SOURCE :- BBC NEWS

خالد شیخ محمد

،تصویر کا ذریعہPhoto courtesy of Khalid Sheikh Mohammed’s legal team

  • مصنف, ایلس کیڈی
  • عہدہ, بی بی سی، گوانتاناموبے
  • 51 منٹ قبل

امریکی حکومت نائن الیون کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کے اعتراف جرم کی کارروائی کو وقتی طور پر روکنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔

گذشتہ برس موسم گرما میں خالد شیخ محمد اور دو دیگر ملزمان نے امریکی حکومت سے ایک معاہدے کے تحت اپنے اوپر عائد کردہ الزامات کا اعتراف کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس معاہدے کے باعث شاید یہ مبینہ ماسٹر مائنڈ سزائے موت سے بچ جاتے اور اس کے بجائے انھیں عمرقید کی سزا سُنا دی جاتی۔

تاہم اب عدالت میں دائر کی گئی ایک درخواست میں امریکی حکومت نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ اگر ان ملزمان کی درخواستیں (پری ٹرائل معاہدے کے تحت دائر کردہ درخواستیں) منظور کر لی گئیں تو اس سے ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔

تین ججز پر مشتمل پینل نے کہا کہ انھیں اس کیس پر غور کرنے اور کارروائی کو روکنے کے لیے مزید وقت درکار ہے تاہم انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس تاخیر کو ’کسی بھی صورت مقدمے کی اہلیت کے حوالے سے فیصلہ تصور نہ کیا جائے۔‘

یاد رہے کہ یہ ایسے وقت میں ہوا ہے، جب کچھ روز قبل ہی ایک فوجی جج اور اپیل پینل نے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کی جانب سے خالد شیخ محمد اور دو دیگر ملزمان کے لیے طے کی گئیں ڈیلز کو منسوخ کرنے کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔

سنہ 2001 میں القاعدہ کے حملوں میں نیویارک، ورجینیا اور پنسلوانیا میں تقریباً 3000 افراد مارے گئے تھے۔ ان حملوں نے امریکہ کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو جنم دیا تھا۔

ان حملوں کے بعد سے خالد شیخ محمد، ولید محمد صالح مبارک بن عطاش اور مصطفی احمد آدم الہوساوی تقریباً 20 برس سے کیوبا میں امریکی بحریہ کے اڈے گوانتاناموبے میں حراست میں ہیں۔

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

ان تینوں پر امریکی شہریوں پر حملے، جنگی قوانین کی خلاف ورزی، ہائی جیکنگ اور دہشت گردی سمیت متعدد الزامات عائد ہیں۔

خالد شیخ محمد کو نائن الیون حملون کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے۔ ان حملوں میں ہائی جیکرز نے مسافر بردار طیاروں کو ہائی جیک کر کے ان میں سے دو طیاروں کو نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر جبکہ تیسرے جہاز کو پینٹاگون سے ٹکرا دیا تھا۔ ہائی جیک کیا جانے والا چوتھا طیارہ مسافروں کی جانب سے مزاحمت کے بعد پینسلوینیا کے ایک کھیت میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔

امریکہ سے تعلیم یافتہ خالد شیخ محمد کو مصطفی الحوساوی کے ہمراہ مارچ 2003 میں پاکستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔

استغاثہ کے مطابق خالد شیخ محمد نے ہی طیاروں کو ہائی جیک کر کے انھیں امریکی عمارتوں سے ٹکرانے کا منصوبہ القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو پیش کیا تھا۔ ان پر ہائی جیکروں کو بھرتی کرنے اور ان کی تربیت میں مدد دینے کا بھی الزام ہے۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق ملزمان کے ساتھ معاہدے کا پہلی دفعہ ذکر پراسیکیوٹرز یعنی استغاثہ کی جانب سے نائن الیون حملوں کے متاثرین کے خاندانوں کو بھیجے گئے خط میں کیا گیا تھا۔

