SOURCE :- BBC NEWS
اپ کی ڈیوائس پر پلے بیک سپورٹ دستیاب نہیں

- مصنف, محمد کاظم
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ
-
ایک گھنٹہ قبل
بلوچستان کے ضلع خضدار میں بدھ کی صبح ایک سکول بس پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں چار بچوں سمیت چھ افراد کی ہلاکتیں ہوئی ہیں جبکہ کم از کم 42 بچے زخمی ہوئے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر خضدار یاسر اقبال دشتی نے فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دھماکہ خضدار شہر میں زیرو پوائنٹ کے مقام پر علی الصبح اس وقت ہوا جب بچوں کو سکول لے جانے والی بس شہر کے مختلف مقامات سے بچوں کو پِک کر رہی تھی۔
ان کے مطابق جب یہ بس زیرو پوائنٹ پر پہنچی تو اس کے قریب دھماکہ ہوا۔ ڈی سی خضدار کے مطابق ‘زخمیوں کو طبی امداد کی فراہمی کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا۔’
خضدار تھانے کے ایس ایچ او نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘جس بس کو نشانہ بنایا گیا وہ خضدار کینٹ میں واقع سکول کے بچوں کو لے جا رہی تھی۔’
ان کا کہنا تھا کہ دھماکے میں بس مکمل طور پر تباہ ہو گئی جبکہ بس کے قریب ایک چھوٹی گاڑی بھی تباہ شدہ حالت میں موجود تھی۔
جائے وقوع پر موجود ایک پولیس اہلکار نے بی بی سی کے عثمان زاہد کو بتایا کہ جس مقام پر دھماکہ ہوا وہ خضدار شہر سے نو سے 10 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔
پولیس حکام کے مطابق ‘ایک چھوٹی گاڑی نے سکول بس کو ہٹ کیا جس میں بس مکمل تباہ ہو گئی۔ ہمیں جیسے ہی اطلاع ملی ہم جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔’
وزیر اعظم شہباز شریف اور پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ ‘انڈیا کے دہشتگرد نیٹ ورک نے بلوچستان میں اپنی پراکسی تنظیموں کے ذریعے یہ حملہ کروایا۔’
پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘خضدار میں بچوں کی سکول بس کو نشانہ بنایا جانا انڈین ریاستی دہشتگردی کا ایک اور بزدلانہ حملہ ہے۔’
انڈین وزارت خارجہ نے پاکستان کی جانب سے صوبہ بلوچستان کے علاقے خضدار میں سکول بس پر حملے میں انڈیا کے ملوث ہونے کے الزام کو مسترد کر دیا ہے۔
انڈین وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا ہے کہ ’انڈیا خضدار کے واقعے میں ملوث ہونے کے بارے میں پاکستان کی جانب سے لگائے گئے بے بنیاد الزامات کو مسترد کرتا ہے۔ انڈیا ایسے تمام واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتا ہے۔‘
انڈین وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی عادت بن چکی ہے کہ وہ اپنے تمام اندرونی مسائل کا الزام انڈیا پر عائد کرتا ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہAbdullah Shahwani
‘معصوم بچوں کو نشانہ بنایا جائے گا اس کی توقع نہیں تھی’
وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے بدھ کو کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ خضدار میں بچوں کی جس بس کو نشانہ بنایا گیا اس میں 46 بچے سوار تھے جس میں سے چار بچے ہلاک ہوئے ہیں جبکہ باقی زخمی ہیں۔
سرفراز بگٹی کے مطابق’جو بچے اس حملے میں شدید زخمی ہیں ان کو ایئر ایمبولینس کے ذریعے خضدار سے کوئٹہ علاج کے لیے منتقل کر دیا گیا ہے۔ جبکہ کم زخمی بچوں کا وہیں علاج کیا جا رہا ہے۔’
وزیر اعلی بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں اس طرح کے واقعے کی ٹھوسں انٹیلیجنس رپورٹس تھیں کہ انڈیا بلوچستان میں حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ تاہم معصوم بچوں کو نشانہ بنایا جائے گا اس کی توقع نہیں تھی۔’
انھوں نے کہا کہ دہشت گردوں نے معصوم بچوں کو وہیکل بورن آئی ڈی بلاسٹ (گاڑی میں نصب دھماکہ خیز مواد) سے حملہ کر کے نشانہ بنایا۔
وزیر اعلی بلوچستان سرفراز بگٹی نے حملے کا الزام انڈیا پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ انڈیا کی بزدلانہ سوچ ہے کہ وہ بچوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ دشمن سے اس قدر گرنے کی توقع نہیں تھی۔’
سرفراز بگٹی نے کہا کہ ‘افغان عبوری حکومت کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ اپ نے پوری دنیا کے سامنے وعدہ کیا تھا کہ آپ کی زمین کسی دہشت گردی کے حملے میں استعمال نہیں ہو گی لیکن آپ کی سرزمین سے بار بار ہم پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ ہم درخواست کرتے ہیں کہ آپ اپنا وعدہ پورا کریں گے اور اپنے وعدے کی پاسداری کریں گے۔’
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ ‘پچھلے سات آٹھ مہینوں سے اس قسم کے سافٹ ٹارگٹ کیے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی دہشت گردوں نے معصوم بچوں پر حملہ کیا تھا اور اس کا انجام بھی پھر سب نے دیکھا۔ ہم اس کا جواب دیں گے لیکن ہمارے نشانے پر بچے نہیں بلکہ دہشت گرد ہوں گے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ بچوں کا مقدس خون رائیگاں نہیں جائے گا اور چن چن کے اس حرکت کے مرتکب افراد کو ماریں گے۔ میرا وعدہ ہے کہ بلوچستان کا امن لوٹ آئے گا۔’

