SOURCE :- BBC NEWS

مصنف خشونت سنگھ کو کافی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, راجویر کور گل
  • عہدہ, بی بی سی
  • 3 گھنٹے قبل

’دادا، کیا آپ عورتوں کے رسیا ہیں؟‘ جب خشونت سنگھ کی پوتی نے اپنے 77 سالہ دادا سے یہ سوال پوچھا تو اُن کی والدہ اور دادی بھی وہیں موجود تھیں۔

درحقیقت یہ 16 سالہ پوتی کی اپنے دادا کی خواتین کے ساتھ تعلقات کے بارے میں جاننے کی ایک کوشش تھی۔

خشونت سنگھ لکھتے ہیں، ’میں نے اس کا سیدھا جواب دیا۔‘

’ہاں میں ہوں۔ تمہیں نہیں معلوم کہ روزانہ کتنی خوبصورت عورتیں مجھ سے ملنے آتی ہیں۔‘

اس جواب پر خشونت کی پوتی نے کہا کہ انھیں ایسا نہیں لگتا۔

اس سارے گفتگو کی وجہ سکول میں ایک استاد کی جانب سے خشونت سنگھ کی ایک کہانی پڑھاتے ہوئے مصنف کے بارے میں اُن کی پوتی کو دی گئی معلومات تھیں۔

استاد نے کلاس میں خشونت سنگھ کو ایک شرابی اور لاپرواہ شخص کے طور پر پیش کیا تھا۔

اس بارے میں خشونت لکھتے ہیں کہ ’میں انھیں اس کے لیے مورد الزام نہیں ٹھہراتا۔ عام لوگ مجھے اسی طرح دیکھتے ہیں۔ کافی حد تک میں خود اس کا ذمہ دار ہوں۔‘

’میں نے خود کو ایسے ہی پیش کیا ہے۔ لیکن درحقیقت میں میں ایسا بالکل نہیں تھا۔ میں پچھلے 50 سالوں سے شراب پی رہا ہوں، اس دوران ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا جب میں نے شراب نوشی نہ کی ہو مگر میں اس کے زیر اثر کبھی مدہوش نہیں ہوا۔ اور نہ ہی خواتین کے تئیں میری ذہنیت ایسی رہی ہے۔‘

’انفورگیٹیبل خشونت سنگھ‘ کا سرورق

،تصویر کا ذریعہALEPH BOOKS COMPANY

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

خشونت سنگھ کا یہ اقتباس ’انفورگیٹیبل خشونت سنگھ‘ (ناقابلِ فراموش خشونت سنگھ) میں درج ہے۔

انڈیا کے معروف صحافی، مصنف اور کالم نگار خشونت سنگھ دو فروری 1915 کو موجودہ پاکستان کے ضلع خوشاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں ہڈالی میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم بھی اسی گاؤں کے سرکاری ہائی سکول سے حاصل کی اور اس کے بعد انڈیا کی تقسیم ہوئی تو خشونت سنگھ انڈیا چلے گئے۔ اُن کی وفات 20 مارچ 2014 کو انڈیا ہی میں ہوئی تھی۔ خشونت سنگھ کی وصیت کے مطابق اُن کے مرنے کے بعد ان کی راکھ پاکستان لائی گئی۔

’ٹرین ٹو پاکستان‘ سے لے کر سکھ تاریخ جیسے حساس موضوعات پر لکھنے والے مصنف خشونت سنگھ کے بارے میں ان کے بیٹے اور مصنف راہل سنگھ کا کہنا ہے کہ اُن کے والد لاپرواہ مزاج کے مالک تھے جو کبھی خود کو سنجیدہ نہیں لیتے تھے۔

پنجابی مؤرخ ہرپال سنگھ پنوں کا ماننا ہے کہ ’خشونت سنگھ پنجاب اور پنجابی کو دنیا کے سامنے لائے۔ ان کی وجہ سے پوری دنیا میں پنجاب کی عزت ہوئی۔‘

خشونت سنگھ کو اپنی سوانح عمری میں خواتین کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں بہت زیادہ کُھل کر بات کرنے پر قارئین کی جانب سے کافی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔

تاہم اس تنقید کا اُن پر کوئی اثر نہیں ہوا اور انھوں نے اپنے اقداروں کے مطابق ایک خوشحال زندگی گزاری۔

خشونت سنگھ کے بیٹے راہل سنگھ کا کہنا ہے کہ بطور والد خشونت سنگھ کافی سخت تھے۔

،تصویر کا ذریعہhttps://linktr.ee/kslitfest

’خواتین میری کمپنی کو پسند کرتی ہیں‘

خشونت سنگھ نہ صرف اپنی تحریروں میں خواتین کرداروں کی تصویر کشی کے لیے تنقید کا نشانہ بنے بلکہ متعدد خواتین کے ساتھ تعلقات کے بارے میں اُن کے دعوؤں کو بھی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

انھوں نے خود ’فیملی میٹرز‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھا کہ ’میری زندگی میں بہت سی عورتیں آئیں، جیسے دیگر بہت سے مردوں کی زندگیوں میں آتی ہیں۔‘