چیف پراسیکیوٹر ریئر ایڈمرل ایرون رَگ نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ ’سزائے موت کو ممکنہ سزا کے طور پر ہٹانے کے بدلے میں تینوں ملزمان نے چارج شیٹ میں درج 2,976 افراد کے قتل سمیت تمام الزامات کا اعتراف کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔‘

خالد شیخ محمد

،تصویر کا ذریعہGetty Images

خالد شیخ محمد، ولید محمد صالح مبارک بن عطاش اور مصطفی احمد آدم الہوساوی گوانتاناموبے میں برسوں سے بغیر کسی مقدمے کے قید ہیں۔

نائن الیون حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین ان ملزمان کے ساتھ معاہدوں میں نرمی یا شفافیت کی کمی پر تنقید کرتے ہیں جبکہ کچھ متاثرہ خاندان ایسے بھی ہیں جن کے مطابق یہ ایک پیچیدہ اور طویل عرصے سے چلنے والے کیس کو آگے بڑھانے کا ایک طریقہ ہے۔

وہ لوگ جو کیوبا میں امریکی بحریہ کے اڈے گوانتاناموبے خالد شیخ محمد کے اعتراف جرم کی کارروائی دیکھنے کے لیے گئے تھے، جب انھوں نے اس میں تاخیر کی خبر سنی تو انھوں نے صحافیوں سے بات کی۔

ٹوم ریسٹا کے بھائی اور حاملہ بھابھی نائن الیون حملوں میں مارے گئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’امریکی حکومت نے ایک بار پھر نائن الیون کے متاثرہ خاندانوں کو مایوس کیا۔ انھیں صحیح چیز کرنے کا موقع ملا تھا لیکن انھوں نے ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

خالد شیخ محمد کون ہیں؟

خالد شیخ محمد 14 اپریل 1965 کو کویت میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد مقامی مسجد کے پیش امام تھے اور اُن کا تعلق پاکستان سے تھا۔

خالد نے 16 سال کی عمر میں اسلامی تنظیم ’اخوان المسلمون‘ کی رکنیت حاصل کی تھی۔

سنہ 1983 میں سیکنڈری سکول کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکہ چلے گئے جہاں انھوں نے ’نارتھ کیرولائنا ٹیکنیکل یونیورسٹی‘ میں داخلہ لیا اور وہاں میکینیکل انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ یہاں اُن کی ملاقات عرب طلبا کا ایک گروپ سے ہوئی جو یہاں پہلے سے ہی زیرِ تعلیم تھے۔

اس گروپ کے افراد کی مذہبی معاملات میں دلچسپی کے باعث انھیں یونیورسٹی کے باقی طلبا ’ملاز‘ کہتے تھے۔ دسمبر 1986 میں خالد نے مکینیکل انجینیئرنگ کی ڈگری مکمل کر لی مگر اس دوران وہ شدت پسندی سے متعلقہ معاملات میں کافی آگے جا چکے تھے۔

سنہ 1987 میں خالد شیخ محمد اسامہ بن لادن کے ساتھ ملے اور افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف ’جنگِ جاجی‘ میں شریک ہوئے۔

نائن الیون حملوں کے سہولت کار اور سنہ 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹرز کو پر حملہ کرنے والے رمزی یوسف بھی خالد شیخ محمد کے بھتیجے تھے۔ رمزی یوسف نے سنہ 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹرز کو تباہ کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ اگرچہ رمزی کا مشن ناکام ہوا لیکن اس کا شدت پسندوں کی اُس وقت کی اُبھرتی ہوئی نسل پر گہرا اثر پڑا تھا۔

ٹام میک ملن اپنی کتاب ’فلائٹ 93: دی سٹوری آف دی آفٹرمیتھ اینڈ دی لیگیسی آف امریکن کریج آن 9/11‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر 1993 کے حملے نے انتہا پسندوں کو یہ سمجھنے میں مدد دی تھی کہ امریکی سرزمین پر حملہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی۔‘

