SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہPhilip Drury/ University of Sheffield
- مصنف, جوناتھن اوکلاگن
- عہدہ, صحافی
-
ایک گھنٹہ قبل
ماہرینِ فلکیات نے حال ہی میں کچھ عجیب و نایاب دھماکوں میں سے تقریباً درجن بھر دھماکوں کا مشاہدہ کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ان کے ذہن میں یہ سوالات کوند رہے ہیں کہ کیا یہ کسی خاص قسم کے بلیک ہول کی علامات ہو سکتے ہیں؟
ماہرینِ فلکیات نے پہلے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا تھا کہ دور خلا کی گہرائیوں میں کوئی بہت بڑی چیز دھماکے سے پھٹی ہو۔ زمین پر نصب دوربینوں نے سنہ 2018 میں پہلی بار ایک انتہائی روشن اور غیرمعمولی دھماکے کا مشاہدہ کیا جو کہ 20 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر پیش آیا تھا۔
یہ دھماکہ حیرت انگیز تیزی کے ساتھ انتہائی روشن نظر آیا، یہ روشنی اس قدر زیادہ تھی کہ کوئی عام ستارے کا دھماکہ یعنی سپرنووا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے بعد وہ غائب ہو گيا۔ اس دھماکے کو اس کے عجیب و غریب کوائف کے لیے ’اے ٹی 2018 کاؤ‘ کا نام دیا گيا لیکن پھر بعد میں اسے زیادہ سادہ نام ‘دی کاؤ’ یا گاؤ سے پکارا جانے لگا۔
اس روشن وقوعے کے بعد ماہرینِ فلکیات نے کائنات میں مزید کچھ اور ایسے ہی روشن دھماکوں کا مشاہدہ کیا۔ ان دھماکوں کو برائٹ فاسٹ بلیو آپٹیکل ٹرانزیئنٹس (ایل ایف بوٹس) کے طور پر بیان کیا گیا۔ ان سب دھماکوں میں ایک جیسی خصوصیات نظر آئیں۔
نیویارک کی کارنیل یونیورسٹی میں ماہر فلکیات اینا ہو کہتی ہیں کہ ’یہ سب انتہائی روشن ہیں یعنی ’ایل ایف بوٹ‘ کے یہ لومینس ہیں۔ یہ نیلے رنگ کے اس لیے ہیں کہ یہ انتہائی زیادہ درجہ حرارت کا نتیجہ ہیں جو کہ 40 ہزار ڈگری سینٹی گریڈ کے آس پاس ہیں اور اس کی وجہ سے روشن نیلے سپیکٹرم کی جانب دیکھے جاتے ہیں۔‘
اسے ’بوٹ‘ کے ’بی‘ یعنی بلیو یا نیلے سے تعبیر کیا گيا ہے۔ اسی طرح ’ایل ایف بوٹ‘ مخفف کا ’او‘ اور ’ٹی‘ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ دھماکے قابلِ دید (اوپٹیکل) اور عارضی (ٹرانزیئنٹ) ہوتے ہیں۔
ابتدا میں سائنسدانوں کا خیال تھا کہ یہ ایل ایف بوٹس شاید ناکام سپرنووا ہوں یعنی ایسے ستارے ہیں جو پھٹنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پھٹ کر باہر نکلنے کے بجائے پھٹ کر خود میں ہی سما جاتے ہیں اور ان کے مرکز میں بلیک ہول بن جاتا ہے جو ستارے کو اندر ہی اندر نگل لیتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہPerley et al

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
مگر اب ایک اور نظریہ مقبول ہو رہا ہےکہ یہ ’کاؤ فلیئرز‘ اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ایک خاص قسم کے درمیانے حجم کے بلیک ہول، جنھیں درمیانے درجے کے حجم کا بلیک ہول کہا جاتا ہے، کسی قریبی ستارے کو نگل لیتے ہیں۔
