SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, ایلکس موس، وکٹوریا گل
- عہدہ, بی بی سی
-
ایک گھنٹہ قبل
ماہرین کا کہنا ہے کہ رومی دور کے ایک گلیڈی ایٹر کی ہڈیوں پر پائے جانے والے دانتوں کے نشانات انسان اور شیر کے درمیان لڑائی سے متعلق پہلا ثبوت ہو سکتے ہیں۔
انسانی جسم کی یہ باقیات سنہ 2004 میں یارک کے علاقے ڈریفیلڈ ٹیرس میں کھدائی کے دوران ایک ایسی جگہ سے ملی تھیں جسے اب دنیا کا واحد اور بہتر انداز میں محفوظ کیا گیا ’رومن گلیڈی ایٹرز کا قبرستان‘ سمجھا جاتا ہے۔
ایک نوجوان شخص کی ہڈیوں کے فارینزک معائنے کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اُس کے کمر پر موجود چھوٹے سوراخ اور کاٹنے کے نشانات غالباً شیر کے دانتوں اور پنجوں کا نشانہ بننے کی وجہ سے بنے تھے۔
اس تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی کرنے والے فارینزک ماہر پروفیسر ٹم تھامسن نے کہا کہ یہ گلیڈی ایٹرز کے شیروں کے ساتھ لڑنے کا پہلا ’جسمانی ثبوت‘ ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’برسوں سے رومن گلیڈی ایٹرز کی لڑائی اور جانوروں کے تماشوں کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ تاریخی متن اور فنکارانہ عکاسی پر انحصار کرتی رہی ہے۔‘
’یہ دریافت پہلا براہ راست سائنسی ثبوت ہے کہ اس دور میں اس طرح کے واقعات رونما ہوئے جس سے خطے میں رومن تفریحی ثقافت کے بارے میں ہمارے تصور کو نئی شکل ملی۔‘

،تصویر کا ذریعہUniversity of York
ماہرین نے ڈھانچے پر موجود زخموں کے نشانات کا تجزیہ کرنے کے لیے نئی فارینزک تکنیکس کا استعمال کیا، جن میں تھری ڈی سکین بھی شامل ہے جس سے ظاہر ہوا کہ جانور نے اس شخص کو کمر سے پکڑا تھا۔
آئرلینڈ کی مینوتھ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر تھامپسن نے کہا کہ ’ہم یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ اس شخص کو جانور نے مرنے سے کچھ لمحے قبل کاٹا تھا اور یہ ایسا نہیں تھا کہ جانور نے اس کی لاش کو بھنبھوڑا ہو۔ اس کا تعلق اس کی موت سے تھا۔‘
زخم کو سکین کرنے کے ساتھ ساتھ، سائنسدانوں نے اس کے حجم اور شکل کا موازنہ لندن کے چڑیا گھر میں شیروں کے کاٹنے کے نمونوں سے کیا۔
پروفیسر تھامسن نے بی بی سی نیوز کو بتایا ’اس مخصوص فرد کے ڈھانچے پر کاٹنے کے نشانات شیر کے کاٹنے کے نشانات سے ملتے ہیں۔‘
کاٹنے کے مقام نے محققین کو گلیڈی ایٹر کی موت کے حالات کے بارے میں مزید معلومات فراہم کیں۔
پروفیسر تھامسن نے وضاحت کی کہ ’پیلوِس وہ جگہ نہیں ہے جہاں شیر عام طور پر انسانوں پر حملہ کرتے ہیں، اس لیے ہمارے خیال میں یہ گلیڈی ایٹر کسی تماشے میں لڑ رہا تھا اور جب وہ بےبس ہو کر گرا تو شیر نے اسے کاٹا اور اس کو کولہے سے پکڑ کر گھسیٹ کر لے گیا۔‘

26 اور 35 سال کی درمیانی عمر کے مرد کو دو دیگر افراد کے ساتھ ایک قبر میں دفن کیا گیا تھا جسے گھوڑے کی ہڈیوں سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔
ہڈیوں کے سابقہ تجزیے نے اس کی طرف اشارہ کیا تھا کہ وہ ایک ایسا گلیڈی ایٹر تھا جسے درندوں کے ساتھ لڑائی کے لیے بھیجا گیا تھا۔
یارک یونیورسٹی میں اوسٹیو آرکیالوجی کی ایک سینیئر لیکچرر میلن ہولسٹ نے کہا کہ 30 برس تک ڈھانچوں کا تجزیہ کرنے کے دوران انھوں نے ’کبھی اس طرح کے کاٹنے کے نشانات نہیں دیکھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس شخص کی باقیات نے اس کی ’مختصر اور کسی حد تک سفاکانہ زندگی‘ کی کہانی سنائی۔
اس کی ہڈیاں بڑے، طاقتور عضلات کی نشاندہی کر رہی تھیں اور اس کے کندھے اور ریڑھ کی ہڈی میں زخموں کے شواہد موجود تھے، جو سخت جسمانی محنت اور لڑائی کی عکاسی کرتے تھے۔
میلن ہولسٹ، جو یارک آسٹیو آرکیالوجی کی مینیجنگ ڈائریکٹر بھی ہیں، نے مزید کہا: ’یہ ایک بہت ہی دلچسپ چیز ہے کیونکہ اب ہم اس بات کی بہتر تصویرکشی کر سکتے ہیں کہ یہ گلیڈی ایٹرز زندگی میں کیسے تھے۔‘

میلن ہولسٹ کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے نتائج نے، جو جرنل آف سائنس اینڈ میڈیکل ریسرچ پی ایل او ایس ون میں شائع ہوئے ہیں، اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ’یارک جیسے شہروں کی تماشا گاہوں میں شیروں اور ممکنہ طور پر دیگر ایسے جانوروں کی موجودگی تھی اور کیسے انھیں بھی موت کے خطرے کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔‘
ماہرین نے کہا کہ اس دریافت نے اس خیال کو بھی تقویت بِخشی ہے کہ اگرچہ ابھی تک اس کوئی سراغ نہیں ملا لیکن ممکنہ طور پر رومن دور کے یارک میں ایک ایمفی تھیٹر موجود تھا جہاں تفریح کی غرض سے گلیڈی ایٹرز کی لڑائی کا انعقاد کیا جاتا ہو گا۔
یارک آرکیالوجی کے سی ای او ڈیوڈ جیننگز نے کہا: ’ہو سکتا ہے کہ ہم کبھی نہیں جان سکیں کہ اس شخص کو اس میدان میں کون لایا جہاں ہمارے خیال میں وہ دوسروں کی تفریح کے لیے لڑا، لیکن یہ قابل ذکر ہے کہ اس قسم کی گلیڈی ایٹرز کی لڑائی کے آثار ہمیں روم کے اس کولوزیم سے کہیں دور سے ملے ہیں، جو کہ کلاسیکی دنیا میں لڑائی کا ویمبلے سٹیڈیم ہو سکتا تھا۔‘
SOURCE : BBC