SOURCE :- BBC NEWS

ٹرمپ اور سعودی ولی عہد

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایک گھنٹہ قبل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں اپنی پہلی میعاد کے دوران ایک تاریخی جملہ کہا تھا جو کچھ یوں تھا کہ ’ایسے ممالک موجود ہیں جو ہمارے تحفظ کے بغیر ایک ہفتہ بھی نہیں چل سکتے، اور انھیں اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔‘

اور اس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے ’پے ٹو سٹے‘ یعنی رہنے کی قیمت سے متعلق پالیسی اپناتے ہوئے مطالبہ کیا کہ یورپ، مشرق وسطیٰ اور یہاں تک کہ جاپان اور جنوبی کوریا کے ممالک امریکہ کو ادائیگی یقینی بنائیں۔

اور اب رواں سال ایک بار پھر جب وائٹ ہاؤس میں بطور صدر ان کی واپسی ہوئی تو ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر کی طرف سے تجویز کردہ اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

آنے والے دنوں میں ان کے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سمیت خلیجی ممالک کے دورے سے قبل ایک بار پھر یہ بات سامنے آئی ہے کہ ٹرمپ نے عوامی اور واضح انداز میں سعودی عرب سے ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے۔

ایسے میں سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا سعودی عرب یہ رقم ادا کرے گا؟ اسے ایسا کرنے پر کیا چیز مجبور کرے گی اور اس کے بدلے میں اسے کیا حاصل ہوگا؟

جنوری 2025 میں ڈیوس اکنامک فورم میں شرکت کے دوران صدر ٹرمپ نے سعودی عرب سے ایک ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا مطالبہ کیا تھا۔ ٹرمپ کا یہ مطالبہ ایسے وقت سامنے آیا جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اعلان کیا کہ ان کا ملک آئندہ چار برسوں میں امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کی ماہر ڈاکٹر غادہ جابرکے مطابق ’سعودی عرب نے ٹرمپ کے ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے مطالبے پر سرکاری طور پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا۔‘

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’صدر ٹرمپ کو وہ کچھ مل سکتا ہے جو وہ چاہتے ہیں، خاص طور پر خطے میں حالیہ پیش رفت میں ان کے کردار اور ایران کے معاملے میں ان کی کامیابیوں کے بعد ایسا عین ممکن ہے۔‘

یاد رہے کہ 2017 میں اپنے دورہ سعودی عرب کے دوران ٹرمپ نے 350 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کی تھی اور اس میں 110 ارب ڈالر کا اسلحہ معاہدہ بھی شامل تھا۔

اس دوران وہ قطر سے بھی اربوں ڈالر حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے جس میں 2019 میں قطر میں امریکی فوجی اڈے ’العدید‘ کی تزئین و آرائش کے لیے آٹھ ارب ڈالرسمیت دونوں ممالک کے درمیان کچھ دفاعی معاہدے بھی ہوئے تھے۔

ستمبر 2020 میں قطرکے وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے بتایا تھا کہ ان کا ملک امریکی معیشت میں 200 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی فنڈز دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ مفادات کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔

سعودی الیمامہ فاؤنڈیشن کے علاقائی ڈائریکٹر اور ریاض سینٹر برائے پولیٹیکل اینڈ سٹریٹیجک سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد الزیات، کا کہنا ہے کہ ’یہ امریکہ-سعودی عرب تعلقات کا راز‘ ہے اور ان کا تحفظ ضروری ہے تاکہ یہ مفادات زوال پزیر نہ ہوں۔‘

سرمایہ کاری میں اضافے کا امکان

امریکہ نے حزب اللہ کو کمزور کرنا اور خطے میں ایران کے کردار کو محدود کرنا جیسے اقدامات کیے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

حال ہی میں سعودی عرب کے وزیر معیشت فیصل الابراہیم نے دعویٰ کیا کہ 600 ارب ڈالر کی اعلان کردہ سرمایہ کاریوں کے ساتھ ساتھ اگر اضافی سرمایہ کاری کے مواقع دستیاب ہوں تو ان سعودی سرمایہ کاریوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ میں سعودی سرمایہ کاری کی کوئی حد مقرر نہیں؟

