SOURCE :- BBC NEWS

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر

  • مصنف, ریاض مسرور
  • عہدہ, بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، سرینگر
  • ایک گھنٹہ قبل

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے کپواڑہ کے چوکی بل سیکٹر میں ایل او سی کے نہایت قریب کھندہ گاؤں ہے جہاں عبدالرحمٰن خان مٹی اور لکڑی سے بنے دو منزلہ مکان میں رہتے ہیں۔

مئی کے اوائل میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے دوران ایل او سی کی دونوں جانب ہونے والی شیلنگ سے قریبی بستیوں میں بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہوا اور عبدالرحمٰن کا مکان بھی اس کا نشانہ بنا۔ ان کے گھر کی کوئی ایک کھڑکی، ایک بھی دروازہ ایسا نہیں جہاں اس جنگ کے نشانات نہ رہے ہوں۔۔۔

وہ کہتے ہیں کہ ’سیزفائر تو اچھی بات ہے اور جو نقصان ہوا وہ بھی دیکھا جا رہا ہے، لیکن میرے صحن میں ایک شیل گرا اور زمین کے اندر چلا گیا، دھماکہ ہم نے سنا لیکن معلوم نہیں وہ شیل پھٹا یا نہیں۔ ابھی تک یہاں اس کو دیکھنے کوئی نہیں آیا۔ ہم دن میں مال مویشیوں کو دیکھنے آتے ہیں، لیکن اِدھر رات کیسےگزار سکتے ہیں۔’

واضح رہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پولیس اور فوج نے گذشتہ دنوں ایل او سی کی قریبی بستیوں کرناہ، ٹنگڈار، اُوڑی، چوکی بل، مژھِل میں درجنوں ایسے شیلز کو ناکارہ بنانے کا آپریشن کیا جو پھٹ نہیں سکے۔

کپواڑہ کے ایس ایس پی غلام جیلانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ہم نے درجنوں بستیوں میں بم ڈسپوزل سکواڈ بھیجے تھے، جنھوں نے شیلز کو کنٹرولڈ ڈیٹونیشن تکنیک سے ناکارہ بنا دیا ہے، ہم دوبارہ معائنہ کر رہے ہیں، اور لوگوں کو احتیاط برتنے کی اپیل بھی کرتے ہیں۔‘

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر

’باہر شیل پڑے ہیں اور مکان میں دراڑیں‘

کپواڑہ سے تھوڑی دُور ایل او سی کے قریب ڈولی پورہ گاؤں سے پہاڑی چوٹیوں پر پاکستانی افواج کی چوکیاں بھی نظر آتی ہیں۔

پہاڑ کے دامن میں واقع اس بستی کے منظور احمد خان کا مکان 2005 کے زلزلے میں زمین بوس ہو گیا تھا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے منظور احمد نے کہا کہ ’20 سال لگے مجھے یہ مکان بنانے میں، لیکن دیکھیے اس کی بُنیادیں ہل گئی ہیں، دیواروں میں شگاف ہیں، کیا یہ رہنے کے لیے محفوظ ہے جب باہر شیل پڑے ہوں۔ ہمیں کیا پتہ کون سا شیل پھٹ سکتا ہے کون سا نہیں۔‘

منظور کہتے ہیں کہ وہ دن میں یہاں آتے ہیں اور رات کو ان رشتہ داروں کے پاس رکتے ہیں جن کے مکان متاثر نہیں ہوئے۔ منظور اپنے مکان کو لگنے والے شیلز کے ٹکڑے دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’روز جھاڑو لگاتے وقت یہ سب ملتا ہے۔ سیز فائر سے شیلنگ تو رُک گئی، لیکن ہم لوگوں کے لیے اصل مسئلہ سیز فائر کے بعد شروع ہوتا ہے۔ ہم بہت ڈرے ہوئے ہیں۔‘

’اب میری بیٹی ستاروں سے بھی ڈرتی ہے‘

منظور خان کے مکان کے ساتھ ہی اُن کے بھائی شریف خان کا مکان ہے جس کی کھڑکیاں اور دروازے ٹوٹ گئے ہیں اور ٹوٹے شیشوں کے انبار آج بھی ان کے برآمدے میں موجود ہیں۔

شریف کی بیوی ناہیدہ شریف کہتی ہیں کہ ’ہم یہاں دن کو صرف یہ دیکھنے آتے ہیں کہ مال مویشی کیسے ہیں۔ جب سے جنگ ہوئی ہے، میری بیٹی تو اب رات کو ستاروں سے بھی ڈرنے لگی ہے۔ اُس کو تقریباً ہارٹ اٹیک ہو گیا تھا۔ سیز فائر کا اعلان ہم نے بھی سنا، جنگ رُک بھی گئی، لیکن مسئلہ ہمارا ہے، ہم اِدھر کیسے رہیں جب ہر طرف شیل مل رہے ہیں۔‘

ناہیدہ روزانہ چند گھنٹوں کے لیے اپنے گھر بچوں کے ساتھ آتی ہیں، تھوڑی بہت صفائی کرتی ہیں، مویشیوں کو چارہ کھلاتی ہیں اور سورج ڈوبنے سے پہلے ہی رشتہ داروں کے محفوظ مکان میں چلی جاتی ہیں۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر

