SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, عمران قریشی
- عہدہ, بی بی سی ہندی کے لیے
-
50 منٹ قبل
انتباہ: اس کہانی کی کچھ تفصیلات آپ کو پریشان کر سکتی ہیں
انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک کے بیلگاوی (بیلگام) ضلع میں ایک خاتون کی موت کے معاملے میں پولیس نے خاتون کے سسُر اور شوہر کو گرفتار کر لیا ہے۔
ان پر الزام ہے کہ بچہ نہ ہونے کی وجہ سے سُسرال والوں نے خاتون کو بے دردی سے قتل کردیا۔ اس معاملے میں شوہر کے کردار کی بھی تفتیش کی جا رہی ہے۔
لیکن اس جرم کے ارتکاب میں استعمال کیے جانے والے طریقہ کار نے خواتین کے لیے کام کرنے والی کارکنوں اور پولیس اہلکاروں کو بھی حیرت زدہ کر دیا ہے۔
’ساڑھی سے گلا گھونٹ دیا گیا‘
خاتون کے سرسرالیوں پر الزام ہے کہ سنیچر کے روز 34 سالہ رینوکا سنتوش ہوناکنڈے کو ان کی ساس جینتی ہوناکنڈے اور سسُر کمننا ہوناکنڈے اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر لے جانے کے لیے بلایا۔
اس معاملے میں ابتدائی طور پر یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ رینوکا کی موت اتھانی تعلقہ کے قریب ملباڈی گاؤں میں موٹر سائیکل حادثے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ یہ جگہ مہاراشٹر کے سانگلی ضلع سے تقریباً دو گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔
لیکن پولیس کی ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ رینوکا کو اس کے سسرال والوں نے موٹر سائیکل سے دھکا دیا تھا۔ جب وہ گر گئی تو اس کے سر پر پتھر مارا گیا اور اسی کی ساڑھی سے اس کا گلا گھونٹ دیا گیا۔
پولیس کے بقول ایسا اس لیے کیا گیا تھا کہ اسے سڑک کے حادثے کی شکل دی جائے۔ مقتول کی ساس اور سسر دونوں کی عمریں 64 اور 62 سال ہیں۔ اس کے بعد بزرگ جوڑے نے ’رینوکا کی ساڑھی کو موٹرسائیکل کے پچھلے پہیے سے باندھا اور اسے تقریباً 120 فٹ تک گھسیٹا۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اس میں شوہر کا کردار کیا تھا؟
بیلگام پولیس کے ایس پی بھیمشنکر گولید نے بی بی سی کو بتایا: ’بزرگ جوڑے کو قتل کے معاملے میں گرفتار کر لیا گیا ہے اور رینوکا کے شوہر سنتوش ہوناکنڈے کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ تاہم وہ جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھے۔‘
ایس پی گولید نے کہا: ’اپنی بیوی کے قتل کی سازش میں ان کے (سنتوش ہوناکنڈے) کے کردار کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ انھیں امتناع جہیز ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ سنتوش نے اپنی بیوی کے گھر والوں سے جہیز کے طور پر پانچ لاکھ روپے کا مطالبہ کیا تھا جس میں سے اسے پچھلے مہینے ہی پچاس ہزار روپے ملے تھے۔’
افسر نے بتایا کہ سنتوش پونے میں واقع ایک سافٹ ویئر کمپنی میں کام کرتا ہے۔ حکام نے کہا: ‘ایسا نہیں تھا کہ وہ (خاتون) کم پڑھی لکھی تھی، اس کی بیوی بی ایم ایس کی ڈگری کے ساتھ ڈاکٹر تھی۔’
ایس پی نے کہا کہ خاتون کو اس لیے قتل کیا گیا کیونکہ اس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔
ایس پی بھیماشنکر نے کہا: ’سنتوش نے ایک دوسری عورت سے شادی کر لی ہے اور وہ حاملہ ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہkarnataka.gov.in
تشدد کا وحشیانہ طریقہ کار
خواتین کے حق کے لیے آواز اٹھانے والی کارکنوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند سالوں میں خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کی نوعیت بدل گئی ہے۔
ان کے مطابق رینوکا کے کیس اور کچھ دیگر حالیہ کیسوں میں جو طریقے اپنائے گئے وہ پہلے سے زیادہ سفاکانہ اور غیر انسانی ہوتے جا رہے ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم اویکشا کی ڈونا فرنینڈس نے بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے کہا: ‘ہم نے 1997 میں بنگلور میں ایک مطالعہ کیا تھا اور ہم نے یہ پایا تھا کہ ہر ماہ تقریباً 100 خواتین جہیز کے متعلق ہراسانی کی وجہ سے مر رہی تھیں۔ ان میں سے 70 فیصد خواتین جل کر مری تھیں۔ آج بھی صورت حال زیادہ نہیں بدلی ہے، کیونکہ انسداد جہیز قوانین موثر ثابت نہیں ہوئے ہیں۔’
ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ مرد جان بوجھ کر اس طرح گاڑی چلاتے ہیں کہ عورت مر جائے یا شدید زخمی ہو جائے، اس کے بعد وہ جہیز لے کر دوبارہ شادی کر لیتے تھے۔ لیکن اب تشدد کی شکل بدل گئی ہے۔‘
گلوبل کنسرنز انڈیا اور مکتی الائنس اگینسٹ ہیومن ٹریفکنگ اینڈ بانڈڈ لیبر کی ڈائریکٹر برندا اڈیگے نے کہا: ’جیسا کہ بیلگاوی کیس ظاہر ہوتا ہے جس قسم کا تشدد کیا جا رہا ہے وہ وحشیانہ ہے کیونکہ قانون کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہDCPWestBCP
قوانین موجود ہیں لیکن نفاذ پر سوال

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
برندا اڈیگے نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’پولیس سٹیشن میں کسی بھی مقدمے کے اندراج میں وقت لگتا ہے کیونکہ انھیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے شواہد تلاش کرنے ہوتے ہیں کہ خاتون نے اس معاملے میں کوئی اشتعال انگیز کام تو نہیں کیا ہے دوسری بات یہ کہ جب کیس عدالت میں پہنچتا ہے تو پولیس بہت کم شواہد پیش کر پاتی ہے۔
‘ہمیں لگتا ہے کہ پولیس شکایت درج ہونے کے فوراً بعد ایکشن نہیں لیتی یا 24 گھنٹے کے اندر شواہد اکٹھے نہیں کرتی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو عدالت میں بہانے بنائے جاتے ہیں۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ انھوں نے تمام اصولوں پر عمل کیا تو عدالت حالاتی شواہد کو قبول نہیں کرتی۔’
فرنینڈس نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ‘صورتحال اتنی سنگین ہو گئی ہے کہ دفعہ 498 اے کے نفاذ کے اصول بھی بدل گئے ہیں۔ اب خواتین کو پہلے کونسلنگ دی جاتی ہے، اس کے بعد ہی 498 اے یا (تعزیرات ہند کی جگہ اب نیا قانون بی این ایس ایس کی دفعہ 85) کے تحت تفتیش شروع کی جاتی ہے۔ شوہر دوبارہ تھانے نہیں آتا اور عورت اکیلی رہ جاتی ہے۔ مرد فرار ہو جاتے ہیں کیونکہ پولیس اسے کونسلنگ کی ناکامی کہہ معاملہ درج کر لیتی ہے۔ یہ ایک بہت ہی افسوسناک صورت حال ہے۔’
خواتین کے لیے کام کرنے والی کارکن مختلف سطحوں پر اس طرح کے معاملات کو سنبھالنے کے طریقے پر سوال اٹھاتے ہیں۔
کرناٹک پولس کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ریاست میں دسمبر سنہ 2023 تک شوہروں کی طرف سے ظلم کے کل 3005 کیس درج کیے گئے۔ جہیز کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد 156 تھی۔
سنہ 2024 کے آخر میں شوہر کے ظلم سے متعلق 2,943 مقدمات درج ہوئے جن میں جہیز کی وجہ سے ہونے والی اموات کی تعداد 110 تھی۔
اپریل 2025 تک یہ اعداد و شمار بالترتیب 946 مقدمات اور 45 اموات رہیں۔
اس دوران ریاست مہاراشٹر میں پونے کے ملشی علاقے کی ویشنوی ہگاونے کی موت کا معاملہ بھی زیر بحث ہے۔ ابتدائی طور پر کہا جا رہا تھا کہ انھوں نے خودکشی کی ہے۔
تاہم پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ان کے جسم پر حملے کے نشانات پائے گئے۔ اس کے والدین نے الزام لگایا کہ ویشنوی کو جہیز کے لیے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور پھر ایک دن اس کا قتل کر دیا گیا۔
اس معاملے میں پولیس نے ویشنوی کے شوہر ششانک ہگاونے، ساس لتا ہگاونے، بہنوئی کرشمہ ہگاونے، سسر ہگاونے اور ان کے دوسرے بیٹے سشیل ہگاونے کو گرفتار کیا ہے۔
اڈیگے کہتے ہیں کہ اس طرح کے ’معاملات میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن سزا سنائے جانے کی شرح تین فیصد سے بھی کم ہے۔ اگر کوئی عورت شادی شدہ ہے تو اسے اپسرا (حور) کی طرح نظر آنا چاہیے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس نے کتنی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔
’یہاں سب کچھ جہیز پر مبنی ہے، ان سے بچے اور وہ بھی بیٹا پیدا کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ سافٹ ویئر انجینئر ہے، ڈاکٹر ہے یا خلاباز۔‘
SOURCE : BBC