SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, عماد خالق، انشول سنگھ
- عہدہ, بی بی سی
-
35 منٹ قبل
پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران جس وقت دونوں جانب سے تنازع اپنے عروج پر تھا تو ایسے وقت میں چینی سٹاک مارکیٹ میں چینی دفاعی کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں تیزی دیکھنے میں آ رہی تھی۔
خاص طور پر ان کمپنیوں کے شیئرز میں اضافہ ہوا جو پاکستان کو ہتھیار اور لڑاکا طیارے فراہم کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک جے 10 سی لڑاکا طیارہ بنانے والی کمپنی ’ایوک چنگڈو ایئر کرافٹ کارپوریشن’ ہے۔
سی این بی سی کی آٹھ مئی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہانگ کانگ میں لسٹڈ جے 10 سی طیارے بنانے والی کمپنی ’چنگڈو‘ کے شیئرز کی قدر چھ فیصد جبکہ شینزین میں 16 فیصد تک بڑھی، اور یہ اس کمپنی کے شیئرز کی قدر میں گذشتہ سال اکتوبر کے بعد سب سے بڑا اضافہ تھا۔
یاد رہے کہ آٹھ مئی وہی دن تھا جب پاکستانی حکام نے انڈیا کے آپریشن سندور کے جواب میں رفال سمیت متعدد انڈین طیارے گرانے کا دعویٰ کیا تھا۔
پاکستان کی جانب سے یہ دعویٰ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے پارلیمان میں کیا تھا اور کہا تھا کہ ’انڈیا کے فرانسیسی ساختہ رفال طیارے کو مار گرانے کے لیے چین کے جے 10 سی لڑاکا طیارہ استعمال کیے گئے۔‘ یاد رہے کہ انڈیا نے تاحال اپنے طیاروں کے مار گرائے جانے کے پاکستانی دعوؤں کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔
ماہرین کے مطابق چین بھلے ہی اس کی تردید کرے لیکن انڈیا اور پاکستان کے تنازع کے دوران وہ اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہو گا کہ اس کشیدگی کے دوران اِس کے تیار کردہ ہتھیاروں نے (انڈیا کو دستیاب) مغربی ہتھیاروں کے خلاف کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
بلومبرگ انٹیلیجنس کے دفاعی تجزیہ کار ایرک ژو کا کہنا ہے کہ ’چین میں مقامی طور پر تیار کیے گئے زیادہ تر جدید ترین چینی ہتھیاروں کا ابھی تک جنگی تجربہ نہیں کیا گیا۔ پاکستان اپنے زیادہ تر ہتھیار چین سے خرید رہا ہے، اس لیے ان کا جنگ میں استعمال اور تجربہ چین کے ہتھیاروں کی برآمد کو بڑھانے کا ایک موقع ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
ہتھیاروں کی خریداری میں پاکستان کا چین پر کتنا انحصار ہے؟
چین نے گذشتہ چار دہائیوں میں کوئی بڑی جنگ نہیں لڑی۔ لیکن اس دوران چین نے اپنی فوج کو مضبوط بنانے اور جدید ترین ہتھیار تیار کرنے میں کوئی کسر بھی نہیں چھوڑی۔
چین نے اپنے تیار کردہ بہت سے ہتھیار پاکستان کو بھی فراہم کیے ہیں۔ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) کے اعداد و شمار کے مطابق چین نے گذشتہ پانچ برسوں (2020-24) میں پاکستان کے درآمد شدہ ہتھیاروں کا 81 فیصد فراہم کیا ہے۔ (یعنی پاکستان نے اس دورانیے میں جتنے ہتھیار درآمد کیے ہیں ان میں سے 81 فیصد چین سے خریدے گئے ہیں)
سپری کے مطابق پاکستان نے سنہ 2015 سے 2019 اور 2020 سے 2024 تک ہتھیاروں کی درآمد میں 61 فیصد اضافہ کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان نے چین سے جو ہتھیار حاصل کیے ہیں ان میں جدید لڑاکا طیارے، میزائل، ریڈار اور فضائی دفاعی نظام شامل ہیں۔ پاکستان میں مقامی طور پر تیار کیے جانے والے کچھ ہتھیاروں میں بھی چین کا کردار ہے، یہ یا تو چینی کمپنیوں نے تیار کیے ہیں یا پھر ان میں چینی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اگر ہم انڈیا کی بات کریں تو انڈیا دنیا میں اسلحہ درآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ تاہم سپری کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2015 سے 2019 تک اور 2020 سے 2024 کے درمیان اس کی ہتھیاروں کی درآمد میں 9.3 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔
پچھلے پانچ سالوں میں انڈیا نے سب سے زیادہ ہتھیار (36 فیصد) روس سے درآمد کیے ہیں، جو کہ سنہ 2015 سے 2019 کے درمیان (55 فیصد) اور 2010 سے 2014 کے درمیان کی گئی ہتھیاروں کی (72 فیصد) درآمدات کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
