SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, کوہ ایو
- عہدہ, بی بی سی نیوز
-
ایک گھنٹہ قبل
دنیا کی دو سب سے بڑی طاقتوں، امریکہ اور چین، کے مابین تجارتی جنگ زوروں پر ہے۔
امریکہ نے چینی مصنوعات پر 245 فیصد تک محصولات (ٹیرف) عائد کر دی ہیں جبکہ چین نے جواب میں امریکی مصنوعات کی درآمد پر 125 فیصد ٹیرف عائد کر دیا ہے۔
عالمی کساد بازاری کے خدشات میں اضافے کے بعد صارفین اور مارکیٹیں مزید غیر یقینی کی صورتحال کے لیے ذہنی طور پر دکھائی دیتے ہیں۔
چینی صدر شی جن پنگ کی حکومت جہاں بارہا یہ کہہ چکی ہے کہ وہ تجارت سے متعلق معاملات پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں تو وہیں چین کی جانب سے اس عزم کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ ’آخری دم تک لڑنے کے لیے تیار ہیں۔‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’ٹیرف وار‘ کا جواب دینے کے لیے بیجنگ کے پاس کون سے ہتھیار موجود ہیں، آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
چین کسی حد تک نقصان برداشت کر سکتا ہے

،تصویر کا ذریعہGetty Images
چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ دیگر چھوٹے ممالک کے مقابلے میں امریکی ٹیرف کے اثرات کو برداشت کرنے کی بہتر صلاحیت رکھتا ہے۔
اس کے علاوہ، ایک ارب سے زائد آبادی پر مشتمل چین کی مقامی مارکیٹ بہت بڑی ہے جو کسی حد تک امریکی ٹیرف کے نتیجے میں برآمد کنندگان پر پڑنے والے دباؤ اور منفی اثرات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
تاہم گذشتہ کچھ عرصے سے چین کی عوام اتنا خرچ نہیں کر رہی جتنا اُن کی حکومت چاہتی ہے۔ تاہم حکومتی اقدامات بشمول گھریلو سامان اور آلات کی خریداری پر سبسڈی اور ریٹائرڈ چینی ملازمین کے لیے ’سلور ٹرین‘ جیسے اقدامات کی مدد سے اس صورتحال میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
اور ٹرمپ کی جانب سے محصولات عائد کیے جانے کے فیصلے نے چین کی کمیونسٹ پارٹی کو مقامی کھپت میں اضافے کی ایک اور وجہ مہیا کر دی ہے۔
واشنگٹن کے پیٹرسن انسٹیٹوٹ سے منسلک چینی اور امریکی تجارتی امور کے ماہر میری لوولی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خیال میں چینی قیادت شاید ’امریکی جارحیت‘ کو تسلیم کرنے کے بجائے نقصان برداشت کرنے کو ترجیح دے۔
چین اس لیے بھی عوام کو پہنچنے والی تکلیف زیادہ برداشت کر سکتا ہے کیونکہ وہاں ایک آمرانہ حکومت قائم ہے اور انھیں قلیل مدتی رائے عامہ کے بارے میں زیادہ فکر نہیں۔ اور عنقریب ایسے کوئی انتخابات بھی نہیں ہونے والے جس میں چینی قیادت کو اپنی عوام کے آگے جواب دینا پڑے۔
تاہم اس سب کے باوجود عوام میں پائی جانے والی بے چینی بیجنگ کے لیے تشویش کا باعث ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب پراپرٹی کے جاری بحران اور بے روزگاری کی وجہ سے عوام پہلے ہی عدم اطمینان کا شکار ہیں۔
چین کی وہ نوجوان نسل جس نے اب تک اپنے ملک کو صرف ترقی کرتے دیکھا ہے، ان کے لیے امریکی ٹیرف کے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشی غیر یقینی کی صورتحال کافی پریشان کن ہو گی۔
چینی حکومت اپنے جوابی ٹیرف کا جواز پیش کرنے کے لیے لوگوں میں قوم پرست جذبے اور نظریات کو ہوا دے رہی ہے اور سرکاری میڈیا لوگوں کو ’مل کر اس بحران سے لڑنے‘ کی ترغیب دی جا رہی ہے۔
صدر شی جن پنگ شاید امریکی اقدامات سے پریشان ہوں لیکن تاحال بیجنگ ایک منحرف اور پراعتماد لہجہ اختیار کرتا نظر آ رہا ہے۔ ایک اہلکار نے عوام کو یقین دلایا ہے کہ امریکی اقدامات کے نتیجے میں ’کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا۔‘
چین مستقبل کے لیے سرمایہ کاری کرتا آیا ہے

