SOURCE :- BBC NEWS

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہAFP

  • مصنف, شان سیڈون اور ڈینیئل پالمبو
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 9 اکتوبر 2023

    اپ ڈیٹ کی گئی 2 گھنٹے قبل

قطر کے وزیرِ اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان التھانی اور امریکی صدر جو بائیڈن نے قطر میں پریس کانفرنس کے دوران تصدیق کی ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔

15 ماہ کی جنگ کے بعد بالآخر ایک ایسے معاہدے پر اتفاق ہوا ہے کہ جس میں صدر جو بائیڈن کے مطابق ’مکمل جنگ بندی، اسرائیلی فوجوں کے غزہ سے انخلا، حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی اور اسرائیل کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی‘ شامل ہو گی۔

خیال رہے کہ اس جنگ کے دوران اب تک غزہ میں وزارتِ صحت کے مطابق 46 ہزار 640 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

سات اکتوبر 2023 کو جب حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملہ کیا گیا تو اس کے نتیجے 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے جبکہ کُل 251 افراد کو حماس کی جانب سے یرغمال بنایا گیا تھا۔

حماس کی جانب سے کیے گئے سات اکتوبر کے حملے اور اس کے نتیجے میں اسرائیلی ردِ عمل نے خطے کی صورتحال کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھا دیا۔

آئیے یہ جانتے ہیں کہ 15 ماہ قبل سات اکتوبر کے دن کیا ہوا تھا؟ بی بی سی نیوز نے اُس وقت عسکریت پسندوں اور عام شہریوں کی جانب سے جاری کردہ ویڈیوز کا تجزیہ کیا تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ حماس نے غزہ سے اب تک کے سب سے مربوط حملے کی ابتدا کیسے کی؟

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہAFP VIA GETTY

راکٹوں سے حملے کے آغاز کا اشارہ

جب یہ حملہ شروع ہوا تو بہت سے اسرائیلی شاید سو رہے ہوں گے۔

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

سنیچر یہودیوں کے لیے ’سیبیتھ‘ کا دن تھا جس کا مطلب ہے کہ بہت سے خاندان گھروں میں، دوستوں سے ملاقاتوں یا پھر عبادت گاہوں میں وقت بتانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

لیکن اچانک صبح سویرے راکٹوں کی برسات نے ایک ایسے حملے کے آغاز کا عندیہ دیا جو وسعت اور منصوبہ بندی کے حساب سے غیر معمولی تھا۔

برسوں سے اسرائیل نے غزہ کی پٹی کو رکاوٹوں کے ذریعے الگ تھلگ کر رکھا ہے۔ تاہم سنیچر کے روز حماس کی جانب سے چند ہی گھنٹوں میں یہ رکاوٹیں عبور کر لی گئیں۔

صبح تقریباً ساڑھے چھ بجے کا وقت تھا جب راکٹوں کی برسات شروع ہوئی۔ غزہ کی پٹی کو کنٹرول کرنے والی تنظیم حماس، جسے برطانیہ سمیت دنیا کے کئی ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں، اکثر راکٹوں کے استعمال جیسی حکمت عملی استعمال کرتی رہی تھی۔

حماس کے اِن راکٹوں کے خلاف اسرائیل کا جدید ’آئرن ڈوم‘ نامی دفاعی میزائل نظام عموماً مؤثر ثابت ہوتا ہے لیکن سنیچر کی صبح انتہائی مختصر وقت میں داغے گئے ہزاروں راکٹوں نے اس نظام کو غیر موثر کر دیا تھا۔

راکٹوں کی اتنی بڑی تعداد ثابت کرتی ہے کہ اس حملے کی منصوبہ بندی مہینوں سے جاری تھی۔ حماس کا دعویٰ ہے کہ پہلے مرحلے میں پانچ ہزار راکٹ داغے گئے جبکہ اسرائیل کے مطابق داغے گئے راکٹوں کی تعداد حماس کی جانب سے بتائی گئی تعداد سے نصف تھی۔

غزہ کی پٹی سے 60 کلومیٹر دور اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب تک میں الارم بجنا شروع ہوئے اور جلد ہی مغربی بیت المقدس اور دیگر شہروں میں جہاں جہاں میزائل گرے دھواں اٹھنا شروع ہو گیا۔

