SOURCE :- BBC NEWS

Israel

،تصویر کا ذریعہIsraeli military

45 منٹ قبل

اسرائیلی فوج نے اکتوبر 2023 میں جنگ شروع ہونے کے بعد پہلی بار غزہ میں اپنے اہداف پر حملوں میں ’بار‘ میزائل کے استعمال کا اعلان کیا ہے۔

اسرائیلی فوج اس سے قبل لبنان میں حزب اللہ کے خلاف جنگ کے دوران اس میزائل کو استعمال کر چکی ہے۔

اسرائیلی فوج نے اس میزائل کو لانچ کرنے کی ویڈیو جاری کی، جس میں بتایا گیا کہ ’بار‘ میزائل پیچیدہ جنگی منظرناموں کے لیے موزوں رہنمائی کا نظام استعمال کرتا ہے اور بہت کم وقت میں اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

ہدف کو درستگی سے سات منٹ کے اندر نشانہ بنانے والا میزائل

اسرائیلی فوج کے مطابق بار میزائلوں میں ایک خود کار رہنمائی کا طریقہ کار ہے جو خاص طور پر پیچیدہ جنگی ماحول کے لیے ڈیزائن کیا گیا اور یہ ’بہت کم وقت‘ میں اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اسرائیلی فوج ’بار میزائلوں‘ کو اپنے قدیم ’روماخ‘ میزائل کا متبادل بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے، جو ایم 270 راکٹ لانچر سسٹم سے لانچ کیے جاتے ہیں۔

اسرائیلی فوج کی طرف سے ماضی میں دیے گئے ایک بیان کے مطابق یہ میزائل امریکی ساختہ ایم ایل آر ایس راکٹ سسٹم کے مقابلے میں زیادہ موثر رینج اور بہتر درستگی کا حامل ہے۔

بیان میں اشارہ دیا گیا کہ ’بار‘ آزاد نیویگیشن صلاحیتوں اور لیزر پر مبنی رہنمائی کے نظام سے لیس ہے، جو اسے اہداف کو درستگی سے نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اسرائیل کے مطابق ’بار‘ ایک درمیانے فاصلے تک مار کرنے والا میزائل ہے جس کی رینج 30 کلومیٹر تک ہے۔ اس میں تباہ کن طاقت ہے جو آرٹلری کے ذریعے استعمال ہونے والے پرانے ’لانس‘ میزائل سے زیادہ ہے۔

اسرائیلی فوج کے مطابق 334ویں تھنڈر بٹالین، جو 282ویں شمالی فائر بریگیڈ کا حصہ ہے، نے حال ہی میں نئی ​​میزائل بیٹریاں حاصل کی ہیں، جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ فوجی دستے پہلے ہی لبنان اور غزہ کی پٹی میں حزب اللہ کے خلاف حالیہ فوجی کارروائیوں میں ان میزائلوں کا استعمال کر چکے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کو ایک اسرائیلی کمانڈر نے بتایا کہ اگر ایک فوجی کسی دہشت گرد کو کسی خاص عمارت کی ایک منزل پر اینٹی ٹینک میزائل لے کر جاتے ہوئے دیکھتا ہے تو اسرائیل اس میزائل سے اس ہدف کو درستگی سے سات منٹ کے اندر نشانہ بنا سکتا ہے۔

یہ میزائل کس کمپنی نے تیار کیا؟

اسرائیلی میزائل

،تصویر کا ذریعہReuters

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

اسرائیلی فوج کے مطابق 282ویں آرٹلری رجمنٹ نے حماس کے خلاف جاری کارروائی کے دوران جنوبی غزہ میں چند مقامات کو نشانہ بنانے کے لیے ’ایلبٹ سسٹمز‘ کے تیار کردہ بار میزائلوں کا استعمال کیا۔

ایلبٹ سسٹمز نے 1996 میں اسرائیل میں کام کرنا شروع کیا۔ اس وقت اس کمپنی کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ وہ سکائی لارک ون جاسوس ڈرون تیار کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔

ایسا ایک میزائل حماس نے 2015 میں قبضے میں لیا تھا اور اس میں ضروری انجنیئرنگ کر کے اس کا استعمال شروع کر دیا۔

ایلبٹ کی دنیا بھر میں ذیلی فیکٹریاں بھی ہیں اور وہ اپنی مصنوعات مختلف ممالک کی فوج کو فروخت کرتی ہے۔

کمپنی کو اسرائیل فلسطین تنازع میں اسرائیلی فوج کی حمایت پر برطانیہ اور امریکہ میں اپنی ذیلی فیکٹریوں میں احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ تنازعات میں ملوث ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی سرمایہ کاری فرموں نے بھی کمپنی سے اپنی سرمایہ کاری واپس لے لی۔

ایلبٹ سسٹمز نے سنہ 2023 سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کے دوران ہتھیاروں کی پیداوار کو دوگنا کر دیا۔