،تصویر کا ذریعہGetty Images
چین ہمیشہ سے ’دنیا کی فیکٹری‘ کے طور پر جانا جاتا ہے تاہم وہ مزید سرمایہ کے ذریعے خود کو ایک ’انتہائی جدید کارخانے‘ میں تبدیل کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔
صدر شی جن پنگ کی سربراہی میں چین ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکہ کے ساتھ برابری کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔
اس نے توانائی کے قابل تجدید ذرائع سے لے کر مصنوعی ذہانت تک کے میدان میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ’ڈیپ سیک‘ ہے جسے مصنوعی ذہانت کے میدان میں ’چیٹ جی پی ٹی‘ کا مدِ مقابل سمجھا جا رہا ہے جبکہ چینی کمپنی ’بی وائی ڈی‘ گذشتہ سال ایلون مسک کی ٹیسلا کو پیچھے چھوڑ کر الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بن گئی ہے۔
موبائل فون بنانے والی امریکی کمپنی ’ایپل‘ بھی اپنا مارکیٹ شیئر ہواوے اور ویوو جیسی چینی کمپنیوں کے ہاتھوں کھو رہی ہے۔
حال ہی میں چین نے اگلے دس برسوں میں مصنوعی ذہانت کے میدان میں 10 کھرب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔
امریکی کمپنیوں نے اپنی سپلائی چین، چین سے کہیں اور منتقل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کسی اور ملک میں اس پیمانے کا انفراسٹرکچر اور ہنر مند مزدور دھونڈنے میں ناکام رہے ہیں۔
سپلائی چین کے ہر مرحلے پر چینی مینوفیکچررز نے ملک کو دہائیوں پر محیط فائدہ دیا ہے جس کا مدِمقابل تیار کرنے میں وقت لگے گا۔
اس بے مثال سپلائی چین کی مہارت اور حکومتی تعاون نے چین کو اس تجارتی جنگ میں ایک زبردست کھلاڑی بنا دیا ہے۔ ایک طرح سے کہا جائے تو ٹرمپ کی گذشتہ دورِ صدارت کے وقت سے چین اس تنازع کے لیے تیاری کر رہا ہے۔
ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت سے سیکھا گیا سبق

،تصویر کا ذریعہGetty Images
سنہ 2018 میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چینی سولر پینلز پر ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد سے چین مستقبل کے ایک ایسے عالمی منظر نامے کی تیاری کر رہا ہے جس کی قیادت امریکہ کے ہاتھ میں نہیں ہو گی۔
چین نے گلوبل ساؤتھ کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی غرض سے متنازع بیلٹ اینڈ روڈ نامی پروگرام میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے۔
چین کی جانب سے جنوب مشرقی ایشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ کے ساتھ تجارت میں توسیع ایک ایسے وقت میں کی جا رہی ہے جب بیجنگ خود کو امریکہ سے دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ایک وقت تھا کہ چین 40 فیصد سویا بین امریکی کاشتکاروں سے خرید رہا تھا۔ اب یہ شرح گَھٹ کر 20 فیصد رہ گئی ہے۔
پچھلی تجارتی جنگ کے بعد بیجنگ نے نہ صرف سویا بین کی مقامی سطح پر کاشت کو بڑھایا بلکہ برازیل سے ریکارڈ درآمدات بھی کیں۔ اب برازیل چین کا سب سے بڑا سویا بین سپلائر ہے۔
یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی کے آسٹریلیا چائنا ریلیشنز انسٹیٹیوٹ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر مارینا یو ژانگ کہتی ہیں کہ یہ ایک تیر سے دو شکار کرنے کے مترادف ہے۔ ان کے مطابق یہ نہ صرف امریکی کاشتکاروں کو ایک منافع بخش مارکیٹ سے محروم کرتا ہے بلکہ چین کے فوڈ سکیورٹی کے مسائل کو بھی کم کرتا ہے۔
دوسری جانب، اب چین کے برآمدکنندگان کے لیے سب سے بڑی مارکیٹ امریکہ نہیں جنوب مشرقی ایشیا ہے۔
سنہ 2023 میں چین 60 ممالک کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر تھا جو کہ امریکہ سے تقریباً دو گنا ہے۔ سنہ 2024 کے آخر میں چین کا تجارتی سرپلس 10 کھرب ڈالرز تھا جو اسے دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ بناتا ہے۔
تاہم اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اب امریکہ چین کا اہم تجارتی پارٹنر نہیں رہا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ضرور ہے اب واشنگٹن کے لیے چین کو دیوار سے لگانا اتنا آسان نہیں ہو گا۔
ایسی خبروں کے سامنے آنے کے بعد کہ وائٹ ہاؤس دیگر ممالک کے ساتھ ہونے والے تجارتی مذاکرات میں چین کو تنہا کرنے کی کوشش کرے گا، بیجنگ نے ان ممالک کو خبردار کیا ہے کہ وہ ’چین کے مفادات کی قیمت پر کسی معاہدے تک پہنچنے‘ کی کشش نہ کریں۔
دنیا کے دیگر ممالک کے لیے امریکہ اور چین کے درمیان کسی ایک کا انتخاب ایک ناممکن کام لگتا ہے۔
ملائیشیا کے وزیرِ ٹینگکو ظفرالعزیز نے گذشتہ ہفتے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان کا ملک کسی ایک کا انتخاب نہیں کر سکتا اور نہ کرے گا۔
چین جانتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کب پلک جھپکیں گے

