SOURCE :- BBC NEWS
- مصنف, تیسا وانگ
- عہدہ, ایشیا ڈیجیٹل رپورٹر، بی بی سی
-
17 منٹ قبل
تین دہائیوں قبل دنیا ایک ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچ چکی تھی لیکن پھر جمی کارٹر شمالی کوریا میں نمودار ہوگئے۔
جون 1994 میں سابق امریکی صدر جمی کارٹر شمالی کوریا کے وفد کے سربراہ کم ایل سونگ سے مذاکرات کے لیے پیانگ یانگ پہنچے تھے۔
یہ ایک غیر معمولی دورہ تھا کیونکہ تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکہ کا کوئی سابق یا موجودہ صدر شمالی کوریا آیا تھا۔
یہ جمی کارٹر کی اپنی ذاتی کوشش تھی جس کے سبب امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان جنگ چھڑتے چھڑتے رہ گئی تھی۔ ایک ایسی جنگ جس میں لاکھوں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو سکتے تھے۔
اسی دورے کے سبب شمالی کوریا اور مغربی دنیا کے درمیان رابطے بڑھے تھے۔ لیکن یہ سب کچھ جمی کارٹر کی سفارتی کوششوں کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ وہ گذشتہ مہینے 29 تاریخ کو 100 برس کی عمر میں وفات پا گئے تھے۔
شمالی کوریا پر گہری نظر رکھنے والے یونسی یونیورسٹی سے منسلک تجزیہ کار جان ڈلیوری کہتے ہیں کہ ’کم ایل سونگ اور بِل کلنٹن ایک تنازع کی طرف بڑھ رہے تھے لیکن درمیان میں کارٹر آگئے اور انھوں نے مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کرلیا۔‘
سنہ 1994 کے اوائل میں امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان شدید تناؤ تھا اور امریکی حکام پیانگ یانگ کے جوہری پروگرام کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی کوششیں کر رہے تھے۔
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو شک تھا کہ مذاکرات کے باوجود شمالی کوریا نے خفیہ طریقے سے ایٹمی ہتھیار بنا لیے ہیں۔
پھر اچانک شمالی کوریا نے اعلان کیا کہ اس نے یونگ بیونگ نیوکلیئر ری ایکٹر سے ہزاروں فیول زاڈز کا انخلا شروع کردیا ہے۔ یہ امریکہ کے ساتھ ماضی میں کیے گئے ایک معاہدے کی خلاف ورزی تھی جس میں واضح کیا گیا تھا کہ ایسے کسی بھی عمل کے دوران انٹرنیشنل ایٹماک انرجی ایجنسی کے مشاہدہ کاروں کی موجودگی ضروری ہے۔
لیکن شمالی کوریا نے اس وقت انٹرنیشنل ایٹماک انرجی ایجنسی سے بھی دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا۔
ان تمام باتوں نے امریکی شکوک و شبہات کو مزید تقویت بخشی کے شمالی کوریا ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے اور پھر دونوں مماملک کے درمیان مذاکرات منسوخ ہو گئے۔ اس کے بعد امریکہ نے جواب میں متعدد اقدامات لینے کی تیاری شروع کر دی جیسے کہ شمالی کوریا پر اقوامِ متحدہ کی پابندیاں اور جنوبی کوریا میں اپنی فوج کی تعیناتی۔
اس کے بعد دیے گئے انٹرویوز میں امریکی حکام نے انکشاف کیا کہ ان کی جانب سے یونگ بیونگ پر بم گرانے یا میزائل فائر کرنے پر بھی غور کیا گیا تھا، یہ ایک ایسا اقدام تھا جس کے سبب کورین سرزمین پر جنگ چھڑ سکتی تھی اور اس کے نتیجے میں جنوبی کوریا کا دارالحکومت سیول بھی تباہ ہو سکتا تھا۔
ایسے خطرناک ماحول میں جمی کارٹر نے ذاتی سفارتکاری کی کوششیں شروع کیں۔