’لیکن میں نے کبھی کسی کو بیوقوف نہیں بنایا یا کسی کے سامنے غیر ضروری بات نہیں کی، اور ان خواتین نے کبھی مجھے نہیں جھڑکا۔‘

خشونت لکھتے ہیں کہ خواتین اُن کے ساتھ وقت گزارنا اس لیے پسند کرتی تھیں کیونکہ وہ اُن کی باتوں کو غور سے سنتے تھے اور اس حوالے سے کُھلے دل کے انسان تھے۔

خشونت سنگھ اور کول ملک کی شادی کی تصویر

،تصویر کا ذریعہRahul Singh

راہل سنگھ اپنے والد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’انھیں ہماری والدہ سے بے حد عقیدت تھی اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کا رشتہ اتنا طویل اور خوبصورت رہا۔‘

’وہ جو کچھ لکھتے تھے وہ بنیادی طور پر اُن کے افسانوی خیالات تھے، حقیقی زندگی اُن کی کتابوں میں درج زندگی سے بہت مختلف تھی۔‘

اس کی ایک مثال خشونت سنگھ کی سوانح عمری ’ٹروتھ، لو اینڈ اے لٹل ملائیز‘ میں ملتی ہے۔ ’ایک بار جب میرا بیوی کے ساتھ تعلقات میں تھوڑا سا تناؤ پیدا ہوا تو میں نے پوری رات گوردوارہ بنگلہ صاحب میں عبادت میں گزاری اور خدا سے اس مشکل وقت سے نکلنے کی طاقت مانگی۔‘

’نرگس میرے کمرے میں سوئی تھی‘

راہل نے اپنے والد خشونت سنگھ کی مزاحیہ فطرت اور تخیلاتی اختراع کی مثال پیش کرتے ہوئے بتایا کہ بالی وڈ کی مشہور اداکارہ نرگس کے بچے ہماچل پردیش کے شہر سولن کے ایک سکول میں پڑھا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ نرگس اپنے بچوں کے سکول کی کسی تقریب میں شرکت کے لیے سولن پہنچیں تو علاقے کے تمام ہوٹل پہلے سے بُک تھے۔

خشونت سنگھ کا قصولی میں ایک ولا تھا۔ نرگس نے خشونت سنگھ کو فون کیا کہ وہ اُن کی کسولی کی رہائش گاہ پر رہنے کی اجازت چاہی۔

خشونت سنگھ نے پہلے اُن سے پوچھا کہ کیا یہ فلم ’مدر انڈیا‘ کی نرگس کا فون ہے؟

جب نرگس نے ہاں میں جواب دیا تو خشونت نے اپنے منفرد مزاحیہ انداز میں کہا، ’ہاں، آپ رہ سکتی ہیں اگر آپ مجھے اپنے دوستوں کو یہ بتانے کی اجازت دے دیں کہ نرگس میرے کمرے میں سوئی ہے۔‘

یہ سُن کر نرگس بے اختیار ہنس پڑیں۔

جب خشونت سنگھ کی اہلیہ نے اُن کی مخالفت کی

خشونت سنگھ کی لیئنڈر پیس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

راہل سنگھ کا کہنا ہے کہ خشونت بہت سنجیدہ اور جذباتی انسان تھے۔ وہ اندرا گاندھی اور سنجے گاندھی کے بہت قریب تھے۔

وہ ان دونوں کی پالیسیوں کے حامی بھی تھے۔ اس لیے جب اندرا گاندھی نے 1975 میں ایمرجنسی نافذ کی تو خشونت سنگھ نے اس کی حمایت کی۔

ایک مصنف کے طور پر، انھیں اس طرح کا موقف اپنانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

راہل کا کہنا ہے کہ یہ واحد موقع تھا جب انھوں نے اپنی والدہ کول ملک کو اپنے شوہر خلاف کھڑے دیکھا۔ کول سمیت پورے خاندان نے خشونت سنگھ کے فیصلے کی مخالفت کی۔

جب خشونت سنگھ کی ایمرجنسی کی حمایت ان کے بیٹے کے لیے شرمندگی کا باعث بنی

جب راہل سنگھ سے پوچھا گیا کہ کیا خشونت سنگھ جیسے بڑے مصنف کا بیٹا ہونا سماجی طور پر مشکل تھا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ مشکل نہیں تھا، لیکن بعض اوقات انھیں اپنے والد کی وجہ سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

اس کے لیے راہل ایمرجنسی کے دنوں کی مثال دیتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ جب اُن کے والد نے ایمرجنسی کی حمایت کی تو اُس وقت وہ امریکہ میں مقیم تھے۔

’مجھ سمیت پورا خاندان اُن سے ناراض تھا۔ میں ایمرجنسی اور اپنے والد کی مخالفت کر رہا تھا لیکن لوگوں کو اس بارے میں علم نہ تھا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ امریکہ میں اُن کے دوست نے ایک پارٹی رکھی جس میں انھوں نے بھی میں شرکت کی۔ راہل کے مطابق وہاں بہت سارے پڑھے لکھے لوگ تھے مدعو تھے جن میں بہت سے انڈینز بھی شامل تھے، اور وہاں ایمرجنسی کے بارے میں بحث چھڑ گئی۔