افغانستان میں تربیتی کیمپ میں اپنے تجربے اور رابطوں کی بدولت رمزی یوسف جعلی پاسپورٹ کے ذریعے امریکہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے جس کے بعد انھوں نے اپنے ساتھیوں کی ایک ٹیم بنائی تھی اور بموں سے لدی کرائے کی وین ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے نارتھ ٹاور کے گیراج میں بھجوا دی۔

اس دھماکے میں چھ افراد ہلاک اور کئی سو زخمی ہوئے تھے۔ عمارت کو اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا یوسف نے سوچا تھا لیکن وہ امریکہ کے سب سے بڑے شہر کی سڑکوں پر دہشت پھیلانے میں کامیاب رہے تھے۔

یہیں سے دنیا میں انتہا پسندی کا ایک نیا دور شروع ہوا تھا اور اس دوران رمزی یوسف امریکہ سے فرار ہو کر پاکستان پہنچنے میں کامیاب رہے تھے۔

ولید محمد بن عطاش

ولید محمد بن عطاش

،تصویر کا ذریعہInternational Committee of the Red Cross

ولید محمد صالح مبارک بن عطاش بھی القاعدہ کے اہم رکن ہیں اور ان پر بھی نائن الیون کے حملے کے الزامات کے ساتھ ساتھ پر دہشت گردی کی سازش، شہریوں پر حملہ کرنے، جنگی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قتل اور املاک کو تباہ کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی ویب سائٹ کے مطابق وہ ایک یمنی شہری ہیں اور ان پر ہائی جیکنگ، دہشت گردی کرنے اور اس کی مالی معاونت کرنے کے الزامات ہیں۔ امریکی حکومت نے چار دیگر افراد سمیت ولید بن عطاش پر 11 ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد میں براہ راست ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔

بن عطاش پر خاص طور پر الزام ہے کہ اسامہ بن لادن نے انھیں امریکی ویزا حاصل کرنے کی ہدایت کی تھی تاکہ وہ امریکہ کا سفر کر سکیں اور پائلٹ کی تربیت حاصل کر سکیں تاکہ وہ بالآخر ہائی جیکنگ میں حصہ لے سکیں۔

ان پر یہ بھی الزام ہے کہ اس نے 1999 میں امریکی ویزے کے لیے درخواست دی تھی لیکن اسے مسترد کر دیا گیا تھا، جس کے بعد حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے القاعدہ کے لیے تحقیق جاری رکھی اور نائن الیون کے ہائی جیکرز کے لیے سفر کی سہولت فراہم کی۔

اگرچہ ولید بن عطاش کو مبینہ طور پر اپریل 2003 میں گرفتار کر کے امریکی حراست میں منتقل کر دیا گیا تھا لیکن ستمبر 2006 تک اسے گوانتانامو منتقل نہیں کیا گیا تھا۔

مصطفیٰ احمد الہوساوی

مصطفیٰ احمد آدم الہوساوی ایک عرب شہری ہیں اور ان پر الزام ہے کہ انھوں نے امریکہ میں 11 ستمبر کے حملوں کے لیے ایک اہم مالی سہولت کار کے طور پر کام کیا۔

ہیومن رائٹس واچ کی ویب سائٹ کےمطابق امریکی حکومت کا دعویٰ ہے کہ مصطفیٰ الہوساوی نے نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے لیے فلائٹ سکولوں کی تحقیق میں مدد کی اور کئی ہائی جیکروں کے بینک اکاؤنٹس کا انتظام کیا۔

اگرچہ الہوساوی کو مبینہ طور پر مارچ 2003 میں پاکستان سے گرفتار کر کے امریکی حراست میں منتقل کر دیا گیا تھا، لیکن اسے ستمبر 2006 تک گوانتانامو منتقل نہیں کیا گیا تھا۔

SOURCE : BBC