راکٹوں کی اس برسات کے دوران حماس کے مسلح جنگجو اُن مقامات پر اکھٹے ہوئے جہاں سے انھوں نے غزہ کو الگ کرنے والی رکاوٹیں عبور کرنا تھیں۔

واضح رہے کہ اسرائیل نے اپنی فوج اور آبادکاروں کو 2005 میں غزہ سے نکال لیا تھا لیکن اب تک غزہ کی فضا، سرحدوں اور ساحلوں پر اسرائیل کا ہی کنٹرول ہے۔

غزہ کی پٹی کے گرد کہیں کنکریٹ سے بنی دیوار ہے تو کہیں کانٹے دار باڑ نصب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فوجی چوکیاں موجود ہیں جبکہ ایسے ہی حملوں کی روک تھام کے لیے کیمرا نیٹ ورک اور سینسر بھی نصب تھے۔

چند ہی گھنٹوں میں اس رکاوٹ کو مختلف مقامات پر پار کر لیا گیا۔

حماس

،تصویر کا ذریعہSOCIAL MEDIA

حماس نے رکاوٹ کو کیسے عبور کی؟

حماس کے چند جنگجوؤں نے تو اس رکاوٹ کو مکمل طور پر بائی پاس کیا جس میں فضائی گلائیڈرز بھی شامل تھے (غیر مصدقہ فوٹیج میں کم از کم سات ایسے فضائی گلائیڈرز اسرائیل میں دیکھے گئے)۔ چند جنگجو کشتیوں کے ذریعے اسرائیل میں داخل ہوئے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے حماس کی دو کشتیوں کو اسرائیل میں داخل ہونے سے روکا گیا۔

لیکن اس حملے کی خصوصیت کراسنگ پوائنٹس پر متعدد اور منظم حملے تھے۔

پانچ بج کر 50 منٹ پر حماس کے مسلح ونگ کے ٹیلی گرام اکاؤنٹ پر ابتدائی تصاویر شائع ہوئیں جو کریم شالوم کے مقام پر لی گئی تھیں۔ یہ اسرائیل میں غزہ سے داخل ہونے کے لیے سب سے جنوبی مقام ہے۔

ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ باڑ کے پار مسلح جنگجو ایک فوجی چوکی پر حملہ آور ہوتے ہیں اور پھر زمین پر دو اسرائیلی فوجیوں کی خونیں لاشیں نظر آتی ہیں۔

ایک اور تصویر میں پانچ موٹرسائیکلوں پر سوار مسلح جنگجو خاردار رکاوٹ کے ایک حصے سے گزرتے ہیں جسے کاٹا جا چکا ہے۔

ایک اور حصے پر ایک بلڈوزر کی مدد سے خاردار رکاوٹ کو گرایا جا رہا تھا۔ یہاں درجنوں مسلح افراد موجود تھے جن میں سے چند تقسیم کرنے والی رکاوٹ کو عبور کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

حماس

،تصویر کا ذریعہSOCIAL MEDIA

کریم شالوم سے تقریبا 43 کلومیٹر دور، غزہ کے شمال میں، حماس کی جانب سے ایریز کے مقام پر خاردار رکاوٹ کو پار کرنے کی ایک اور کوشش جاری تھی۔

یہاں سے جاری ہونے والی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ کنکریٹ کے بیریئر پر دھماکہ ہوتا ہے جو حملے کے آغاز کا اشارہ ہے اور پھر ایک مسلح جنگجو اپنے ساتھیوں کی جانب ہاتھ لہرا کر انھیں آگے بڑھنے کا اشارہ دیتا ہے۔

بلٹ پروف جیکٹ پہنے، رائفلیں تھامے آٹھ جنگجو اسرائیلی فوجی چوکی کی جانب دوڑتے ہیں اور فائرنگ کرتے ہیں۔

اس ویڈیو میں آگے چل کر زمین پر اسرائیلی فوجیوں کی لاشیں دکھائی دیتی ہیں جبکہ جنگجو، جو واضح طور پر تربیت یافتہ اور منظم ہیں، کمپاونڈ میں تمام کمروں کا جائزہ لیتے رہے۔

حماس

،تصویر کا ذریعہSOCIAL MEDIA

غزہ کی پٹی پر سات سرکاری کراسنگ پوائنٹس ہیں جن میں سے چھ اسرائیل اور ایک مصر کے کنٹرول میں تھا۔