نومبر سنہ 2024 میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے نے اس نظریے کی حمایت میں شواہد فراہم کیے۔
لیورپول کی جان مورز یونیورسٹی میں ماہر فلکیات ڈینیئل پارلے کہتے ہیں کہ ’ماہرین کا عمومی رجحان اب اس نظریے کو قبول کرنے کی جانب مائل ہو رہا ہے۔‘
اگر یہ نظریہ درست ثابت ہوتا ہے تو یہ بلیک ہول کی ایک ایسی قسم کے وجود کے شواہد فراہم کر سکتا ہے جو اب تک صرف قیاس کی حد تک وجود رکھتا ہے۔ یہ وہ کڑی ہے جو کائنات کے سب سے چھوٹے بلیک ہولز کو سب سے بڑے بلیک ہولز اور ممکنہ طور پر ’ڈارک میٹر‘ کے سربستہ رازوں کے بارے میں بھی کچھ انکشاف کر سکتے ہیں۔
اصل کاؤ فلیئر دھماکے کو سب سے پہلے ایک روبوٹک سروے سسٹم نے سنہ 2018 میں دریافت کیا جو کہ زمین پر موجود دوربینوں کے ذریعے خلا کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اس سسٹم کا نام ایسٹرائیڈ ٹریسٹریل-امپیکٹ لاسٹ الرٹ سسٹم (ایٹلس) ہے۔
اس سسٹم نے اس دھماکے کو ایک ایسی کہکشاں میں ہوتے ہوئے دیکھا جو زمین سے تقریباً 20 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ دھماکہ عام سپرنووا سے 100 گنا زیادہ روشن تھا اور چند ہی دنوں میں ختم ہو گیا، حالانکہ عام سپرنووا ہفتوں یا مہینوں تک روشن رہتا ہے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف شیفیلڈ کے سائنسدانوں کے مطابق اس دھماکے کی ساخت بھی عجیب و غریب تھی اور نسبتاً چپٹی تھی۔
بہرحال پہلے مشاہدے کے بعد سے ماہرینِ فلکیات نے ایسے تقریباً درجن بھر دھماکوں کا سراغ لگایا ہے۔
ان میں سے بیشتر کو حیوانات سے متعلق عرفی نام دیے گئے ہیں اور یہ نام ان کو تلاش کرنے والے بے ترتیب انداز میں دیے جاتے ہیں۔ جیسے سنہ 2018 میں نظر آنے والے دھماکے کو ‘زیڈ ٹی ایف 18 اے بی سی کے ڈبلیو ایل اے’ کو کوالا کہا گیا۔
اسی طرح سنہ 2020 میں نظر آنے والے ‘زیڈ ٹی ایف 20 اے سی آئیجی ایم ای ایل’ کو ‘کیمل’ یعنی اونٹ کا نام دیا گیا۔
اسی طرح سنہ 2022 میں دیکھے جانے والے ‘اے ٹی 2022 ٹی ایس ڈی’ کو تسمانیہ ڈیول کا نام دیا گیا اور 2023 میں دیکھے جانے والے ’اے ٹی ا2023 ایف ایچ این‘ کو ’فنچ‘ ایک گانے والی چڑیا یا ‘فان’ ہرن کے بچے کا نام دیا گیا۔

،تصویر کا ذریعہNASA
ماہرین فلکیات اس قسم کے وقوعے کا مشاہدہ کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ٹیلسکوپ کے سرویز کا استعمال کر رہے ہیں۔ جب کبھی ایسا کوئی دھماکہ ظاہر ہوتا ہے تو ماہرینِ فلکیات اپنے ‘ایسٹرنومرز ٹیلیگرام’ کے ذریعے باقی ماہرین کو آگاہ کرتے ہیں تاکہ دیگر ماہرین اپنی اپنی دوربینیں فوراً اس کی طرف متوجہ کریں اور اس کا مزید تفصیل سے مشاہدہ کر سکیں۔
