SOURCE :- BBC NEWS
- مصنف, عمر دراز ننگیانہ
- عہدہ, بی بی سی اردو، لاہور
-
2 گھنٹے قبل
پاکستان کے جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان کی وفاقی حکومت کئی روز کی کوشش کے بعد پہلا مذاکراتی اجلاس پیر کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
حکومت کی طرف سے نامزد کردہ مذاکراتی کمیٹی کے تقریباً تمام اراکین اس اجلاس میں موجود تھے تاہم دوسری جانب پی ٹی آئی کی طرف سے صرف تین اراکین اجلاس میں شریک ہوئے۔ ان میں اسد قیصر، صاحبزادہ حامد رضا اور راجہ ناصر عباس شامل تھے۔
جو شریک نہیں ہوئے ان میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب، سلمان اکرم راجہ، حامد خان اور صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلٰی علی امین گنڈاپور شامل ہیں۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں اسد قیصر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’ان میں سے کچھ ممبران مقدمات میں پیشی، عدالتی مصروفیات اور ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے مذاکراتی اجلاس میں شامل نہیں ہو پائے۔‘
اعلامیے کے مطابق دونوں کمیٹیوں نے مذاکرات جاری رکھنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے آئندہ اجلاس دو جنوری کو بلانے پر اتفاق کیا ہے جس میں حزب اختلاف ’اپنے مطالبات تحریری صورت میں حکومت کو دے گی۔‘
اعلامیے کے مطابق اجلاس ’سازگار ماحول میں ہوا اور دونوں اطراف نے بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔‘
اجلاس کے بعد مقامی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر نے بتایا کہ انھوں نے حکومت سے جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان سے ان کی ملاقات کروانے میں سہولت دینے کا مطالبہ کیا جو تسلیم کر لیا گیا۔
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
انھوں نے بتایا کہ اجلاس میں ان کی طرف سے مطالبات واضح طور پر سامنے رکھے گئے جن میں سرِ فہرست ’عمران خان سمیت دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ ہے۔‘
ساتھ ہی انھوں نے حکومت سے نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر انکوائری کرانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
اسد قیصر نے کہا کہ یہ مذاکرات کا ابتدائی دور تھا جبکہ دو جنوری کے اجلاس سے مذاکرات کا باضابطہ آغاز ہو گا۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے بھی مذاکراتی اجلاس کے حوالے سے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی جماعت کے مطالبات واضح ہیں۔
اسد قیصر کی طرف سے سامنے آنے والے مطالبات کے علاوہ انھوں نے بتایا کہ ان کی جماعت کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ حکومت ان کے انتخابی مینڈیٹ کو تسلیم کرے اور نئے انتخابات ہونے چاہئیں۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف ممکنہ سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کر رکھا ہے ’جسے سابق وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر وقتی طور پر موخر کر رکھا ہے اور اس کی نئی تاریخ کا اعلان ابھی نہیں کیا گیا۔‘
دوسری جانت وفاقی حکومت کے بعض اراکین پہلے ہی سے خبردار کر چکے ہیں کہ پی ٹی آئی سول نافرمانی کی تحریک کی ’دھمکی کو استعمال کر کے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہتی ہے جس کی وجہ سے کسی قسم کے مذاکرات کا سازگار ہونا مشکل ہو گا۔‘
تاہم سوال یہ ہے کہ کیا ایسے ماحول میں کیا حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات زیادہ آگے بڑھ پائیں گے۔ کیا حکومت پی ٹی آئی کے ان مطالبات پر اپوزیشن کو کوئی ضمانت دینے کی پوزیشن میں ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پی ٹی آئی کو اس وقت حکومت سے بات چیت کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے؟
اس وقت ہی بات چیت کیوں؟
سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان کے خیال میں سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت کافی مرتبہ احتجاج اور مظاہرے کرنے کا حربہ آزما چکی ہے جس میں اسے زیادہ کامیابی نہیں ملی۔
’اس طرح سٹریٹ ایجیٹیشن سے جو وہ حاصل کرنا چاہتے تھے وہ نہیں ہو پایا، وہ حکومت پر غالب نہیں ہو پائے۔ اس لیے وہ اب اپنی حکمتِ عملی کو ریویو کر رہے ہیں۔‘
حسن عسکری رضوی سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے اندر اور باہر بھی بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کی قیادت کو کافی عرصہ سے مذاکرات کا آپشن آزمانے کا مشورہ دے رہے تھے۔
’عوامی طاقت کے ذریعے مطالبات منوانے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے‘
صحافی اور تجزیہ نگار ماجد نظامی بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کو اس وقت مذاکرات کی میز پر لانے میں بڑا کردار اس امر کا ہے کہ بار بار کے احتجاج اور مظاہروں کے بعد اب ’عوامی طاقت کے ذریعے مطالبات منوانے کی ان کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔‘
تاہم سوال یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی کو ایسا محسوس ہو رہا تھا تو اس نے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیوں کر رکھا ہے۔
تجزیہ نگار ماجد نظامی کہتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں سول نافرمانی جیسی تحریک کے لیے گنجائش خاصی کم ہے۔