اسی طرح فرانسیسی ہتھیاروں کی برآمدات میں اب تک کا سب سے بڑا حصہ (یعنی 28 فیصد) انڈیا کو ملا ہے۔
سیپری کے آرمز ٹرانسفر پروگرام کے سینیئر محقق سیمن ویزمین کہتے ہیں کہ ’ایشیا اور اوشیانا 2020 سے 2024 کے دوران ہتھیار درآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا خطہ رہا ہے، اور یہ 1990 کی دہائی کے اوائل سے تقریباً ہمیشہ ہی ہوتا آیا ہے۔’
اُن کا کہنا تھا کہ ان خطوں میں ’زیادہ تر ہتھیاروں کی خریداری چین سے خطرے کے پیش نظر کی جاتی ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان کے پاس موجود چینی ہتھیار

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
پاکستان اور چین کے درمیان دفاعی تعاون سنہ 1965 کی پاکستان انڈیا جنگ کے بعد شروع ہوا تھا، جب امریکی ہتھیاروں پر پابندیوں نے پاکستان کو چین کی طرف دھکیل دیا تھا۔
چین نے طویل مدتی عسکری و سفارتی تعلقات کی بنیاد رکھتے ہوئے پاکستان کو لڑاکا طیارے، ٹینک اور توپ خانہ فراہم کیا۔ یہ شراکت داری سرد جنگ کے بعد مزید وسیع ہو گئی، جب پاکستان نے امریکہ کی جگہ چین کو اپنے عسکری ہتھیاروں کا بنیادی سپلائر بنا لیا۔
چین اور پاکستان نے سنہ 1963 میں اُس معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت سرحدی تنازعات کو حل کیا گیا اور سنہ 1966 میں چین کی جانب سے پاکستان کی عسکری مدد کا آغاز ہوا۔ اور آج پاکستان کے پاس بڑی تعداد میں چینی ہتھیار موجود ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
لڑاکا طیارے:
میزائل:
12 مئی کو انڈین فوج نے اپنی پریس کانفرنس میں ممکنہ طور پر پی ایل 15 میزائل کا ملبہ دکھایا تھا۔ انڈین فوج کا دعویٰ ہے کہ اس میزائل کو اپنے ہدف کو نشانہ بنانے سے پہلے ہی کامیابی سے مار گرایا گیا تھا۔
پی ایل 15 ایک چینی ساختہ میزائل ہے۔ ایوی ایشن انڈسٹری کارپوریشن آف چائنا (اے وی آئی سی) کی طرف سے تیار کردہ پی ایل 15 ریڈار گائیڈڈ فضا سے فضا میں طویل فاصلے تک مار کرنے والا میزائل ہے۔ خیال رہے کہ 2022 میں جے 10 سی طیاروں کی پاکستانی فضائیہ میں شمولت کے موقع پر ایئر چیف ظہیر احمد بابر نے کہا تھا کہ یہ طیارے پی ایل 15 میزائلوں سے لیس ہیں۔
ڈرونز:
دفاعی شعبے میں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے پاکستان نے چین اور ترکی سے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ڈرونز خریدے ہیں۔ ان میں چین سے حاصل کردہ ڈرونز شامل ہیں۔
ایئر ڈیفنس سسٹم:
پاکستان کے پاس چینی ساختہ ایچ کیو نائن، ایل وائے 80 اور ایف این 6 جیسے فضائی دفاعی نظام موجود ہیں۔ ان میں سے ایچ کیو نائن کو پاکستان نے سنہ 2021 میں اپنے عسکری ہتھیاروں میں شامل کیا تھا۔ اس فضائی دفاعی نظام کو روس کے ایس 300 میزائل ڈیفنس سسٹم کے ہم پلہ سمجھا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان چین کی مدد سے ہنگور کلاس کی آٹھ آبدوزیں بھی حاصل کر رہا ہے جن میں سے چار پاکستان میں ہی تیار کی جائیں گی۔
یہ ایک نسبتاً ہلکا (46 ٹن وزنی) ٹینک ہے، اس کے مقابلے میں جرمن ساختہ ’لیپرڈ ٹو‘ اور امریکی ساختہ ’ایم ون ابرامز‘ ٹینکوں کا وزن 60 ٹن ہے۔
اسے ابتدائی طور پر 1200 ہارس پاور اور 70 کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار کی حد تک دوڑنے کی صلاحیت کے حامل یوکرین کے ’سکس ٹی ڈی ٹو ٹیکنس‘ میں استعمال ہونے والے ٹھنڈے مائع ڈیزل انجن کے ساتھ مقامی طورپر تیار کیا گیا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
کیا مستقبل میں پاکستان کا چینی ہتھیاروں پر انحصار مزید بڑھے گا؟
ماہرین کے مطابق حالیہ کشیدگی کے دوران پاکستان کی جانب سے چینی ہتھیاروں کے استعمال کی خبروں اور ان کے نتیجے میں انڈین فوج کو پہنچائے جانے والے نقصان کے دعوؤں نے ممکنہ طور پر عالمی منڈی میں بھی چینی ساختہ عسکری سازو سامان میں دلچسپی پیدا کی ہے۔
مگر کیا انڈیا کے ساتھ حالیہ جھڑپ کے بعد پاکستان کا چینی ہتھیاروں پر انحصار مزید بڑھے گا؟