تاہم چند گھنٹوں کے اندر حماس نے پوری سرحد سے اسرائیلی علاقے میں گھسنے کا راستہ ڈھونڈ لیا۔

اسرائیل کے اندر دور تک حملہ آوروں کی پہنچ

حماس کے جنگجو غزہ سے نکل کر ہر سمت میں پھیل گئے۔ اسرائیلی حکام سے حاصل شدہ معلومات سے علم ہوتا ہے کہ وہ 27 مقامات پر حملہ آور ہوئے اور بظاہر انھیں حکم تھا کہ وہ دیکھتے ہی گولی چلا دیں۔

حماس کے جنگجو سب سے دور جس مقام تک پہنچے وہ غزہ کے مشرق میں 22 کلومیٹر دور اوفاکم کا قصبہ ہے۔

سدیروت میں جنگجو ایک پک اپ ٹرک میں قصبے سے گزرے جو غزہ کے مشرق میں تین کلومیٹر دور ہے۔

تقریبا ایک درجن مسلح جنگجو اشکیلون کی خالی سڑکوں پر دیکھے گئے جو ایریز کے شمال میں ہے۔ جنوبی اسرائیل کے متعدد مقامات پر ایسے ہی مناظر دیکھے گئے اور اسرائیلی حکام نے عام شہریوں کو گھروں میں چھپ جانے کی تاکید کی۔

اسرائیل

ریئم کے قریب ایک صحرا میں ایک موسیقی فیسٹیول ہو رہا تھا جس میں بڑی تعداد میں نوجوان شرکت کر رہے تھے۔ ایک عینی شاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ مسلح جنگجو ہتھیاروں سے بھری ایک وین میں گھوم رہے تھے اور ابتدائی فائرنگ کے بعد تین گھنٹے تک مزید اسرائیلیوں کو نشانہ بنانے کے لیے تلاش کرتے رہے۔

یہ بھی پڑھیے

فوجی اور عام شہری یرغمال بنے

ہم اب یہ بات جانتے ہیں کہ موسیقی فیسٹیول اور دیگر مقامات سے لوگوں کو یرغمال بنایا گیا اور انھیں غزہ لے جایا گیا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ تقریباً 100 کے قریب فوجی اہلکار اور عام شہری اغوا کیے گئے۔

بیرئی قصبے سے سامنے آنے والی فوٹیج، جس کی بی بی سی نے تصدیق کروائی ہے، میں ظاہر ہوتا ہے کہ جنگجو چار عام شہریوں کو زبردستی ساتھ لے گئے۔

حماس

،تصویر کا ذریعہSOCIAL MEDIA

اس کے علاوہ متعدد ویڈیوز آن لائن دیکھی گئی ہیں جن میں چند اسرائیلی غزہ کی پرہجوم گلیوں میں گھمائے جا رہے تھے۔

اسرائیلی آبادیوں کے ساتھ ساتھ حماس نے دو فوجی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا۔ ان میں سے زکم اور دوسری ریئم میں موجود فوجی اڈے تھے۔

ریئم سے سامنے آنے والی فوٹیج میں کئی جلی ہوئی گاڑیاں اس اڈے کے قریب سڑک پر نظر آتی ہیں۔

حماس کے سوشل میڈیا چینلز پر کئی بار ہلاک ہونے والے اسرائیلی فوجیوں کی لاشوں کی تصاویر شائع کی گئی تھیں۔ بی بی سی نے ان تصاویر کی تصدیق نہیں کی۔

راکٹ حملے کی ابتدا کے چند گھنٹوں میں سینکڑوں اسرائیلی ہلاک ہو چکے تھے اور یہ سب ایک ایسے انداز میں ہوا جو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔

چند گھنٹوں میں اسرائیل کے جنوبی علاقوں میں فوجی مدد پہنچنا شروع ہو گئی لیکن ایک وقت تک حماس کا غزہ سے باہر کافی علاقے پر کنٹرول تھا۔

اس حیران کن حملے کی برق رفتاری اور اس سے ہونے والے نقصان نے اسرائیل کو حیران کر دیا تھا۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا، ایک ایسا سوال ہے جو کئی برسوں تک پوچھا جاتا رہے گا۔

SOURCE : BBC