SOURCE :- BBC NEWS

قرض جان

،تصویر کا ذریعہwww.youtube.com/Hum TV

  • مصنف, نازش ظفر
  • عہدہ, صحافی
  • 38 منٹ قبل

پاکستانی ڈرامہ قرض جاں کی آخری قسط نشر ہونے کے بعد سے پاکستان سمیت کئی ایسے ممالک میں سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہے جہاں اردو ڈرامہ دیکھا اور پسند کیا جاتا ہے۔

ہم ٹی وی سے نشر ہونے والا 32 اقساط پر مشتمل یہ ڈرامہ بہترین پلاٹ، کردار نگاری، اور اداکاروں کی عمدہ کی پرفارمنس کی وجہ سے بے حد پسند کیا گیا۔

یمنیٰ زیدی اور اسامہ خان، نشوہ اور بیرسٹر برہان کے مرکز ی کرداروں میں اپنی منجھی ہوئی اداکاری اور باہمی کیمسٹری کے لیے شروع سے ہی پسند کیے گئے لیکن آخری تین قسطیں ڈرامے کے ثانوی کرداروں نے اپنے نام کر لیں۔

نمیر خان اور فجر شیخ نے عمار بختیار اور بینش کے نام سے بہن بھائی کے کردار ادا کیے۔ عمار جو پہلے بھی ایک لڑکی کے ریپ اور قتل کا ملزم ہے سفاکی سے اپنے بہنوئی اسد کا قتل کرتا ہے۔ اور اس لمحے میں ویڈیو کال پر اپنی بہن کو یہ منظر بھی دکھاتا ہے۔

بینش جس وقت ویڈیو پر یہ منظر دیکھتی ہے اس کا چند ماہ کا بچہ بھی اس کے پاس ہے۔

ڈرامہ کا یہ کردار اور منظر سفاکی کی ایسی مثال ہے جہاں ہمدردی کی گنجائش نہیں نکلتی۔ لیکن سوشل میڈیا پر صارفین کا کہنا ہے کہ تربیت کی کمی یا خاندانی جھگڑوں کو بنیاد بتا کر عمار جیسے ولن کے ساتھ رعائت برتی گئی۔ اور اسے ہمدردی دلوائی گئی جس کا وہ مستحق نہیں ہے۔

عمار کے کاروباری اور با اثر باپ بختیار احمد نے نہ صرف خود بلیک میل، دھونس اور ناانصافی کے ساتھ ہر معاملے کو برتا بلکہ اولاد کے لیے بھی یہی اصول وضع کیے۔ عمار کا بے قابو غصہ، نشے کی عادت سے لے کر ریپ اور قتل جیسے سنگین جرائم تک اس کے جرم پر پردہ ڈالا اور ہر بار اپنا اثر و رسوخ کا استعمال کر کے اسے سزا سے بچایا۔

دیپک پروانی نے بختیار احمد کے کردار میں گھر کے ایسے سربراہ کا کردار ادا کیا ہے جو اپنی بیوہ بھابھی پر بری نظر رکھتا ہے جبکہ اپنی ماں کی شہ پر سگی بھتیجی نشوہ کی تعلیم، وکالت کا پیشہ اپنانے اور جائیداد میں اس کےحق کا بھی مخالف ہے اور اپنی بیوی سدرہ سے بھی بد سلوکی کرتا ہے۔ عمار کے بگاڑ کا تمام تر الزام بھی اسے ہی دیتا ہے۔

ڈرامے کی آخری قسط میں عمار عدالت میں اپنا جرم قبول کرتا ہے لیکن اس جرم کی بنیاد تربیت کی کمی کو مانتا ہے جو آج تک اسے دی ہی نہیں گئی۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے ‘اچھے اور برے کی تمیز سکھائی ہی نہیں گئی۔’

نشوہ جس سے اس کا نکاح بلیک میل کر کے کیا گیا، اس کے خلاف بطور وکیل مقدمہ لڑتی ہے۔ ناظرین کو نشوہ جیسی بولڈ لڑکی سے ریپسٹ اور قتل کے مجرم کے خلاف جس غصے اور انتقام کی امید تھی وہ انھیں نظر نہیں آیا۔

نشوہ نے بھی عمار کے لیے سزا سے زیادہ اصلاح پر زور دیا، جیسے اس کا عمل ایک سفاک جرم نہیں، بلکہ محض ایک نظر انداز کیے گئے نوجوان کی عمومی غلطی ہو۔

سوشل میڈیا پر ڈرامے کے کرداروں پر بحث

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ریا اپا دھے نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’خواتین میری بات سنیں، ریپ طاقت کی سیاست ہے۔ اس کا خانگی معامالات میں بگاڑ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، عورت مخالف سوچ، ضرور خاندانوں اور معاشرے کو متاثر کرتی ہے لیکن کوئی بھی مرد اپنے عمل کا ذمہ دار خود ہے۔ ریپسٹ کبھی اپنا جرم قبول نہیں کرتا، کوئی بھی ریسرچ دیکھ لیں۔‘

social media

،تصویر کا ذریعہX/@riaupaddhayay

آخری قسط کے ایک منظر میں قبول جرم کے بعد، عمار عدالت کے باہر نشوہ سے الوداعی موقع پر کہتا ہے ‘بہت اچھی وکیل بن گئی ہو تم¬ جس پر نشوہ مسکراتی ہے۔

