SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایک گھنٹہ قبل
ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اگر آپ باقاعدگی سے دوسروں کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے ہیں تو آپ زیادہ خوش اور جذباتی طور پر زیادہ پرسکون محسوس کرتے ہیں۔
گو کہ ہر روز مل بیٹھ کر کھانا کھانا بعض اوقات ممکن نہیں ہو پاتا۔ تاہم ماہرین کے مطابق ایک ساتھ کھانا ہماری جذباتی صحت کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوتا ہے جبکہ اس کے ساتھ یہ کھانے والوں کی بھوک میں صحت مند اضافے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
اس مضمون میں ہم ایک ساتھ مل کر کھانا کھانے کے فوائد کا جائزہ لیں گے۔
اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک ساتھ کھانا خوشی کا باعث بنتا ہے، کیونکہ ایک ساتھ مل بیٹھنے سے اہلخانہ یا لوگوں کے درمیان باہمی تعلق مضبوط ہوتا ہے۔
یہ بھی پتا چلا ہ کہ وہ بچے اور نوعمر افراد جو اپنے اہلخانہ کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں اُن کی غذا زیادہ صحت مند ہوتی ہے جن میں پھل، سبزیاں اور دیگر ضروری غذائی اجزا شامل ہوتے ہیں۔
شواہد یہ بھی بتاتے ہیں کہ گھر میں اپنے اہلخانہ کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نوجوانوں میں وزن بڑھنے اور موٹاپے کے خطرے کو بھی کسی حد تک کم کرتا ہے۔
یقیناً یہ ایک پیچیدہ موضوع ہے کیونکہ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ایک ساتھ کھانے کے اثرات کو دیگر عوامل سے الگ کرنا ممکن نہیں۔
مثال کے طور پر وہ گھرانے جو ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں اُن کے مالی حالات عموما بہتر ہوتے ہیں جس کے باعث وہ صحت بخش غذا خرید سکتے ہیں۔ یا پھر ایسے خاندانوں میں بہت سے لوگوں کے لیے کھانا تیار کرنے اور پکانے کے لیے وسائل دستیاب ہوتے ہیں جو کہ کئی ایسے خاندانوں کو دستیاب نہیں ہوتے جو اکھٹے کھانا نہیں کھا پاتے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ کچھ خاندانوں کے لیے گھر میں سب کے ساتھ مل کر کھانے کے باقاعدہ معمول کو اپنانا ممکن نہیں ہوتا اور اہلخانہ کو ایسے مشترکہ شیڈول یا ضابطے پر عمل پیرا کرنے کے لیے مجبور کرنا خاندان کے بعض افراد میں ذہنی دباؤ پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
تاہم نفسیات اور غذائیت کے ماہرین اس رائے سے متفق ہیں کہ ایک ساتھ کھانا خاندان کے ہر فرد، خاص طور پر بچوں اور نوعمروں، کے لیے جذباتی اور جسمانی طور پر فائدہ مند ہوتا ہے۔
اس حوالے سے کلینیکل ماہر نفسیات لنڈا بلیئر کہتی ہیں کہ ’تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ جو لوگ اکیلے کھانا کھاتے ہیں وہ عموماً کھانے کے عمل پر توجہ نہیں دے پاتے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ کھا لیتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے بھی۔‘