راہل کہتے ہیں کہ ’اس دوران ایک شخص اتنا مشتعل ہو گیا کہ اس نے کہا کہ اگر خشونت سنگھ اس کے سامنے ہوتا تو وہ اسے گولی مار دیتے۔‘

راہل کے دوست نے ماحول کو تھوڑا بہت ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ خشونت سنگھ سے خوش نہیں تو آپ ان کے بیٹے کو یہاں گولی مار سکتے ہیں۔‘

راہل سنگھ کہتے ہیں کہ ایسے مواقع پر شرمندہ ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا۔

تاہم، خشونت سنگھ نے سنہ 1984 میں ہونے والے آپریشن بلیو سٹار کے خلاف احتجاجاً 1974 میں دیا گیا اپنا پدم بھوشن ایوارڈ واپس کر دیا تھا۔

بعد ازاں سنہ 2007 میں انھیں ملک کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز پدم وبھوشن سے بھی نوازا گیا۔

تنقید کرنے والوں کی کبھی پرواہ نہیں کی

Khushwant Singh often received guests in this room of his house in Delhi.

،تصویر کا ذریعہGetty Images

راہل سنگھ کا کہنا ہے کہ اُن کے والد نے اپنی زندگی اپنے خیالات اور فلسفے کے مطابق گزاری اور کبھی تنقید کی پرواہ نہیں کی۔

ہرپال سنگھ پنوں کہتے ہیں کہ ’جس سطح کا کام خشونت سنگھ نے کیا ہے، اس کی تعریف ہی کی جا سکتی ہے۔ زیادہ تر لوگ ان کی تحریروں پر تبصرہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔‘

پنجابی مصنف گلزار سندھو خشونت سنگھ کے ناقدین کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’خشونت سنگھ کی زیادہ تر کہانیوں کو پڑھ کر غصہ آتا ہے لیکن اس سے متاثر ہونے کا احساس بھی ہوتا ہے۔‘

’جو لوگ ان کی تحریروں کو ناپسند کرتے ہیں وہ اسے چپکے سے پڑھتے ضرور ہیں۔‘

Khushwant Singh also expressed his views on the issue of death and salvation.

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’موت سے قبل خشونت سنگھ پاکستان، انڈیا کے تعلقات میں بہتری کے خواہاں تھے‘

خشونت سنگھ نے اپنی یادگاری تختی پر کندہ کیے جانے والی تحریر بھی خود لکھی تھی۔

انھوں نے لکھا کہ ’یہ وہ شخص ہے جس نے نہ انسانوں کو چھوڑا اور نہ ہی خدا کو۔ اس پر اپنے آنسو مت ضائع کرو۔ اس نے بکواس لکھی جسے وہ مضحکہ خیز سمجھتا تھا۔‘

خشونت سنگھ نے اپنی کتاب ’ڈیتھ ایٹ مائی ڈورسٹیپ‘ میں لکھا ہے کہ ’میں موت کو حتمی سچائی سمجھتا ہوں۔‘

’میری عمر 90 سال سے زیادہ ہو گئی ہے اور میں جانتا ہوں کہ میرا موت سے ملاپ کا وقت قریب آ رہا ہے۔ میں نے اس بارے میں بہت سوچا ہے۔‘

’ایک عقلیت پسند ہونے کے ناطے، میں زندگی، موت اور اگلے جنم کے نظریے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں کہ جب تک ہم نروان حاصل نہیں کر لیتے اور خدا سے ملاپ نہیں ہو جاتا ہم بار بار جنم لینے کے ایک نہ ختم ہونے والے عمل سے گزرتے رہتے ہیں۔‘

’میں کبھی بھی اس عقیدے کا حامی نہیں رہا کہ مرنے والوں کے بارے میں کچھ بُرا نہیں کہنا چاہیے۔ خراج عقیدت منصفانہ اور سچا ہونا چاہیے۔‘

ہرپال سنگھ پنوں نے اپنے ایک مضمون میں خوشاب کے ہڈالی گاؤں میں پیدا ہونے والے خشونت سنگھ کی موت کے حوالے سے اُردو کے مشہور شاعر بلراج کومل کا حوالہ دیا ہے۔

بلراج کومل نے کہا، ’وہ سانچے جن میں خشونت سنگھ جیسی شخصیتوں کو ڈھالا گیا تھا وہ ٹوٹ چکے ہیں۔‘

راہل سنگھ نے اپنے والد کی موت کے بعد کہا تھا کہ ’میرے والد نے بھرپور زندگی گزاری، انھوں نے وہ سب کچھ حاصل کیا جس کا وہ تصور کر سکتے تھے۔ اپنی موت سے پہلے وہ صرف انڈیا اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات دیکھنا چاہتے تھے۔‘

SOURCE : BBC