اس پر ایک صارف نے لکھا کہ ’اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا کہ استغاثہ کا وکیل ایک مجرم کی طرف سے کی گئی تعریف اور توثیق پر اس قدر خوش ہوا ہو۔ مجرم بھی وہ جو ریپ اور قتل کر چکا ہو۔ اس طرح کی وائٹ واشنگ انتہائی غلط ہے۔‘

social media

،تصویر کا ذریعہX/@Jhoombaraber

کالی جنیر نامی ایک صارف نے لکھا کہ ‘ایک بھیانک شخص کو کٹہرے میں اس کی تقریر کے ذریعے ہمدردی دلوائی گئی۔ بیانیے کی اس انداز سے اسے انسانی کمزوری ظاہر کیا گیا۔’

اس ڈرامے پر ہونے والی بحث میں پاکستان میں قتل کے دو واقعات ظاہر شاہ کیس اور مصطفیٰ عامر کیس کی مثال بھی دی گئی جہاں مجرموں کے والد اثر و رسوخ رکھتے تھے۔

ایک صارف کا کہنا ہے کہ ‘یہی وہ مائنڈ سیٹ ہے جو عمار جیسے عفریت پیدا کرتا ہے۔’

’میں عمار کا سافٹ امیج کیسے مائنس کر دیتی‘

Rabia razaq

،تصویر کا ذریعہRabia Razaq

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

قرضِ جاں کی مصنفہ رابعہ رزاق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس اعتراض کا جواب دیا۔ ان کا کہنا ہے ’فکشن لکھنا آسان ہوتا ہے۔ اس میں کیریکٹر کو محض برا دکھایا جا سکتا ہے۔ لیکن جب آپ حقیقی زندگی سے کیریکٹر لیتے ہیں تو مارجن دینا پڑتا ہے۔‘

عمار کو ‘سافٹ امیج ‘ دینے کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ‘میں اس کا سافٹ امیج کیسے مائنس کر دیتی۔ حقیقی زندگی میں قتل کے معاملات پر بھی قصاص اور دیت کی گنجائش موجود ہے۔ مجرم نادم ہو اور اعتراف جرم کرے تو اس کے لیے معافی کی، اصلاح کی گنجائش ہے۔’

نشوہ کے کردار سےناظرین کو جو مایوسی ہوئی اس کے بارے میں رابعہ کا کہنا ہے کہ وہ عمار کے لیے ہمیشہ سے اصلاح ہی چاہتی تھی اور عدالت کے باہر اس کی مسکراہٹ اس کی جیت ہی ہے کہ اس نے اس شخص کی ‘لگام کھینچ لی۔’

اس بحث کے قطع نظر عمومی طور پر ڈرامے کو بے حد پزیرائی ملی ہے۔ ولن کے روپ میں نمیر خان کی ایکٹنگ بہت پسند کی گئی۔ انھیں اور بینش کا کردار کرنے والی فجر شیخ کو اداکاروں کی نئی پود میں بہترین اضافہ قرار دیا گیا۔

ڈرامے میں فیصل رحمان اور تزین طلعت کی واپسی ہوئی اور ان کا رومانس اولڈ از گولڈ کی طرح پسند کیا گیا۔ دیپک پروانی نے ثابت کیا کہ وہ کپڑے ہی نہیں ڈیزائن کرتے بلکہ کسی نیگیٹو کیریکٹر کے بخیے بھی عمدگی سے برتتے ہیں۔

گھر کی دادی، سکینہ سموں نے بھی نیگیٹو کیریکٹر میں پہلی قسط سے ہی بہت داد سمیٹی۔ ہیرو اور ہیروئن آخری قسط میں ملے تو سہی لیکن ناظرین کا کہنا ہے کہ جتنا مشکل ان کا ملنا تھا، اور جتنے جتن بیرسٹر برہان نے کیے تھے، اس کے مقابلے میں وہ صرف ایک آخری سین میں ہی ان کو ایک ساتھ دیکھ سکے جس پر ان کی تسلی نہیں ہوئی۔

لیکن اس کی وجہ شائد یہ ہے کہ یہ ڈرامہ روائتی رومانٹک ڈرامہ تھا ہے نہیں۔ یہ ہیرو اور ہیروئن کی لو سٹوری سے زیادہ حالات کے تحت دو ذہین افراد کا ٹکراؤ تھا جو اپنی بھر پور شخصیت کے ساتھ ایک دوسرے کی زندگی میں داخل ہوئے۔ وکیل ہونے کے ناطے ان کی کیمسٹری میں بھی دل کی باتوں کے بجائے دلیل اور بحث غالب رہی۔

موضوعات کے اعتبار سے بھی قرض جاں میں جنریشنل ٹراما یا نسل در نسل چلنے والے صدمات پر بات ہوئی جہاں ایک نسل کی زیادتی کا قرض دوسری نسل ادا کرتی ہے۔

سوشل میڈیا پر پسندیدگی کے علاوہ ٹی وی پر بھی ڈرامہ کے نقادوں نے اسے ہر طرح سے بہترین ڈرامہ قرار دیا۔

SOURCE : BBC