نومبر سنہ 2024 میں اینا ہو اور پارلے نے ایک اور نیا ‘ایل ایف بوٹ’ دریافت کیا جسے ‘اے ٹی 2024 ڈبلیو پی پی’ کا نام دیا گیا، مگر اسے ابھی تک کوئی عرفی نام نہیں دیا گیا ہے۔ اینا ہو کہتی ہیں کہ ‘ہم اسے دی واسپ (بھڑ) کا نام دینا چاہ رہے ہیں۔
اینا ہو کہتی ہیں یہ دھماکہ اس لحاظ سے خاص تھا کہ یہ ‘گاؤ’ کے بعد سب سے زیادہ روشن ایل ایف بوٹ تھا۔ اسے روشنی پھوٹنے کی ابتدائی حالت میں ہی دریافت کر لیا گیا جس کی وجہ سے سائنسدانوں نے ہبل ٹیلیسکوپ سمیت متعدد دوربینوں سے اس کا مشاہدہ کیا تاکہ اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کر سکیں۔
پارلے کہتے ہیں کہ ‘گاؤ کے بعد سے یہ سب سے اچھا مشاہدہ تھا۔’
ابتدائی مشاہدات سے معلوم ہوتا ہے کہ واسپ یا بھڑ کسی ناکام سپرنووا کا نتیجہ نہیں تھا، کیونکہ اس میں وہ علامات موجود نہیں تھیں جو اس طرح کے عمل میں پیدا ہوتی ہیں یعنی اصولی طور پر ایسی صورت میں کوئی ستار پھٹ کے باہر نکلنے کے بجائے اپنے آپ میں ہی ضم ہو جاتا ہے۔ ستارے کے اندر ایک بلیک ہول یا گھنا نیوٹرون بنتا ہے اور ستارے کی پرت سے شعائيں پھوٹ پڑتی ہیں اور اس سے وہ چیز پیدا ہوتی ہے جسے ہم سینٹرل انجن کہتے ہیں۔ زمین سے دیکھنے پر ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ اور گاؤ کے معاملے میں بھی ایسا ہی نظر آيا تھا۔
پارلے کا کہنا ہے کہ لیکن واسپ میں دھماکے کے بعد سائنسدانوں کی امید کے برعکس کسی بھی قسم کے مادے کے بہہ نکلنے کے شواہد نہیں ملے۔ تاہم پارلے کہتے ہیں کہ یہ نتائج ابتدائی ہیں: ‘ہم اب بھی ڈیٹا کا تجزیہ کر رہے ہیں۔’

،تصویر کا ذریعہGetty Images
ستمبر 2024 میں نیدرلینڈز انسٹیٹیوٹ فار سپیس ریسرچ کے ژینگ کاؤ اور ان کے ساتھیوں نے پہلے ایل ایف بوٹ کا دوبارہ جائزہ لیا اور ایسے شواہد پائے جو ناکام سپرنووا کے نظریے سے متصادم تھے۔
انھوں نے ایکس رے کی مدد سے کیے جانے والے مشاہدات سے معلوم کیا کہ دھماکے کے اردگرد ایک گیس کی ڈسک موجود تھی۔ جب اس کا کمپیوٹر ماڈل بنایا گیا تو ایسا لگا جیسے کوئی ستارہ ایک درمیانے درجے کے بلیک ہول (جو سورج سے 100 سے 100,000 گنا زیادہ بڑا ہوتا ہے) کے ذریعے نگل لیا گیاہو۔
بڑے بلیک ہول کا حجم سورج سے لاکھوں کروڑوں گنا زیادہ ہوتا ہے۔
جب یہ ستارہ کھایا جا رہا تھا تو اس کے بڑے حصے بلیک ہول میں جاتے وقت چمک پیدا کر رہے تھے جو زمین پر گاؤ کی چمک کی طرح نظر آتے تھے۔
کاؤ کہتے ہیں: ‘مجھے یقین ہے کہ گاؤ اور اس جیسے دوسرے ایل ایف بوٹس کی تحقیق درمیانے درجے کے بلیک ہول کے ہمارے نظریے کی تصدیق کرتے ہیں۔’
ایک دوسرا نظریہ یہ ہے کہ یہ ایل ایف بوٹس دراصل بہت بڑے ستارے ہیں جنھیں ہم ‘وولف رایت’ کہتے ہیں جنھیں زیادہ چھوٹے بلیک ہول تباہ کر رہے ہیں۔ یہ چھوٹے بلیک ہول بھی ہمارے سورج سے دس سے 100 گنا زیادہ بڑے ہیں۔
نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں نظریاتی فلکیات کے ماہر برائن میٹزگر اس نظریے کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نظام بلیک ہول کے جوڑوں کی طرح بنتے ہیں، لیکن اس معاملے میں صرف ایک ستارہ بلیک ہول بنتا ہے۔ انھیں ان کی کشش ثقل کی لہروں سے پہچانا جاتا ہے جو وہ پیدا کرتی ہیں۔
بہر حال اس وقت درمیانے درجے کے بلیک ہولز والا نظریہ سب سے زیادہ مقبول اور پرکشش سمجھا جا رہا ہے۔ اگر یہ درست ثابت ہوا تو ایل ایف بوٹس ان پراسرار درمیانے درجے کے بلیک ہولز کو قریب سے سمجھنے کا ایک نایاب موقع فراہم کر سکتے ہیں۔ اگرچہ ماہرین کو یقین ہے کہ یہ بلیک ہولز موجود ہیں، لیکن ابھی تک ان کا حتمی ثبوت نہیں ملا ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
یہ بلیک ہولز کائنات میں سب سے چھوٹے اور سب سے بڑے بلیک ہولز کے درمیان کی گمشدہ کڑی ہو سکتے ہیں اور ایل ایف بوٹس ہمیں بتا سکتے ہیں کہ یہ کتنے عام ہیں اور کہاں پائے جاتے ہیں۔
پارلے کہتے ہیں کہ ‘درمیانے درجے کا بلیک ہولز ماڈل سب سے زیادہ دلچسپ ہے۔ ماہرین فلکیات کی برادری میں اب بھی بحث جاری ہے کہ آیا یہ واقعی موجود ہیں۔ اس کے شواہد بہت کم ہیں۔’
ان ایل ایف بوٹس یا روشن ترین دھماکوں کی حقیقت جاننے کے لیے ہمیں ان کا وسیع تر ڈیٹا درکار ہے۔
پارلے کہتے ہیں کہ ‘بدقسمتی سے، یہ بہت نایاب ہیں۔’ اگر ہمارے پاس تقریباً 100 ایل ایف بوٹس کے ڈیٹا آ جاتے ہیں تو پھر ہم اگلا قدم اٹھا سکتے ہیں۔ وہ کتے ہیں کہ ہم شاید اگلے سال تک اس عدد کے قریب پہنچ سکتے ہیں کیونکہ اسرائیلی خلائی دوربین الٹراسیٹ کو خلا میں بھیجا جا رہا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس دوربین کی وجہ سے مزید ایل ایف بوٹس نظر آ سکیں گے۔ اس دوربین کا کینوس بہت بڑا ہے اور یہ بیک وقت 204 مربع ڈگری کا احاطہ کرتا ہے یعنی ایک بار میں تقریباً 1,000 چاند کو آپ دیکھ سکتے ہیں۔
جیمز ویب سپیس ٹیلسکوپ (جے ڈبلیو ایس ٹی) جیسی دیگر خلائی دوربینیں بھی ان ایل ایف بوٹس پر مزید ڈیٹا حاصل کر سکتی ہیں، بشرطیکہ انھیں صحیح وقت پر دھماکے کی سمت میں موڑا جائے۔ میٹزگر کہتے ہیں کہ ‘جے ڈبلیو ایس ٹی اس کام کے لیے بہترین ہے’۔ لیکن اس دوربین سے بر وقت کام لینا مشکل ثابت ہوا ہے۔ اینا ہو کہتی ہیں: ‘میں نے اس کے لیے دو بار درخواست دی لیکن کامیابی نہیں ملی۔ اب پھر سے کوشش کروں گی۔’
جب تک مزید ڈیٹا نہیں آتا ان عجیب دھماکوں کا راز سربستہ راز ہی رہے گا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ ایل ایف بوٹس ویسے نہیں تھے جیسا کہ ماہرین نے شروع میں خیال ظاہر کیا تھا۔
پارلے کہتے ہیں: ‘میں نے سوچا یہ ایک مختلف قسم کا دلچسپ منصوبہ ہو گا۔ لیکن یہ ایک بالکل ہی نیا مظہر نکلا۔ یہ دھماکے وقت کے ساتھ اور بھی دلچسپ ہوتے گئے۔’
SOURCE : BBC