برسوں سے شمالی کوریا کے اس وقت کے سربراہ کم ایل سونگ جمی کارٹر کو ذاتی طور پر پیانگ یانگ کا دورہ کرنے کی دعوت دے رہے تھے۔ پھر جون 1994 میں امریکی کی عسکری منصوبہ بندی کو مدِنظر رکھتے ہوئے اور امریکی حکومت اور شمالی کوریا کے اتحادی چین سے بات چیت کے بعد جمی کارٹر نے پیانگ یانگ کے دورے کی دعوت قبول کرلی۔
برسوں بعد انھوں نے امریکی براڈکاسٹر پی بی ایس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اپنے شمالی کوریا کے دورے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’میرے خیال میں ہم جنگ کے دہانے پر موجود تھے، دوسری کورین جنگ چھڑ سکتی تھی جس میں لاکھوں لوگ مر سکتے تھے۔‘
جمی کارٹر کا شمالی کوریا کا دورہ سفارتی مہارت کا ثبوت تھی۔ سب سے پہلے انھوں نے کم ایل سونگ کی مخلصی کا جائزہ لیا۔ سابق امریکی صدر نے کچھ درخواتیں بھی کیں جو کہ شمالی کوریا نے قبول کرلیں۔ جمی کارٹر نے کہا تھا کہ کہ سیول کے ذریعے ڈیملٹرائزڈ زون کے ذریعے پیانگ یانگ آنا چاہتے ہیں۔
جمی کارٹر کے مطابق ’شمالی کوریا کا ردِ عمل یہ تھا کہ گذشتہ 43 برسوں میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکریٹری کو بھی بیجنگ کے ذریعے پیانگ یانگ آنا پڑا تھا۔‘
سابق امریکی صدر نے مزید بتایا کہ ’میں نے بھی کہہ دیا کہ پھر میں نہیں آ رہا۔‘
ایک ہفتے بعد کم ایل سونگ نے جمی کارٹر کی شرط مان لی۔
اس کے بعد جمی کارٹر کے لیے سب سے مشکل کام امریکی حکومت کو اس دورے کے لیے منانا تھا۔ شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کرنے والے امریکی مذاکرات کار رابرٹ گالوچی نے بعد میں اس حوالے سے کہا تھا کہ اس دورے کو لے کر ’تقریباً تمام حلقوں میں بےچینی پائی جاتی تھی‘ کیونکہ کہا جا رہا تھا کہ امریکہ نے اپنی خارجہ پالیسی ایک سابق صدر کے حوالے کر دی ہے۔
جمی کارٹر نے پہلے اس دورے کے لیے محکمہ خارجہ سے اجازت طلب کی لیکن انھیں وہاں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔ پھر انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس وقت کے امریکی صدر بِل کلنٹن کو صرف آگاہ کریں گے کہ وہ صورت میں شمالی کوریا کا دورہ کر رہے ہیں۔
امریکی نائب صدر ایل گور کو اس وقت جمی کارٹر کا ایک اتحادی سمجھا جاتا تھا اور انھوں نے ہی سابق صدر کا پیغام اس وقت کے صدر تک پہنچایا۔
جمی کارٹر نے انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’ایل گور نے مجھے فون کیا اور کہا کہ کیا میں اپنے پیغام میں ’میں نے جانے کا فیصلہ کرلیا ہے‘ کے الفاظ میں تبدیلی کر کے اسے ’میں ضرور جانا چاہوں گا‘ کر سکتا ہوں تاکہ بِل کلنٹن سے براہِ راست اس دورے کی اجازت طلب کی جاسکے۔ ‘
’اگلی صبح ایل گور نے مجھے فون کیا اور بتایا کہ مجھے شمالی کوریا جانے کی اجازت مل گئی ہے۔‘
اس طرح جمی کارٹر کا شمالی کوریا کا دورہ طے ہو گیا۔
’وہ اپنی غیرت کو بچانے کے لیے جانیں بھی قربان کر دیتے‘
15 جون 1994 میں جمی کارٹر اپنی اپنی اہلیہ روزالن، کچھ ساتھیوں اور ٹی وی ملازمین کے ہمراہ شمالی کوریا میں داخل ہوگئے۔
کم ایل سونگ کے ساتھ ملاقات سابق امریکی صدر کے لیے ایک اخلاقی امتحان ثابت ہوا۔