’پی ٹی آئی اس کو دباؤ کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ ایسی کوئی بھی تحریک شروع کرنے یا کرنے کے بعد بھی مذاکرات جاری رہیں گے۔‘
وہ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی سول نافرمانی تحریک کو بارگیننگ چپ کے طور پر استعمال کرے گی۔
حکومت پی ٹی آئی کے مطالبات پر کیا آفر کر سکتی ہے؟
تجزیہ نگار حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ حکومت کبھی بھی پہلی بار ہی میں پی ٹی آئی کے اس قدر زیادہ مطالبات تسلیم نہیں کرے گی۔
’وہ چاہیں گے کہ پی ٹی آئی پہلے اپنے مطالبات سامنے لائے اور پھر ان میں سے چند پر سمجھوتہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔‘
صحافی اور تجزیہ نگار ماجد نظامی کہتے ہیں کہ پہلے ہی مرحلے میں بھاری بھر کم مطالبات کو پورا کیا جائے ایسا ممکن نہیں ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ دونوں پارٹیوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ سازگار ماحول بنانے کے لیے چھوٹے چھوٹے مطالبات سے شروع کیا جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’عمران خان کی رہائی مذاکرات کا آخری مرحلہ تو ہو سکتا ہے، پہلا نہیں ہو سکتا۔‘ ماجد نظامی کے خیال میں پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس بات کا احساس ہے۔
ان کے خیال میں اگر اعتماد کا ماحول چل نکلتا ہے تو وہ حکومت کے ساتھ مزید مقدمات نہ بنانے، سیاسی گرفتاریوں میں کمی کرنے یا ختم کرنے اور پراسیکیوشن کی طرف سے نرمی دکھانے جیسے معاملات پر غور کیا جا سکتا ہے۔
بدلے میں پی ٹی آئی حکومت کو کیا دے سکتی ہے؟
تجزیہ نگار ماجد نظامی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے پاس اس وقت جو دو بڑی بارگیننگ چپس ہیں وہ ان ہی پر حکومت سے بات چیت میں اپنی طرف سے آفر کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔
’وہ حکومت کو پر امن سیاسی ماحول اور بیرون ملک حکومت مخالف سرگرمیوں میں کمی یا ان کو ختم کرنے جیسی چیزیں آفر کر سکتی ہے۔‘
تاہم تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں حکومت پی ٹی آئی سے بہت سے اقدامات چاہے گی جس میں یہ بھی شامل ہو سکتا ہے کہ سب سے پہلے پی ٹی آئی انتخابات کو تسلیم کرے۔
’وہ پی ٹی آئی سے چاہیں گے کہ ان کی حکومت کو جائز حکومت تسلیم کیا جائے اور ان ہی انتخابات کو تسلیم کر کے معملات کو آگے بڑھایا جائے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ حکومت پی ٹی آئی کو یہ بھی کہے گی کہ نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کے حوالے سے مقدمات کا پی ٹی آئی کو عدالتوں میں سامنا کرنا ہو گا۔
ان کے خیال میں حکومت اپنے مطالبات میں پی ٹی آئی کے سامنے یہ شرط بھی رکھے گی کہ وہ بار بار احتجاج اور دھرنوں کی سیاست کو ختم کرے گی۔
تاہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا پی ٹی آئی ان تمام نکات اور ان جیسے دیگر معاملات پر صرف حکومت کی گارنٹیوں کو تسلیم کر پائے گی۔
پی ٹی آئی کے رہنما کئی مرتبہ اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ ’وہ اصل طاقت رکھنے والوں سے مذاکرات کرنا چاہیں گے۔‘ ان کا اشارہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہوتا ہے۔
’اسٹیبلشمنٹ کے آشیرباد کے بغیر کوئی فیصلہ ممکن نہیں ہو گا‘
تجزیہ نگار حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حکومت پی ٹی آئی کے کسی بھی مطالبے پر فیصلہ کرنے سے پہلے چاہے گی کہ اس میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مرضی شامل ہو۔
’اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد کے بغیر کسی بھی مطالبے پر حکومت کے لیے اپنے طور پر فیصلہ کرنا ممکن نہیں ہو گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ جہاں بھی 26 نومبر کا ذکر آتا ہے تو حکومت نو مئی کا ذکر ضرور لے آتی ہے۔ وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو آن بورڈ رکھے گی۔
تجزیہ نگار مجید نظامی بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دونوں اطراف اس بات کا احساس موجود ہے۔ ’ان دونوں کو سو فیصد یقین ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر آگے نہیں بڑھا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کو ساتھ رکھا گیا ہے۔‘
ماجد نظامی سمجھتے ہیں کہ اداروں سے فیڈ بیک لے کر ہی معاملات کو آگے چلایا جائے گا۔
ایسے مذاکرات کا مستقبل کیا ہو گا؟
صحافی اور تجزیہ نگار ماجد نظامی کہتے ہیں کہ پاکستان کی غیر یقینی سیاسی صورتحال اور ماضی میں اس قسم کی صورتحال وغیرہ کو دیکھتے ہوئے ’مذاکرات کے مستقبل کے حوالے سے کسی بھی قسم کی پشین گوئی کرنا ممکن نہیں ہے۔‘
تاہم تجزیہ نگار حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ پاکستان میں موجودہ سیاسی ماحول کو دیکھتے ہوئے مذاکرات کا مستقبل کافی غیر یقینی نظر آتا ہے۔
’ناکامی کے امکانات کامیابی سے زیادہ نظر آتے ہیں۔ اگر موجودہ سیاسی قیادت کی طرف دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بھی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔‘
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ اگر دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو اس سے پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام آنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
SOURCE : BBC