خاص طور پر اس پس منظر میں کہ سعودی عرب مشرقِ وسطیٰ میں خود کو صنعت اور ٹیکنالوجی کا علاقائی مرکز بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

یہ کوششیں سعودی مملکت کے ویژن 2030 کے مطابق ہیں اور ملک میں سرمایہ کاری کے قوانین میں کی گئی سختیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں جن میں صنعت اور ٹیکنالوجی کی سعودی عرب میں منتقلی بھی شامل ہے۔

محمد الزیات نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ ’سعودی عرب امریکہ کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت سمجھتا ہے، جبکہ واشنگٹن سعودی عرب کو مشرقِ وسطیٰ کا دروازہ اور تیل کی منڈیوں کے استحکام یا عالمی توانائی کی سلامتی سے متعلق کسی بھی بین الاقوامی حکمت عملی کے لیے ایک حفاظتی ڈھال تصور کرتا ہے۔‘

بین الاقوامی تعلقات کی ماہر ڈاکٹر غادہ جابر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ صدر ٹرمپ کا خیال ہے کہ انھوں نے خلیجی ممالک، خاص طور پر سعودی عرب، کے لیے ’کئی فائدے حاصل کیے‘ ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ خطے میں ٹرمپ کی ’کامیابیوں‘ میں بشار الاسد حکومت کا زوال، لبنان میں حزب اللہ پر اسرائیلی حملوں کی حمایت، یمن میں حوثیوں کے خلاف ٹرمپ کے احکامات پر ہونے والے حالیہ حملے، ایران پر امریکی فوجی حملے کی دھمکی، اور خطے میں ایران کے کردار کو محدود کرنا شامل ہیں۔

حال ہی میں صدر ٹرمپ نے یمن میں فوجی آپریشن کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حوثیوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور وہ دوبارہ بحیرۂ احمر میں امریکی جہازوں پر حملہ نہیں کریں گے۔

ٹرمپ نے حوثیوں کے ہتھیار ڈالنے اور یمن میں فوجی کارروائیوں کو روکنے کا اعلان کیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

خلیجی فنڈز کا سب سے بڑا ذریعہ

ٹرمپ کا دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری پروگرام پر مذاکرات سمیت خطے میں ایران کی پوزیشن سیاسی اور سٹریٹیجک اعتبار سے تبدیل ہو رہی ہے۔

غادہ جابر نے بی بی سی کو بتایا کہ امریکہ نے ایران کے خطرے کو استعمال کرتے ہوئے خطے کے ممالک کو ڈرایا ہے۔ شام، عراق، لبنان اور یمن میں ایرانی موجودگی سعودی عرب سمیت متعدد خلیجی ممالک کے لیے ایک خدشہ رہی ہے۔

ایران کا جوہری پروگرام اس کے علاوہ ہے جو اسرائیل کے لیے بھی پریشانی کا سبب ہے۔ ٹرمپ نے حال ہی میں ایرانی جوہری پروگرام کے مکمل خاتمے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے۔

شریف عبدالحامد ایرانی سٹڈیز کے گلف سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں جن کا کہنا ہے کہ امریکہ کی ایران پالیسی خلیجی فنڈز کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹرمپ کوشش کر رہے ہیں کہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے سربراہان کو یقین دلائیں کہ اس کے بدلے ان کو ایرانی خطرے سے تحفظ ملے گا۔

سعوی عرب اور ایران کے تعلقات 1979 میں شاہ ایران کا تختہ الٹنے کے بعد سے تناو کا شکار رہے ہیں۔ سعودی عرب نے ایران کے خلاف جنگ میں عراق کی مدد کی تھی اور 1987 میں ایران میں سعودی عرب کے سفارت خانے پر ہجوم نے حملہ آور ہو کر اسے آگ لگا دی تھی۔

یمن میں ایران نے حوثیوں کی سعودی عرب کے خلاف حمایت کی اور حوثیوں کی جانب سے سعودی زمین پر تیل کی تنصیبات کو بھی میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ یہ وہ چند عوامل ہیں جنھوں نے دونوں ممالک کے درمیان بحران کو مذید گہرا کیا۔