جمی کارٹر نے پی بی ایس کو بتایا تھا کہ ’میں 50 برسوں تک کم ایل سونگ کو ناپسند کرتا آیا تھا۔ میں کورین جنگ کے دوران ایک آبدوز میں بحرالکاہل میں تھا اور اس جنگ میں میرے بہت سے ساتھی ہلاک ہوئے تھے، میں سمجھتا تھا کہ یہ جنگ کم ایل سونگ نے غیرضروری طور پر بھڑکائی تھی۔‘
’مجھے کم ایل سونگ پر شک تھا۔ میں جب وہاں پہنچا تو وہ میرے ساتھا انتہائی احترام سے پیش آئے۔ وہ بہت شکر گزار تھے کہ میں وہاں آیا۔‘
اگلے کئی دنوں تک جمی کارٹر کی کم ایل سونگ سے ملاقاتیں ہوتی رہیں اور وہ لوگ پیانگ یانگ کی سیر کرتے رہے اور کم ایل سونگ کے بیٹے کم جونگ ایل کے جہاز میں انھوں نے سمندر میں بھی سیر کی۔
اس دوران جمی کارٹر کو معلوم ہوا کہ ان کے تمام اندازے درست تھا: شمالی کوریا نہ صرف امریکی عسکری حملے امکان سے ڈرا ہوا تھا بلکہ اس خطرے کے سبب تیاریاں بھی جاری تھیں۔
جمی کارٹر نے اس حوالے سے بتایا تھا کہ ’میں نے کم ایل سونگ کے مشیروں سے پوچھا کہ کیا وہ جنگ کی تیاریاں کر رہے تھے؟ انھوں نے کہا کہ جی ہاں ہم کر رہے تھے۔‘
جمی کارٹر کے مطابق کم ایل سونگ کے مشیروں نے انھیں بتایا کہ کسی حملے کی صورت میں’شمالی کوریا اپنے ملک اور اس کے سربراہ کی بےعزتی قبول نہ کرتا اور حملے کا جواب دیتا۔‘
’یہ چھوٹا سا ملک ہے جہاں مذہبی جذبات معنی رکھتے ہیں اور اپنے سربراہ کا احترام کیا جاتا ہے، اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنی غیرت کو بچانے کے لیے جانیں بھی قربان کر دیتے، جو کہ میرے ذاتی خیال میں ایک خوفناک منظر ہوتا۔‘
جمی کارٹر نے شمالی کوریا کے اس وقت کے سربراہ کے سامنے امریکہ کے مطالبات اور اپنی گزارشات پیش کیں۔ ان میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی بحالی، جنوبی کوریا کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنا، فوج کو پیچھے ہٹانا اور شمالی کوریا میں دفن امریکی فوجیوں کی باقیات ڈھونڈنے جیسے مطالبات شامل تھے۔
جمی کارٹر کا کہنا تھا کہ ’انھوں نے تمام مطالبات سے اتفاق کیا۔‘ انھوں نے کم ایل سونگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’جتنا مجھے معلوم ہے اس کے مطابق شمالی کوریا کے سربراہ میرے ساتھ مکمل طور پر مخلص تھے۔‘
یہاں سب سے اہم بات یہ تھی کہ جمی کارٹر شمالی کوریا کے ساتھ ایک ڈیل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے جس کے تحت پیانگ یانگ تمام جوہری اقدامات بند کر دیتا، انٹرنیشنل ایٹماک انرجی ایجنسی کے مشاہدہ کاروں کو اپنے ملک تک رسائی دے دیتا اور یونگ بیون میں اپنا جوہری ری ایکٹر بند کر دیتا۔
اس کے بدلے میں امریکہ اور اس کے اتحادی شمالی کوریا میں لائٹ واٹر ری ایکٹر تعمیر کرتے جن کے ذریعے شمالی کوریا میں جوہری توانائی تو پیدا کی جا سکتی تھی لیکن ہتھیار نہیں۔
شمالی کوریا نے اس معاہدے کو مان لیا تھا لیکن امریکی حکام اسے قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔ اس وقت جمی کارٹر نے کہا کہ وہ سی این این پر جاکر اس معاہدے کی تفصیلات بتائیں گے اور اس کے بعد بِل کلنٹن کی انتطامیہ کے پاس رضامندی ظاہر کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچا۔
کارٹر نے بعد میں کہا کہ اپنی حکومت پر زور ڈالنا ان کا ایک درست عمل تھا کیونکہ وہ ’ایک انتہائی سنگین بحران کا حل چاہتے تھے۔‘