’دوبارہ پولیس ٹیم کو بُلایا تو صحن میں دو شیل ملے‘

پیشے سے کمپیوٹر انجنئیر اشفاق خان کا گھر ایل او سی کے قریب واقع نہاری گاؤں میں ایک وسیع فوجی چھاؤنی کے ساتھ ہے۔ اس نئے گھر میں ان کا خاندان چند ماہ پہلے ہی مقیم ہوا تھا۔

ان کے مکان کی دوسری منزل پر ایک شیل لگا جو دیواریں گراتا ہوا دوسرے کمرے کی کھڑکی توڑ کر ان کے باغ میں جا گرا۔ مکان کی ایک بھی کھڑکی، دروازہ یا دیوار متاثر ہوئے بغیر نہیں رہی ہے۔

انھوں نے مکان کی مرمت تو شروع کر دی ہے لیکن آس پاس پڑے شیلز کی وجہ سے ان کے خاندان نے عارضی طور پر نقل مکانی کی ہے۔

اشفاق کہتے ہیں کہ ’ہمارے یہاں بھی پولیس کی ٹیم آئی اور کئی شیلز ناکارہ کئے۔ لیکن کل ہی جب میں ملبہ صاف کرنے لگا تو مجھے زمین میں گڑھے دکھائی دیے اور میں نے ٹیم کو دوبارہ فون کرکے بلایا۔ انھوں نے معائنہ کیا تو یہاں مزید دو شیلز ملے۔‘

اشفاق کہتے ہیں سیز فائر کو بڑے پیمانے پر خوش آمدید کہا جاتا ہے لیکن ’ایل او سی کے قریب رہنے والوں کے لیے موت کے ساتھ اصلی جنگ سیز فائر کے بعد شروع ہوتی ہے۔‘

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر

’سرینگر میں رشتہ دار تھے، جن کا کوئی نہیں وہ کہاں جائیں گے؟‘

کپواڑہ کے کرناہ سیکٹر میں رہنے والے قاری رئیس لون بیوی اور دو بچوں کے ہمراہ نو مئی کو ہی سرینگر آ کر اپنے رشتہ داروں کے پاس مقیم ہو گئے تھے۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے اگلے روز شام کو سنا کہ سیز فائر ہو گیا، لیکن ہم جہاں رہتے ہیں وہاں ماضی میں سیز فائر کے بعد بھی شیل پھٹنے سے حادثے ہوئے ہیں۔ انڈر گراونڈ بنکروں کی سہولت بھی نہیں اور آس پاس شیلز پڑے رہتے ہیں۔ سیز فائر اخباروں کی سرخی ہوتی ہے، لیکن ہمارے لیے اس کے بعد کا مرحلہ ایک چیلنج ہوتا ہے۔‘

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پولیس اور فوج نے جب بیان دیا کہ بیشتر علاقوں میں لائیو شیلز کو ناکارہ بنا دیا گیا تو سرینگر میں مقیم متعدد خاندان اب گھروں کی طرف لوٹنے لگے ہیں۔

کرناہ کے ہی ماسٹر عبدالرشید کہتے ہیں کہ ’لگتا ایسا ہی ہے کہ اب کچھ نہیں ہو گا لیکن گھر جاتے ہوئے بھی ہم ڈر رہے ہیں۔ گھر سے زیادہ دیر تک دُور رہنا بھی ممکن نہیں۔ ہمارے یہاں جانی نقصان تو نہیں ہوا، لیکن جان ہماری اب بھی خطرے میں ہے۔‘

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر
مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

قابل ذکر ہے کہ دنیا کی سب سے خطرناک اور ملٹرائزڈ سرحد کہلانے والی لائن آف کنٹرول 740 کلومیٹر طویل اور 35 کلومیٹر چوڑی سرحد ہے۔ دوسری سرحدوں کی طرح یہ کسی ریگستان میں لگی تار یا کسی نومینز لینڈ کی چیک پوسٹ نہیں، بلکہ اس سرحد کی دونوں جانب لاکھوں لوگ آباد ہیں۔

انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایل او سی پر فوجی تناؤ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاہم 2021 میں دونوں افواج نے سیزفائر پر سختی سے عمل کرنے کا نیا معاہدہ کیا تو اس سال مئی تک سرحدی بستیوں میں زندگی پُرسکون رہی۔

تعلیمی، تجارتی اور زرعی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہو گئی تھیں، یہاں تک کہ کپواڑہ کے بعض سرحدی علاقوں کو سیاحت کے لیے بھی کھول دیا گیا تھا لیکن 22 اپریل کو کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں دو درجن سے زیادہ انڈین سیاحوں کی مسلح افراد کے ہاتھوں ہوئی ہلاکت کے لیے انڈیا نے پاکستان کو ذمہ قرار دیا اور دو ہفتوں کی کشیدگی کے بعد بالآخر چھ مئی کی رات کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور پاکستان کے شہروں پر بمباری کر کے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا۔

پاکستان کی جوابی کارروائی میں انڈین آرمی کے مطابق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ساتھ ساتھ انڈین ریاستوں میں 26 مقامات پر ڈرونز اور میزائل داغے گئے۔ پولیس ترجمان کے مطابق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کراس بارڈر شیلنگ میں پانچ اہلکاروں سمیت 23 افراد مارے گئے ہیں۔

SOURCE : BBC