،تصویر کا ذریعہAbdullah Shahwani
امریکی ناظم الامور کی واقعے کی مذمت
پاکستان میں امریکی ناظم الامور نیٹلی بیکر نے خضدار میں بچوں سے بھری پر ہونے والے حملے کی شدید الفاظ میں مزمت کی ہے۔
امریکی ناظم الامور نیٹلی بیکر کی جانب سے خضدار میں بدھ کے روز ہونے والے حملے کے بعد جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘ہم خضدار، بلوچستان میں سکول بس پر بے رحمانہ اور سفاکانہ حملے کی مذمت میں پاکستان کے رہنماؤں کے ساتھ شامل ہیں۔’
بیان میں اُن کا مزید کہنا تھا کہ ‘معصوم بچوں کا قتل ناقابل فہم ہے۔ ہم اپنے پیاروں کو کھونے والے خاندانوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعاگو ہیں۔’
پاکستان میں امریکی ناظم الامور نیٹلی بیکر کی جانب سے جاری بیان میں کہنا ہے کہ ‘کسی بھی بچے کو سکول جاتے ہوئے خوف کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ ہم پاکستان میں اُن لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو اس تشدد کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں۔‘
خضدار کہاں واقع ہے؟

،تصویر کا ذریعہAbdullah Shahwani

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
خضدار شہر بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ سے تقریباً 350 کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب مغرب میں واقع ہے۔
کوئٹہ کراچی شاہراہ پر واقع اس شہر کا شمار کوئٹہ کے بعد بلوچستان کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے اور یہ قلات ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔
شہر سمیت ضلع خضدار کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہے۔ اس ضلع کا شمار بلوچستان کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جو کہ شورش سے متاثر ہیں۔ چند روز قبل ضلع کے علاقے صمند میں لیویز فورس کی ایک چیک پوسٹ پر ہونے والے حملے میں لیویز کے چار اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
اس سے قبل جنوری کے مہینے میں خضدار شہداد کوٹ روڈ پر ایک مسافر بس پر ہونے والے حملے میں ایک شخص ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہوئے تھے۔
رواں سال اس کے دو علاقوں زہری اور اورناچ میں مسلح افراد کی ایک بڑی تعداد آئی تھی اور وہ کئی گھنٹے تک وہاں موجود رہے تھے۔
ان مسلح افراد نے دونوں علاقوں سے پولیس اور لیویز فورس کے تھانوں سے اسلحہ بھی لے گئے تھے جبکہ بعض سرکاری دفاتر کو نذر آتش بھی کیا تھا۔
طویل عرصے سے خضدار شہر اور اس ضلع کے دیگر علاقوں میں سنگین بدامنی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں تاہم سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے ماضی کے مقابلے میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے۔
SOURCE : BBC