تاہم ان کے اس عمل پر امریکہ میں ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا گیا اور رابرٹ گالوچی کے مطابق حکام جمی کارٹر سے نالاں تھے۔
جب جمی کارٹر کے دورے کا اختتام ہونے والا تھا تو امریکی حکام نے انھیں کہا کہ وہ شمالی کوریا کو بتا دیں کہ بِل کلنٹن عوامی سطح پر پیانگ یانگ پر بابندیوں کے مؤقف پر قائم رہیں گے۔ تمام اطلاعات کے مطابق جمی کارٹر نے یہ پیغام پہنچانے سے انکار کر دیا۔
کچھ ہی گھنٹوں بعد کم ایل سونگ کے ساتھ ایک کشتی میں سوار ہوئے اور انھوں نے بِل کلنٹن کے مؤقف کے خلاف جا کر شمالی کوریا کے سربراہ کو بتایا کہ امریکہ اقوامی متحدہ کی پابندیوں کی تیاری پر کام بن کر چکا ہے۔
اس موقع پر وائٹ ہاؤس نے جمی کارٹر سے دوری اختیار کرلی اور کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ سابق امریکی صدر گمراہ ہو گئے ہیں۔
اس وقت ایک سینیئر امریکی عہدیدار نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا تھا کہ ’کارٹر وہی سُن رہے ہیں جو وہ سُننا چاہتے ہیں اور انھوں نے اپنی ہی ایک دنیا بنالی ہے۔‘
واشنگٹن میں متعدد شخصیات نے سابق امریکی صدر پر تنقید کی اور کہا کہ شمالی کوریا نے انھیں استعمال کیا ہے۔
کارٹر کے دورے کی رپورٹنگ کرنے والے سی این این کے رپورٹر مائک چنوئے نے لکھا تھا کہ کارٹر کا نیوز میڈیا کے ذریعے ڈالا گیا کام دباؤ کر گیا۔ انھوں نے اپنے مذاکرات کو فوراً نشر کیا اور امریکی حکومت کو اس پر ردِعمل دینے کا بہت کم وقت ملا۔
سی این این کے رپورٹر کے مطابق جمی کارٹر کے دورے کے فوراً بعد ’ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ شمالی کوریا کے لیے امریکی پالیسی میں تبدیلی آئی۔‘
جمی کارٹر نے بعد میں کہا کہ پابندیوں کے معاملے پر انھوں نے غلط بات کی تھی لیکن پھر خود ہی اپنا دفاع بھی کرنے لگے۔
’جب میں واپس سیول پہنچا تو وائٹ ہاؤس کی جانب سے منفی ردِ عمل دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ انھوں نے مجھے کہا کہ آپ بریفنگ کے لیے واپس واشنگٹن نہیں آئیں بلکہ سیدھے اپنے گھر جائیں۔‘
لیکن تب بھی جمی کارٹر نے اپنی مرضی ہی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے فیصلہ کیا کہ جو پیشکش میرے پاس ہے اُسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔‘
اس معاملے میں حیرت انگیز تبدیلی اس وقت آئی جب 9 جولائی 1994 میں امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان مذاکرات کے دن خبروں میں اعلان ہوا کہ کم ایل سونگ دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے ہیں۔
اس وقت جمی کارٹر کا معاہدہ غیریقینی کا شکار ہوگیا لیکن اس کے باوجود بھی مذاکرات کاروں نے اپنا کام جاری رکھا اور کچھ مہینوں بعد ایک ایسا مجوزہ معاہدے بنالیا جس پر دونوں فریقین کا اتفاق تھا۔
پھر یہ معاہدہ سنہ 2003 میں ٹوٹا اور شمالی کوریا، لیکن یہی معاہدہ تقریباً ایک دہائی تک شمالی کوریا کے جوہری پروگرام پر قدغن ثابت ہوا تھا۔
’سفارتی مداخلت کی ایک بہترین مثال‘