اُن کے مطابق ’دوسروں کے ساتھ مل بیٹھ کر کھانے کا عمل آپ کو اپنے کھانے پر توجہ فراہم کرنے کا موقع دیتا ہے اور چونکہ ہم جانتے ہیں کہ بے دھیانی سے کھانا نقصان دہ ہے تو اس کا سب سے بہترین علاج یہی ہے کہ مل بیٹھ کر کھایا جائے۔‘
کھاتے وقت بچوں کے بہانوں سے نمٹنے کا نسخہ

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
بچوں کی غذائیت کی ماہر کیتھرین لیپ کے مطابق مناسب نشوونما کی بنیاد بچوں کی زندگی کے ابتدائی برسوں میں بنتی ہے اور میز یا دسترخوان کے آس پاس دوسروں کے ساتھ مل کر کھانے سے لطف اندوز ہونا اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اُن کے مطابق ’بچوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ کھانا دیکھ کر یا دھیان اور توجہ سے کھائیں۔ جب آپ سب ایک ہی دسترخوان پر اکٹھا کھانا کھاتے ہیں تو بچے اس صورت میں مختلف ذائقوں کا مزہ چکھ سکتے ہیں اور یہ سمجھ سکتے ہیں کہ مختلف کھانے کی شکل، بُو اور ذائقہ کیسا ہوتا ہے۔‘
اگر بچے اکیلے کھانا کھانے کے دوران بہانے تلاش کرتے ہیں یا کھانے پر تنقید کرتے ہیں تو اکھٹے بیٹھ کر مختلف کھانوں کو دیکھنے اور چکھنے سے ان کی رائے میں تبدیلی آ سکتی ہے اور یوں وہ کھانے کی تعریف کرنے یا اس کو پسند کرنے لگتے ہیں۔
ان کے مطابق ’اگر کوئی کھانا نیا یا غیر معمولی ہے تو اس سے پہلے کہ آپ بچوں کو اسے کھانے کی تلقین کریں ان کے سامنے خود اس کو کھا کر بہترین مثال پیش کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے والدین اور ساتھ مل کر کھانے والے رول ماڈل کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘
کیتھرین لیپ کا کہنا ہے کہ ’دوسروں کو دسترخوان پر کھاتے ہوئے دیکھ کر بچے یہ سیکھتے ہیں کہ سب کے ساتھ یا پبلک میں کیسے کھانا ہے اور یہ پہلو اہم ہے۔‘
اُن کے مطابق بعض اوقات والدین کے طور پر ہم جان بوجھ کر ایسی چیزیں کرتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے بھی کریں۔
’مثال کے طور پر جب ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے صحت بخش غذائیں کھائیں تو اس کے لیے پہلے ہم خود وہ صحت بخش غذا کھاتے ہیں اور ان کے سامنے جیتی جاگتی مثال بنتے ہیں کہ ایسی غذائیں خوشگواراور صحت بخش ہیں اور خاندانی طرز زندگی کا اہم حصہ ہیں۔‘
کھانے کی میز پر ٹھیک سے بیٹھنا اور کھا کر شُکر ادا کرنا اُن چیزوں کی مثالیں ہیں جو لاشعوری طور پر ہم بچوں کو کھانے کی میز کے ذریعے منتقل کرتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایک ساتھ کھانے پر بہتر بات چیت
لنڈا بلیئر کے مطابق ہر عمر کے بچے خصوصاً نوعمر آپ سے ایسی چیزوں کے بارے میں بات کرنا پسند کرتے ہیں جو انھیں پریشان یا اپ سیٹ کر رہی ہوتی ہیں، تاہم ان باتوں کو اُس وقت تک اپنے اندر دبائے رکھ سکتے ہیں جب تک کہ انھیں اپنے والدین کی مکمل توجہ نہ ملے۔
