر نے کہا ہے کہ پہلے مرحلے کے دوران رہا کیے جانے والے یرغمالیوں میں سویلین خواتین، خواتین فوجی، بچے، بوڑھے اور بیمار اور زخمی شہری شامل ہوں گے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے پہلے دن تین یرغمالیوں کو رہا کیے جانے کی توقع ہے جبکہ اگلے چھ ہفتوں کے دوران باقاعدگی سے مزید افراد کو چھوٹے گروہوں کی صورت میں رہا کیا جائے گا۔
سات اکتوبر 2023 کو حماں نے اسرآایل میں ایک غیر معمولی حملہ کیا جس میں تقریبا 1،200 افراد ہلاک اور 251 یرغمال بنائے گئے تھے۔ حماس کو امریکہ اور دیگر نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ اس غیر معمولی حملے کے جواب میں اسرائیلی فوج نے حماس کو تباہ کرنے کی مہم شروع کی۔
حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کے مطابق اس کے بعد سے اب تک غزہ میں 46,870 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔23 لاکھ آبادی میں سے زیادہ تر افراد بے گھر بھی ہو چکے ہیں۔ بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے، اور امداد تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ان افراد کو خوراک، ایندھن، ادویات اور رہائش کی شدید قلت ہے۔
معاہدے پر اتفاق رائے میں تاخیر کیوں ہوئی؟
اسرائیل کا کہنا ہے کہ یرغمالیوں میں سے 94 اب بھی حماس کے قبضے میں ہیں جن میں سے 34 کے بارے میں خیال ہے کہ وہ مارے جا چکے ہیں۔
اس کے علاوہ چار اسرائیلی ایسے بھی ہیں جنہیں جنگ سے پہلے اغوا کیا گیا تھا جن میں سے دو ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی حکومت کی جانب سے معاہدے پر ووٹنگ سے قبل نتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی کے وزیر ثقافت مکی زہر نے کہا کہ ‘یہ ایک بہت مشکل فیصلہ ہے لیکن ہم نے اس کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ہمارے لیے اپنے تمام بچوں، مردوں اور خواتین کو گھر واپس دیکھنا بہت ضروری ہے۔’
انھوں نے مزید کہا ‘ہمیں امید ہے کہ جلد ہی ہم غزہ میں اپنا کام مکمل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔’
تاہم انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر نے کہا کہ وہ معاہدے کی تفصیلات سے ‘خوفزدہ’ ہیں، جس میں یرغمالیوں کے بدلے ‘عمر قید کی سزا پانے والے دہشت گردوں’ کو رہا کرنا بھی شامل ہے۔
جمعرات کو بین گویر نے اعلان کیا تھا کہ اگر معاہدے کی منظوری مل جاتی ہے تو ان کی یہودی طاقت کی جماعت حکومتی اتحاد سے الگ ہو جائے گی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ وپ پارلیمنٹ میں حکومت نہیں گرائیں گے اور ‘ اور اس وقت واپس آئیں گے جب حماس کے خلاف جنگ دوبارہ شروع ہوگی۔’
معاہدے کی مخالفت کرنے والے ایک اور انتہائی دائیں بازو کے سیاست دان وزیر خزانہ بیزل سموٹریچ نے کہا ہے کہ اگر پہلے مرحلے کے اختتام کے بعد جنگ دوبارہ شروع نہیں ہوئی تو ان کی مذہبی صیہونیت پارٹی مستعفی ہو جائے گی۔
تین مرحلوں پر معاہدے نے کچھ یرغمالیوں کے خاندانوں میں تقسیم اور اضطراب بھی پیدا کیا ہے۔ انھیں خدشہ ہے کہ پہلے مرحلے کے مکمل ہونے کے بعد ان کے مغوی رشتہ داروں کی رہائی نہیں ہوگی اور وہ حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ دوسرے اور تیسرے مرحلے پر بھی عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
اینوو زنگوکر کے 25 سالہ بیٹے متان کو بھی اغوا کیا گیا تھا وہ کہتے ہیں ‘469 دنوں سے ہمارے پیارے قید میں ہیں اور اب آخر کار امید پیدا ہوئی ہے۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘اس معاہدے پر آخر تک عمل کیا جانا چاہیے تاکہ سب کو وطن واپس لایا جا سکے اور جنگ کا خاتمہ کیا جا سکے۔ جنگ کا خاتمہ، سب کی واپسی اور حالات معمول پر لانا اسرائیل کے مفاد میں ہے۔’
حکومت کی رائے شماری جمعرات کو متوقع تھی لیکن نتن یاہو کی جانب سے حماس پر معاہدے کے کچھ حصوں سے پیچھے ہٹنے کا الزام عائد کیے جانے کے بعد اجلاس میں تاخیر ہوئی۔
جمعے کی علی الصبح وزیر اعظم کے دفتر نے اعلان کیا کہ دوحہ میں اسرائیلی مذاکراتی ٹیم نے معاہدے کو حتمی شکل دے دی ہے۔
حماس نے ایک بیان بھی جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ معاہدے کی شرائط کے سلسلے میں پیدا ہونے والی ‘رکاوٹوں’ کو حل کر لیا گیا ہے۔
حماس کے قریبی ذرائع نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ رہائی پانے والے پہلے تین یرغمالی خواتین ہوں گی۔
SOURCE : BBC