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اپریل کے اوائل میں محصولات کے اعلان کے بعد سٹاک میں کمی کے بعد ٹرمپ ابتدائی طور پر تو اپنے موقف پر قائم رہے لیکن جلد ہی انھیں یو ٹرن لینا پڑا۔
امریکی حکومت کے بانڈز کی زبردست فروخت کے بعد ٹرمپ نے بیشتر ٹیرف کے نفاذ کو 90 دنوں کے لیے مؤخر کر دیا۔ ان بانڈز کو ایک محفوظ سرمایہ کاری کے طور پر دیکھا جاتا تھا تاہم تجارتی جنگ کے بعد اس تاثر میں تبدیلی آئی ہے۔
ٹرمپ نے اس کے بعد چین کے ساتھ تجارتی تناؤ میں کمی کا اشارہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ چینی اشیا پر محصولات ‘کافی حد تک کم کر دیے جائیں گے لیکن یہ صفر نہیں ہوں گے۔’
ماہرین کے مطابق بیجنگ اب جانتا ہے کہ بانڈ مارکیٹ ٹرمپ کی کمزوری ہے۔
چین کے پاس 700 ارب ڈالرز مالیت کے امریکی حکومت کے بانڈز بھی ہیں۔ صرف جاپان ایک ایسا ملک ہے جس کے پاس چین سے زیادہ امریکی بانڈز ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے بیجنگ کو برتری حاصل ہوتی ہے۔ چینی میڈیا تواتر سے امریکی بانڈز کو بطور ’ہتھیار‘ استعمال کرنے کی بات کرتا آیا ہے۔
تاہم ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایسی صورتحال سے چین بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
ایسے کسی اقدام کے نتیجے میں بیجنگ کو بانڈ مارکیٹ میں کی گئی اپنی سرمایہ کاری پر بھاری نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے اور چین کی کرنسی یوآن بھی غیر مستحکم ہو گی۔
ڈاکٹر ژانگ کا کہنا ہے کہ چین صرف ‘ایک حد تک’ بانڈز امریکی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسے چین سودے بازی کے لیے تو استعمال کر سکتا ہے لیکن یہ کوئی مالی ہتھیار نہیں۔
نایاب معدنیات پر آہنی گرفت

،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایک چیز جسے چین بطور ہتھیار استعمال کر سکتا ہے وہ ہے نایاب معدنیات کو نکالنے اور ان کو بہتر بنانے میں اس کو حاصل قریب قریب اجارہ داری ہے۔ یہ نایاب معدنیات جدید ٹیکنالوجی کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں۔
چین کے پاس ڈیسپروسیم کے وسیع ذخائر موجود ہیں جو الیکٹرک گاڑیوں اور ونڈ ٹربائنز کے مقناطیس بنانے میں استعمال ہوتا ہے جبکہ جیٹ انجنوں کو گرم ہونے سے سے بچانے کے لیے کی جانی والی کوٹنگ میں استعمال ہونے والے اٹریم کے بڑے ذخائر بھی چین میں موجود ہیں۔
ٹرمپ کی جانب سے تازہ ترین ٹیرف کے جواب میں چین نے سات نایاب معدنیات کی امریکہ ایکسپورٹ پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ان میں سے کچھ معدنیات مصنوعی ذہانت کی چپس بنانے کے لیے ضروری ہیں۔
انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق، دنیا بھر میں نایاب معدنیات کی پیداوار کا 61 فیصد چین سے آتا ہے جبکہ ان کی تطہیر کا 92 فیصد کام چین میں ہوتا ہے۔
آسٹریلیا، جاپان اور ویتنام نے نایاب معدنیات کی کان کنی شروع تو کر دی ہے لیکن چین کو اس سپلائی چین سے باہر کرنے میں کئی سال لگیں گے۔
سنہ 2024 میں چین نے مختلف مینوفیکچرنگ کے عمل کے لیے اہم اینٹیمونی کی برآمد پر پابندی لگا دی تھی۔ اس کے بعد اینٹیمونی کی قیمت دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی تھی۔
اب خدشہ یہ ہے کہ ایسا ہی کچھ نایاب معدنیات کی مارکیٹ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں الیکٹرک گاڑیوں سے لے کر دفاع تک مختلف صنعتیں سے متاثر ہو سکتی ہے۔
جنجر انٹرنیشنل ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ کے ڈائریکٹر تھامس کرومر نے ماضی میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ہر وہ چیز جسے آپ آن، آف کر سکتے ہیں نایاب معدنیات پر چلتا ہے۔
‘امریکہ کی دفاعی صنعت پر اس کا بہت گہرا اثر پڑے گا۔’
SOURCE : BBC