اُن کے مطابق ’جب آپ اکٹھا کھانا کھاتے ہیں، تو کم عمر بچوں کو براہ راست آپ کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور اس موقع پر وہ ہر بات بلاجھجک کہہ سکتے ہیں۔ کھانے کی میز پر وہ آپ کو ایسی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں جو وہ آپ سے عموماً اس وقت نہیں کہیں گے جب آپ انھیں خاص طور پر کہیں کہ ’چلو اب کہیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔‘
یہ فارمولا میاں بیوی اور خاندان کے دیگر افراد پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ایک ساتھ کھانا آپس میں تعلق کو بہتر کرنے اور میل ملاپ کا اچھا موقع ہوتا ہے۔
لنڈا کے مطابق ’عام طور پر کھانے کی میز پر ہونے والی گفتگو تعمیری ہوتی ہے نہ کہ تنقیدی۔‘
تاہم بہت سے خاندانوں کے لیے ایک ہی وقت میں ایک ساتھ کھانا ممکن نہیں ہوتا۔
ایک سروے سے پتا چلا ہے کہ صرف 28 فیصد خاندان رات کا کھانا اکٹھے کھاتے ہیں۔
سروے میں شامل زیادہ تر لوگ (تقریباً 55 فیصد) ایسا وقت تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور پانچ میں سے ایک گھر (19 فیصد) کے کام کا دورانیہ اس قدر طویل ہوتا ہے کہ ان کے پاس اپنے خاندان کے ساتھ کھانے کا وقت ہی نہیں بچتا۔
سروے میں شامل تقریباً ایک چوتھائی لوگوں (23 فیصد) نے بتایا کہ ان کے بچے اپنا کھانا ٹی وی اور موبائل کے سامنے بیٹھ کر کھاتے ہیں۔
تو آپ ایک ساتھ کھانے کے فوائد کیسے حاصل کر سکتے ہیں جب کہ ہر روز ایک وقت پر سب کا کھانے کی میز پر اکھٹا ہونا بھی ممکن نہیں ہوتا؟
تعداد نہیں بلکہ معیار اہم

،تصویر کا ذریعہGetty Images
لنڈا بلیئر کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں مقدار نہیں بلکہ معیار سے فرق پڑتا ہے۔
یعنی جب آپ ہفتے میں ایک یا دو بار بھی ایک ساتھ کھانا کھانے کی کوشش کریں گے، آپ اپنا مقصد حاصل کر لیں گے۔ ان کے مطابق گفتگو میں لچک ہونا ضروری ہے، خاص طور پر ان بچوں یا نوجوانوں کے ساتھ جو آپ کے مجبور کرنے پر میز پر تو ساتھ بیٹھ جاتے ہیں مگر شاید ڈائننگ ٹیبل پر ہونے والی بات چیت میں اچھی طرح سے حصہ نہ لیں۔
یاد رکھیں کہ نوعمروں کے دماغ تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں اور ان کے سوچنے سمجھنے کے نظام الاوقات بڑوں سے مختلف ہوتے ہیں۔
عموماً نوعمر سست نہیں ہوتے تاہم وہ صبح جلدی اٹھنے کے بجائے رات گئے تک جاگنا پسند کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے ساتھ ویک اینڈ پر صبح دیر سے ناشتہ کرنے کا منصوبہ بنائیں یا چھٹی کے دن رات کو دیر سے ڈنر کرنے کا پروگرام۔
لنڈا بلیئر کا کہنا ہے کہ خاندان کے تمام افراد کا ہر کھانے پر ایک ساتھ ہونا ضروری نہیں ہے۔
’مثال کے طور پر اگر آپ کا کوئی بچہ جم کلاس میں گیا ہے، تو یہ ایک اچھا موقع ہے کہ آپ اپنے دوسرے بچوں کے ساتھ بیٹھیں اور بات کریں اور پوچھیں کہ ان کے مشاغل کیا ہیں۔‘
کھانے کو ایک موقع بنائیں
لنڈا لیئر کھانے کے وقت میں باقاعدگی پر زور دیتی ہیں۔
