SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, رقیب حسنات
- عہدہ, بی بی سی نیوز بنگلہ
-
ایک گھنٹہ قبل
انڈین حکومت کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کے اقتصادی اور سیاسی اثرات زیرِ بحث ہیں۔ انڈیا نے کچھ بنگلہ دیشی مصنوعات بشمول ریڈی میڈ گارمنٹس کی زمینی درآمد پر پابندی عائد کی ہے۔
سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ اسے بنگلہ دیش کے حوالے سے ‘انڈیا کا سخت اقدام’ قرار دے رہے ہیں۔ کچھ لوگ اسے دونوں ممالک کے درمیان موجودہ سیاسی تعلقات کی وجہ سے ایک ‘باہمی اقدام’ کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔
انڈیا نے اس سے قبل پچھلے مہینے کے آغاز میں تیسرے ممالک کو برآمدی سامان بھیجنے کے لیے بنگلہ دیش کو دی گئی ٹرانس شپمنٹ کی سہولت واپس لے لی تھی۔ پھر بنگلہ دیش نے بھی زمینی بندرگاہوں کے ذریعے انڈین یارن کی درآمد پر پابندی عائد کی۔
تاجروں کا کہنا ہے کہ اگر زمینی بندرگاہوں کے استعمال پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ برقرار رہا تو یہ مزید پیچیدہ اور بنگلہ دیشی مصنوعات کی برآمد میں رکاوٹ پیدا کرے گا۔ تاہم کچھ تاجروں نے تبصرہ کیا کہ انڈین درآمد کنندگان کو بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایک ریسرچ آرگنائزیشن سینٹر فار پالیسی ڈائیلاگ سے منسلک دیباپریہ بھٹاچاریہ کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ خالصتاً اقتصادی نہیں ہے، بلکہ یہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بحران کو سیاسی طور پر حل کیا جانا چاہیے۔
گذشتہ سال اگست میں بنگلہ دیش میں مظاہروں کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات بحران کا شکار ہیں۔ معزول وزیراعظم شیخ حسینہ اب انڈیا میں مقیم ہیں۔
انڈیا نے کیا نئی پابندیاں عائد کی ہیں؟
انڈیا کی وزارت تجارت اور صنعت کے تحت ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فارن ٹریڈ کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش سے کسی بھی قسم کے ملبوسات کی مصنوعات کو کسی بھی زمینی بندرگاہ سے انڈیا میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔
اس کے علاوہ اس حکم میں پھل، پھلوں کے ذائقے والے مشروبات اور کاربونیٹیڈ مشروبات شامل ہیں۔ انڈیا میں آسام، میگھالیہ، تریپورہ، میزورم اور مغربی بنگال میں چنگرابنڈہ اور پھولباری جانے والی اشیا جیسے بیکری آئٹمز، چپس، سنیکس اور کنفیکشنری میں تیار کردہ پروسیسرڈ فوڈز، کپاس اور سوت کے بنڈل، پی وی سی اور لکڑی کے فرنیچر سمیت پلاسٹک کی مختلف مصنوعات پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
تاہم انڈیا نے مچھلی، ایل پی جی، خوردنی تیل اور پتھر کی درآمد جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ بنگلہ دیشی مصنوعات کی بھوٹان اور نیپال کو براستہ انڈیا برآمدات جاری رہے گی۔
مزید یہ کہ ریڈی میڈ ملبوسات اب صرف کولکتہ اور ممبئی میں نوسیوا بندرگاہوں کے ذریعے انڈیا میں داخل ہو سکیں گے۔
گذشتہ ماہ کے شروع میں بنگلہ دیش نے زمینی بندرگاہوں کے ذریعے انڈین یارن کی درآمد پر پابندی عائد کر دی تھی۔

،تصویر کا ذریعہPress Information Bureau
اس کا کاروبار پر کیا اثر پڑے گا؟