مارچ 2023 میں چینی ثالثی کی مدد سے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں بہتری آئی اور چند لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ خطے میں استحکام، کشیدگی میں کمی اور دونوں ممالک کے درمیان شراکت کا آغاز ہو سکتا ہے۔

سعودی عرب کی ال یمامہ فاونڈیشن کے ریجنل ڈائریکٹر زیات کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے معاہدے کو دونوں ملکوں کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کے ذریعے سمجھنا ہو گا۔

ان کے مطابق سعودی عرب مشرق اور مغرب کے درمیان توازن رکھ کر معاشی ترقی کو فرغ دینا چاہتا ہے اور ایران کو امریکی معاشی پابندیوں کی وجہ سے اندرونی مشکلات کا سامنا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایران میں احتجاج کی وجہ سے بھی وہ بیرونی اختلافات کو حل کرنا چاہتا ہے۔

عبدالحامد کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ معاملات حل ہونے سے تنازع ختم ہو سکتا ہے لیکن امریکہ اور اسرائیل ایسا نہیں چاہیں گے کیوں کہ وہ ایران کے خطرے کو استعمال کرتے ہوئے خطے میں تناؤ کو برقرار رکھنا چاہیں گے جس سے ان کے سیاسی اور معاشی مفادات جڑے ہیں۔

دوسری جانب متحدہ عرب امارات اور قطر نے ٹرمپ کے دورے سے قبل ہی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ دبئی میں ٹرمپ آرگنائزیشن نے ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل اور ٹاور کی تعمیر اعلان کیا جو ایک ارب ڈالر کا منصوبہ ہے۔ قطر میں دو ارب ڈالر سے ٹرمپ انٹرنیشنل گالف کلب کے منصوبے کا اعلان ہوا ہے۔

ٹرمپ کے تحفے

خلیج عرب‘ کے نقشے

،تصویر کا ذریعہ(Google Earth

ٹرمپ نے واضح طور پر مطالبہ کیا ہے کہ خطے کے ممالک امریکی جنگوں کا مالی بوجھ اٹھائیں۔ امریکہ نے مصر سے مطالبہ کیا کہ سویز نہر سے امریکی عسکری اور تجارتی جہازوں کو حوثیوں کو نشانہ بنانے کے بدلے مفت راستہ دیا جائے۔

مصر کی جانب سے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا گیا لیکن امریکی خبروں سے عندیہ ملتا ہے کہ مصری صدر نے ٹرمپ کے ساتھ فون پر ہونے والی بات چیت میں اس مطالبے کو مسترد کر دیا تھا۔

تاہم ٹرمپ نے خلیجی ممالک کو اپنے دورے کے دوران ایک سیاسی تحفہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ تحفہ خلیج فارس کے نام کو امریکہ کی جانب سے خلیج عرب کے طور پر باقاعدہ استعمال کرنے کے بارے میں ہو گا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ نے سعودی عرب کے دورے کو اپنے مطالبات کی منظوری سے منسلک کر رکھا ہے۔

ان کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ایسے معاہدے کیے جائیں جن کے تحت سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کا پیسہ امریکی معیشت کی بحالی میں استعمال ہو اور اس کے لیے امریکی اسلحہ اور سازوسامان خریدا جائے۔

زیات کا کہنا ہے کہ سعودی عرب امریکہ کے ساتھ معاملات میں واضح رہا ہے اور ایک معاشی شراکت داری میں بھی شامل ہے۔ ’یقینا سعودی عرب ٹرمپ کے تحفے کو نہیں ٹھکرائے گا۔‘

ان کے مطابق ٹرمپ کو خلیجی ممالک کے پیسے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ امریکہ کو اپنے عالمی اتحادیوں کی مدد سے مالی فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں۔

ٹرمپ نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ یورپ اور جاپان بھی اتحاد کی قیمت ادا کریں۔ وہ چین سے بھی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے انھوں نے بھاری محصولات عائد کی ہیں اور اب امریکی کمپیوں کو چین سے واپس امریکہ منتقل ہونے کی ترغیب دے رہے ہیں۔

SOURCE : BBC