ماضی میں امریکی محکمہ دفاع اور وائٹ ہاؤس میں متعدد عہدوں پر فائز رہنے والے جونز ہوپکنز سکول آف ایڈوانسڈ انٹرنیشنل سٹدیز سے منسلک پروفیسر جوشوا ٹی وائٹ نے بی بی سی اُردو کے روحان احمد کو بتایا کہ ’امکان یہی ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ بحران پاکستان اور چین کے تعلقات کو مزید گہرا کرے گا اور پاکستان کا بطور ڈیفنس سپلائر چین پر انحصار بڑھے گا۔‘
پروفیسر جوشوا چینی دفاعی ساز و سامان کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ابتدائی اشارے یہی ملے ہیں کہ چینی ساختہ طیاروں اور ہوا سے ہوا میں مار کرنے والے میزائلوں نے انڈیا کے خلاف اچھی کارکردگی دکھائی ہے لیکن اِسی دوران چین کے ایچ کیو نائن ڈیفنس سسٹم کے مؤثر ہونے پر سوالات بھی اُٹھ رہے ہیں۔‘
تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’جب تک یہ معلوم نہیں ہوتا کہ بین الاقوامی سرحد کی دونوں اطراف عسکری ٹکراؤ کا کیا نتیجہ نکلا ہے تب تک کسی بھی قسم کے ہتھیار کے مؤثر یا غیر مؤثر ہونے کے حوالے سے کوئی بھی بات یقین سے نہیں کی جا سکتی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اس کے علاوہ کسی بھی دفاعی سسٹم کے موثر ہونے کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ اس کا استعمال کس طرح سے کیا جاتا ہے: کمانڈرز نے رولز آف انگیجمنٹ کیا بنائے ہیں اور ان کو استعمال کرنے والے اہلکاروں کو تربیت کیسے دی گئی ہیں۔‘
اسی بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق ایئر وائس مارشل اسد اکرام کہتے ہیں کہ یقیناً پاکستان اور چین کے درمیان دفاعی تعاون مزید بڑھے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ’پاکستان چینی وار فیئر سے مانوس ہو چکا ہے اور اس سے متعلق ہمیں زیادہ آگاہی اور تربیت بھی باآسانی دستیاب ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
سابق ایئر وائس مارشل کا کہنا ہے کہ ’جے 10 سی ہو یا جے ایف 17 تھنڈر یہ چینی ساختہ جہاز ہیں تو اُن میں چینی ساختہ ہتھیار یعنی میزائل وغیرہ ہی زیادہ بہتر طور پر کام کریں گے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اگر موجودہ منظر نامے کو دیکھا جائے تو اس بات کا امکان ہے کہ پاکستان مستقبل میں چین کے ساتھ مل کر ان سسٹمز کو زیادہ جدید اور بہتر بنانے پر کام کر رہا ہو گا۔ ’یقیناً اس جھڑپ کے بعد دونوں ملکوں کی مسلح افواج اپنے اپنے ہتھیاروں اور سسٹمز، اُن کی خوبی و خامیوں کو دیکھ رہی ہوں گی۔ دونوں ممالک یہ بھی دیکھ رہے ہوں گے کہ مستقبل میں انھیں کیا نئے سسٹمز چاہییں، اور کس کو کیسے بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘
چینی ہتھیاروں کے مغربی ہتھیاروں کے مقابلے میں کم قیمت اور زیادہ مؤثر ہونے سے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جہاں چین کو اس تنازع میں یہ فائدہ پہنچا کہ اس کے ہتھیاروں کی کارکردگی سے متعلق بات ہو رہی ہیں وہیں یہ بھی اہم ہے کہ انھیں استعمال کون اور کیسے کر رہا تھا۔
چینی ہتھیاروں میں جہاں پی ایل 15 میزائل کا چرچا رہا وہیں عالمی مبصرین نے چینی ساختہ فضائی دفاعی نظام ایچ کیو نائن کی کارکردگی پر بھی تبصرے کیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس چین کے ساتھ ساتھ امریکی اور دیگر ممالک کے ہتھیار بھی موجود ہیں اور مستقبل میں پاکستان یہ بھی دیکھ رہا ہو گا کہ اسے کہاں سے کیا حاصل کر کے اپنی دفاعی قوت کو بڑھانا ہے۔
انڈین دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی بالواسطہ طور پر اس تنازع کو چین اور مغربی ممالک کے درمیان تصادم کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔
راہل بیدی کا کہنا ہےکہ ’اگرچہ پاکستان جنگ لڑ رہا تھا، یہ مغربی ممالک کے ہتھیاروں کے خلاف چین کے ہتھیاروں کو آزمانے کا وقت تھا۔ شاید یہ پہلا موقع ہے کہ جنگ کے دوران پی ایل 15 میزائل دیکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چین کے لڑاکا طیاروں کو فرانسیسی ساختہ رافیل سے بھی مقابلہ کرنا پڑا۔‘
SOURCE : BBC