’مثال کے طور پرآپ ہفتے کے آخر میں ایک مشترکہ لنچ یا رات کی پیزا پارٹی کا شیڈول بنا سکتے ہیں لیکن اس موقع پر کھانے کے چناؤ میں زیادہ سختی نہ کریں۔ یاد رکھیں کہ جب ایک ساتھ کھاتے ہیں، تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کیا کھاتے ہیں۔‘
کیتھرین لیپی تجویز کرتی ہیں کہ جب چھوٹے بچے بھی کھانے میں شامل ہوں، تو اس دوران تھوڑا سا مزاح اور تفریح کو بھی شامل کرنا بہتر ہے۔
اُن کے مطابق
- اپنے بچوں سے کھانا تیار کرنے میں مدد لیں کیونکہ کھانے کی تیاری میں اُن کی شمولیت ایک ساتھ کھانے کے عمل کو مزید دلچسپ بنا دیتی ہے
- بچوں کی عمر اور قابلیت کے مطابق کھانا پکانے، دسترخوان لگانے، سرونگ کرنے اور دسترخوان صاف کرنے میں حصہ لینے کی ترغیب دیں
- جب بچے محسوس کرتے ہیں کہ وہ کسی اجتماعی کوشش میں حصہ لے رہے ہیں تو وہ ساتھ بیٹھ کر کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں
فون دور رکھیں

،تصویر کا ذریعہGetty Images
متعدد مطالعات کے مطابق کھانے کے دوران ڈیجیٹل آلات کو ایک طرف رکھنے کے بہت سے فوائد ہیں۔
اس تحقیق میں کھانے کی میز پر فون کے استعمال اور اس کے نتیجے میں غیر صحت بخش کھانے کے انداز اور موٹاپے کے بڑھتے ہوئے خطرے کے درمیان تعلق کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔
کھانے کے دوران جب آپ موبائل فون یا ڈیجیٹل آلات سے مشغول ہوتے ہیں تو آپ کو احساس نہیں ہوتا کہ آپ کتنا کھا چکے ہیں۔
ایک اور نظریہ یہ ہے کہ جب بچے کھاتے وقت فون یا ٹیبلٹ کا استعمال کرتے ہیں تو وہ اپنے والدین یا بڑوں سے کھانے کے مناسب انداز اور کھانے کی عادات نہیں سیکھ پاتے۔
لنڈا بلیئر کا کہنا ہے کہ کھاتے وقت توجہ دینا ضروری ہے۔ کھانے میں عام طور پر 15 سے 20 منٹ لگتے ہیں اور اپنے سیل فون کو اتنی دیر کے لیے دور رکھنا مشکل نہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
کیتھرین لیپی کے مطابق ’باربی کیو اور آؤٹ ڈور ڈائننگ بھی اچھے آپشنز ہیں خاص طور پر اگر آپ کے چھوٹے بچے ہیں۔‘
اور اگر آپ کے گھر میں ڈائننگ ٹیبل نہیں ہے تو زمین پر چٹائی بچھائیں اور پکنک منائیں۔ یہ چیزیں ایک ساتھ کھانے کو مزید پُرجوش بناتی ہیں۔ یہاں تک کہ اگر آپ صوفے پر بیٹھ کر اکٹھے کھانا کھاتے ہیں، تو کم از کم ٹی وی بند کر دیں تاکہ کھاتے وقت آپ ایک دوسرے کا خیال رکھ سکیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ ایک ساتھ کھاتے ہیں وہ زیادہ خوش ہوتے ہیں، اپنی زندگی سے زیادہ مطمئن ہوتے ہیں، دوسروں پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں، سماجی سرگرمیوں میں زیادہ شامل ہوتے ہیں، اور زیادہ دوست رکھتے ہیں جو ایک دوسری کی مدد میں پیش پیش رہتے ہیں۔
آپ کو ایک ساتھ کھانے کے لیے مہنگے ریستورانٹ میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک اور سستا طریقہ یہ ہے کہ ہر دوست کے گھر کلاسز کا اہتمام کیا جائے جہاں ہر کوئی باری باری کھانا پکانے کی ذمہ داری لے۔
یا اگر آپ ہمیشہ دوستوں کو اپنے گھر مدعو کرنا چاہتے ہیں تو ان سے کہیں کہ وہ اپنا کھانا ساتھ لے کر آئیں۔
SOURCE : BBC