اس کمپنی نے اسرائیلی فوج کو اس کی ضرورت کا سامان فراہم کرنا جاری کر رکھا ہے۔ اس میں میزائل، بم، ڈرون، نگرانی اور لانچنگ سسٹم کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے جنگی سازوسامان، خاص طور پر 155 ایم ایم توپ خانے کے گولے شامل ہیں۔

روئٹرز کے مطابق ایلبٹ سسٹمز کے ایگزیکٹو نائب صدر نے اپنے گذشتہ بیانات میں کہا تھا کہ اسرائیلی فوج نے کمپنی پر ’موجودہ معاہدوں کو جلد ڈیلیور کرنے‘ پر زور دیا۔

انھوں نے مزید بتایا تھا کہ ’اس وقت اس کمپنی کی سہ ماہی آمدن میں بڑا واضح اضافہ ہوا اور اب یہ 1.35 ارب ڈالر سے بڑھ کر 1.5 ارب ڈالر تک منافع میں پہنچ گئی ہے۔‘

امریکی فرینڈز سروس کمیٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج سنہ 2006 سے غزہ، مقبوضہ مغربی کنارے اور لبنان میں حملوں اور نگرانی کے مشن کے لیے ایلبٹ سسٹمز کے تیار کردہ ہرمیس 450 اور 900 ڈرونز کو بڑے پیمانے پر استعمال کر رہی ہے۔

یہ دونوں ڈرون سنہ 2014 کی جنگ کے دوران غزہ پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ہونے والی تقریباً 35 فیصد ہلاکتوں کے ذمہ دار تھے۔

اس کے علاوہ اس کمپنی کے پاس غزہ کے گرد ’سمارٹ بارڈر وال‘ کی تعمیر کا ٹھیکہ بھی ہے ۔ یہ دیوار 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے دوران ٹوٹ گئی تھی۔

فوجی اسلحہ

،تصویر کا ذریعہReuters

کچھ لوگ حیران ہو سکتے ہیں کہ کیا ’بار‘ میزائل پہلا نیا ہتھیار ہے جسے اسرائیل نے اس جنگ میں متعارف کروایا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسرائیلی ’بار‘ واحد نیا ہتھیار نہیں، جسے اسرائیل نے اکتوبر 2023 سے غزہ میں اپنی جنگ میں متعارف کرایا بلکہ اس نے جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک بہت سے نئے ہتھیار متعارف کرائے ہیں:

آئرن سٹنگ: ایلبٹ سسٹمز کے ذریعہ تیار کردہ 120 ملی میٹر درستگی سے چلنے والا مارٹر شیل، جس میں دوہری رہنمائی کے طریقہ کار، لیزر اور جی پی ایس کی خاصیت ہے جو شہری علاقوں میں درستگی سے ہدف کو نشانہ بنانے کے قابل بناتا ہے۔

اسے غزہ میں اہداف کے خلاف جنگ کے چوتھے دن میگلان سپیشل فورسز یونٹ نے استعمال کیا اور بعد میں جنوبی لبنان میں استعمال ہوا۔

کندھے سے لانچ کیے جانے والے ’ہولٹ‘ اور ’یٹیڈ‘ میزائل: ٹینک شکن میزائل روایتی ’لاؤ‘ میزائلوں سے 50 فیصد بڑے، زیادہ دھماکہ خیز طاقت اور طویل رینج رکھتے ہیں۔ ان میزائلوں کو خاص طور پر آبادی والے علاقوں میں لڑائی کے لیے تیار کیا گیا تھا جہاں ٹینکوں کا استعمال مشکل ہے۔

’اوکیٹز بیلڈا‘ یا ’سٹیل پنچ‘ شیل: ایک اعلی درستگی کا حامل، لیزر گائیڈڈ شیل جس کا قطر 120 ملی میٹر ہے، جس میں جی پی ایس گائیڈنس ڈیوائس ہے۔ اسے شہری علاقوں میں اعلی درستگی کے ساتھ اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

مرکاوا فور ایم ٹینک: مرکاوا ٹینک کی چوتھی نسل، گائیڈڈ میزائلوں سے بچانے کے لیے جدید سینسرز اور ٹرافی سسٹم سے لیس ہے۔ اس جنگ میں سب سے پہلے اسے آبادی والے علاقوں میں فعال کیا گیا۔

ایرو تھری سسٹم: ایک فضائی دفاعی نظام جو فضا سے باہر طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کو روکنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا۔ یمن سے اسرائیل کی جانب داغے جانے والے میزائلوں کے خلاف اس جنگ میں پہلی بار اسے استعمال کیا جا رہا ہے۔

یہ اور دیگر ہتھیار، جن کا اسرائیلی فوج کی طرف سے اعلان کیا گیا یا میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا، جنگی طریقوں اور حکمت عملی کے ساتھ مربوط ہیں جو مصنوعی ذہانت، جدید ٹیکنالوجی اور ریموٹ کنٹرول پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ اس سے ان کی تباہ کن صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے اور شہریوں، شہری سہولیات اور تنازع میں شامل فریقین پر ان کے اثرات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

SOURCE : BBC