امریکی خفیہ ادارے کے سابق عہدیدار اور شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کرنے والے وفد میں شامل رابرٹ کارلن کہتے ہیں کہ جمی کارٹر کی اصل کامیابی یہ تھی کہ انھوں نے امریکہ حکومت کو تعاون کرنے پر مجبور کیا۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کارٹر شمالی کوریا میں ایک دروازے کو کھول رہے تھے۔ ان کے لیے واشنگٹن ایک بڑا چیلنج ثابت ہو رہا تھا۔ کارٹر کی مداخلت نے شکوک و شبہات پر مبنی امریکی فیصلہ سازی کو روکنے کی کوشش کی۔‘
جمی کارٹر کے اس دورے نے دونوں ممالک کے درمیان رابطوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس بعد انھوں نے شمالی کوریا کے متعدد دورے کیے، ان میں بِل کلنٹن کے ساتھ 2009 میں کیا گیا ایک دورہ بھی شامل تھا جس میں وہ شمالی کوریا میں گرفتار کیے گئے امریکی صحافیوں کو بھی آزاد کروا کر لائے تھے۔
جان ڈلیوری کہتے ہیں کہ جمی کارٹر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے سنہ 2018 میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کم ایل جونگ کی ملاقات کروانے میں بھی بڑا کردار ادا کیا۔
تاہم ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے موجودہ سربراہ کے درمیان ملاقات کامیاب نہیں ہوئی اور جمی کارٹر کے دورے کے سبب دونوں مملک کے درمیان ایٹمی جنگ کے خطرات بھی مستقل طور پر ختم نہیں ہوئے اور آج شمالی کوریا کے پاس ایسے میزائل موجود ہیں جو شاید امریکی سرزمین تک پہنچنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
لیکن آج بھی جمی کارٹر کو سیاسی عمل شروع کرنے پر سراہا جاتا ہے۔ جب وہ امریکہ کے صدر تھے اس وقت انھیں خارجہ پالیسی پر تنقید سہنے پڑی تھی کیونکہ لوگوں کا خیال تھا کہ انھوں نے ایران میں یرغمالیوں کے معاملے کو درست طریقے سے نہیں ہینڈل کیا تھا۔
جان ڈلیوری کہتے ہیں کہ جمی کارٹر کا دورہ شمالی کوریا ’ایک سابق صدر کی جانب سے کی گئی سفارتی مداخلت کی ایک بہترین مثال تھی۔‘
مائک چنوئے کے مطابق تاہم جمی کارٹر کی کہانی میں اکثر ان کا اپنا ہی کردار اکثر تنقید کا شکار نظر آتا ہے کیونکہ انھوں نے سفارتی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ جمی کارٹر نے ایک پُرخطر اور پیچیدہ کھیل کھیلا۔
مائک چنوئے لکھتے ہیں کہ جمی کارٹر نے اس ’امریکی پالیسی کو روکنے کی کوشش کی جو ان کے نزدیک خطرناک تھی اور انھوں نے خود ہی ایک جوہری معاہدے پر پہنچنے کا فیصلہ کیا۔‘
تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اس کام کے لیے جمی کارٹر سے بہترین آدمی کوئی نہیں تھا۔
ہان ایس پارک نے 1994 میں جمی کارٹر کا دورہ شمالی کوریا طے کروانے میں مدد کی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ جمی کارٹر فیصلہ سازی کی قوت سے مالا مالا تھے اور ’امن کے داعی‘ تھے۔
ہان ایس پارک مزید کہتے ہیں لیکن جمی کارٹر کی ضد ایک ایسی چیز تھی ’جس کے تمام لوگوں کا ان کے ساتھ چل مشکل تھا‘ لیکن وہ ایک اور کورین جنگ کو روکنے کے لیے بہترین انتخاب تھے۔
سب سے اہم بات یہ تھی کہ جمی کارٹر خود اس بات پر قائل تھے کہ وہ جو کر رہے ہیں وہ بالکل ٹھیک ہے۔
رابرٹ کارلن کہتے ہیں کہ ’جمی کارٹر نے امریکی حکومت کی ہچکچاہٹ اور عجلت کو اپنے آڑے نہیں آنے دیا۔ ان میں ہمت تھی۔ ‘
SOURCE : BBC