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
بنگلہ دیش نے مالی سال 2023-24 میں انڈیا کو تقریباً 1.57 بلین ڈالر کا سامان برآمد کیا۔ ان میں، کپڑے اور پراسیسڈ فوڈ پروڈکٹس سب سے زیادہ عام ہیں۔ مختلف کمپنیوں کی پلاسٹک مصنوعات اور فرنیچر بھی اس تجارت کا حصہ رہا۔
ایک بار پھر، درآمدات کے معاملے کا جائزہ لیتے ہوئے، یہ دیکھا جاتا ہے کہ بنگلہ دیش نے مالی سال 2023-24 میں انڈیا سے 9 بلین ڈالر کی اشیا درآمد کیں۔
دوسری جانب گذشتہ سال بنگلہ دیش نے دنیا کے مختلف ممالک کو 38 بلین ڈالر مالیت کے ملبوسات برآمد کیے تھے۔ اس میں سے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا سامان انڈین بندرگاہوں کا استعمال کرتے ہوئے برآمد کیا گیا، جو بنگلہ دیش کو ٹرانس شپمنٹ کی سہولیات کے تحت حاصل ہوا۔
بنگلہ دیشی تاجروں، خاص طور پر گارمنٹس کے شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں بنگلہ دیشی ریڈی میڈ ملبوسات کی انڈیا کو برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس کے علاوہ بنگلہ دیشی مصنوعات کی مارکیٹ شمال مشرقی انڈیا کی ریاستوں تک پھیل گئی ہے، جنھیں سیون سسٹرز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مختلف کمپنیاں ان ریاستوں کے ارد گرد مرکوز نئی سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی بھی کر رہی تھیں۔
اب بہت سے تاجروں کا خیال ہے کہ یہ دونوں انڈیا کی نئی پابندیوں سے متاثر ہوں گے۔ کیونکہ ریڈی میڈ ملبوسات کو لینڈ پورٹ کے بجائے بندرگاہ کے ذریعے بھیجنے میں زیادہ لاگت آئے گی اور وقت بھی زیادہ لگے گا۔

،تصویر کا ذریعہReuters
گارمنٹس مینوفیکچررز کی تنظیم بنگلہ دیش گارمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سابق سینیئر نائب صدر فیصل صمد کا کہنا ہے کہ انڈیا کے اس فیصلے سے دونوں ممالک کو نقصان ہوگا۔
انھوں نے بی بی سی بنگلہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’زمینی بندرگاہوں کے ذریعے سامان بھیجنے میں ہمیں کم خرچ آتا ہے اور وقت بھی کم لگتا ہے۔ سمندری بندرگاہوں کے ذریعے سامان بھیجنے سے لاگت بڑھے گی اور بہت زیادہ وقت لگے گا۔ لیکن اس سے نہ صرف ہمیں نقصان ہو گا بلکہ اس سے انڈین درآمد کنندگان کی لاگت میں بھی اضافہ ہو گا۔‘
اتفاق سے، بنگلہ دیش اب انڈیا کو تقریباً 700 ملین ڈالر مالیت کے تیار ملبوسات برآمد کرتا ہے، جس میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔
فیصل صمد کا کہنا ہے کہ اس کا ایک بڑا حصہ زمینی بندرگاہوں کا استعمال کرتے ہوئے برآمد کیا جا رہا تھا، جس سے دونوں اطراف کو فائدہ ہوا۔
اُدھر بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے تجارتی مشیر شیخ بشیر الدین نے آج ڈھاکہ میں صحافیوں کے سوالوں کے جواب میں کہا کہ انڈیا نے ابھی تک بنگلہ دیش کی حکومت کو نئی پابندیوں کے بارے میں باضابطہ طور پر آگاہ نہیں کیا ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ انڈیا بنگلہ دیش کو زیادہ برآمدات کرتا ہے اس لیے زمینی بندرگاہ پر پابندیوں سے انڈین تاجر بنگلہ دیشیوں سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ انھوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ بات چیت کے ذریعے مسئلہ کا حل ممکن ہے۔
تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ انڈین برآمد کنندگان کس طرح متاثر ہوں گے کیونکہ ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
دوسری طرف پران-ریفل (پی آر اے این۔آر ایف ایل) گروپ، ایک واحد کمپنی ہے جو انڈیا سے سب سے زیادہ مصنوعات برآمد کرتی ہے۔ انڈیا کو ان کی برآمدات سالانہ 50 ملین ڈالر سے زیادہ ہیں۔
کمپنی اپنی زیادہ تر مصنوعات انڈیا کی شمال مشرقی ریاستوں کو برآمد کرتی ہے۔ انڈیا کا وہ علاقہ ان کی مصنوعات کی ایک بڑی منڈی ہے۔ اس میں فوڈ، کنفیکشنری اور پلاسٹک کی مصنوعات شامل ہیں۔
کمپنی کے ڈائریکٹر مارکیٹنگ، قمر زمان کمال نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ اگر انڈیا کی پابندیاں لاگو ہوتی ہیں یا برقرار رہتی ہیں تو اس سے ان کی مصنوعات کی برآمدات متاثر ہوں گی۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم جن سات بندرگاہوں کو برآمدات کے لیے استعمال کرتے ہیں، ان میں سے پانچ ان پابندیوں کی زد میں آ چکی ہیں۔ شمال مشرقی انڈیا ہماری بڑی منڈی ہے۔ وہاں ان پابندیوں کا بڑا اثر پڑے گا۔‘
ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی کاروبار کے پروفیسر ڈاکٹر محمد منیر الاسلام کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ بنگلہ دیش کی انڈیا کو برآمدات زیادہ نہیں ہیں لیکن یہ بنگلہ دیش کی کل برآمدات کے تناسب سے بالکل بھی کم نہیں۔
ان کے مطابق ’انڈیا کے فیصلے سے بنگلہ دیش کی تجارت متاثر ہوگی۔ کیونکہ ہماری مارکیٹ اور مصنوعات کا تنوع کم ہے۔ انڈیا کو برآمد کی جانے والی زیادہ تر مصنوعات ترقی یافتہ ممالک کو برآمد نہیں کی جا سکیں گی۔ ایک بار پھر، برآمد کنندگان کے لیے بندرگاہوں کے ذریعے مصنوعات بھیجنے کی لاگت میں نمایاں اضافہ ہو جائے گا۔‘
ڈاکٹر محمد منیر کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیشی پالیسی سازوں کے درمیان برآمدی منڈی میں بحران پر قابو پانے کے لیے کوئی پیشگی منصوبہ نہیں ہے۔ اسی لیے کوئی نہیں جانتا کہ اگر انڈیا کی موجودہ برآمدات میں خلل پڑتا ہے تو اس کا حل یا متبادل کیا ہوگا۔

،تصویر کا ذریعہGovt of India
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی عکاسی؟
ایک ریسرچ آرگنائزیشن سینٹر فار پالیسی ڈائیلاگ (سی پی ڈی) سے منسلک دیباپریہ بھٹاچاریہ کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش اور انڈیا کے درمیان کشیدہ تعلقات کا ان نئی پابندیوں سے بھی تعلق ہے۔
انھوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نریندر مودی اور پروفیسر محمد یونس کے درمیان بینکاک میں ہونے والی حالیہ ملاقات کے بعد بھی اس طرح کے فیصلے نے انھیں حیران کر دیا۔
انھوں نے کہا کہ ’ایسے اقدامات اتفاق سے نہیں ہوتے۔ یہ تشویش کی بات ہے کہ تعلقات تیزی سے پیچیدہ اور مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں اور اس پر قابو پانے کے لیے سیاسی کوششیں کرنا ہوں گی۔
انھوں نے کہا کہ مشترکہ مفادات اور باہمی احترام کی بنیاد پر انڈیا اور بنگلہ دیش کے تعلقات کی تجدید کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی انڈیا کے ساتھ سرحد پر تجارت حالیہ دنوں میں جس دباؤ کا شکار تھی وہ اب پوری طرح ظاہر ہو چکی ہے۔
SOURCE : BBC