SOURCE :- BBC NEWS

 سلائیڈ

،تصویر کا ذریعہPAF

  • مصنف, منزہ انوار
  • عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد
  • 24 منٹ قبل

پاکستانی فضائیہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے انڈیا کے بیشتر جدید ڈرونز اور براہموس میزائلوں کو ’سافٹ کِل‘ کے ذریعے ناکارہ بنایا اور انھیں اپنے ہدف یعنی پاکستانی افواج کی عسکری تنصیبات بشمول ایئربیسز تک پہنچنے سے روکا۔

دوسری طرف انڈین افواج کا دعویٰ ہے کہ اس نے بھی پاکستانی میزائلوں کو ’سافٹ‘ اور ’ہارڈ کِل‘ کے ذریعے ملک میں موجود ایئر بیسز کو نشانہ بنانے سے روکا۔

پاکستانی دعوے کے مطابق رفال سمیت پانچ انڈین طیاروں کے علاوہ 70 سے زیادہ ڈرونز مار گرائے گئے جبکہ انڈیا نے کم از کم ایک پاکستانی میراج طیارہ اور اس کے علاوہ کئی ڈرونز و میزائل مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے۔

دونوں ملکوں کی افواج نے طیاروں، میزائلوں اور ڈرونز کو مار گرانے کے اپنے نظام میں روایتی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ جدید الیکٹرانک آلات کا بھی ذکر کیا ہے۔

انڈیا اور پاکستان افواج کے ترجمانوں نے اپنی اپنی پریزنٹیشنز میں کئی نئی اصطلاحات استعمال کی ہیں جن میں ’سافٹ کِل‘، ’الیکٹرانک وار فیئر‘، ’سپیکٹرم وارفیئر آپریشز‘، ’سائبر اور سپیس ڈومینز‘ اور ’سٹینڈ آف ویپنز‘ شامل ہیں۔

اس مضمون میں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ انڈیا کے براہموس میزائلوں کی صلاحیت کیا ہے اور پاکستان فضائیہ کے ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد نے جس ’جیمنگ‘ اور ’سپوفنگ‘ کا ذکر کیا، وہ کیا ہوتی ہے۔

پاکستانی فضائیہ نے کیا دعویٰ کیا؟

PAF

،تصویر کا ذریعہPAF

پاکستان کے ڈپٹی چیف آف سٹاف آپریشنز ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد نے گذشتہ روز کی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کہ پہلے مرحلے میں ’جب پاکستانی فضائیہ نے انڈین فضائیہ کے لڑاکا طیاروں کو غیر فعال کیا تو ان کی فضائی سرگرمیاں مغربی سرحد پر محدود ہو گئیں۔ اس کے بعد انڈیا نے حکمتِ عملی بدلتے ہوئے پہلے ڈرونز اور پھر براہموس میزائل پاکستانی حدود میں بھیجنے شروع کیے۔‘

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ہمارے ریڈار سسٹمز نے ان کی آمد کو سرحد میں داخل ہونے سے پہلے ہی شناخت کر لیا تھا۔ فضائی دفاعی نظام ریڈار کراس سیکشن (RCS) والے، آہستہ رفتار اور اونچائی پر اڑنے والے پلیٹ فارمز کو بھی شناخت کر سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جب بھی ان کے میزائل اور ڈرون شہری یا حساس علاقوں کے قریب آئے ہم نے انھیں براہِ راست مار گرا کر ختم کیا۔‘

ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد نے دعویٰ کیا کہ ’جب ہم نے یو اے ویز ڈرونز حملوں کو ناکام بنانا شروع کیا تو دشمن نے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے زمین سے زمین پر مار کرنے والے ہتھیاروں کا استعمال شروع کیا۔‘

انھوں نے انڈیا کے سورَت گڑھ اور پاکستان کے فضائی اڈے رفیقی کو دکھاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’ہماری حدود میں 3000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے والے براہموس میزائل مسلسل داغے جا رہے تھے۔‘

ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد نے دعویٰ کیا کہ ’پاکستان ایئر فورس، آرمی اور نیوی کے اینٹی ڈرون اور میزائل سسٹمز نے دشمن کے یو اے ویز اور میزائلوں کو سپوفنگ، جیمنگ، سیٹلائٹ کمیونیکیشن کو جام کر تے ہوئے سائبر حملوں سے ناکارہ بنایا۔‘

اورنگزیب احمد نے دعویٰ کیا کہ ’ہمارے مقامی طور پر تیار کردہ سسٹمز نے انڈیا کے بھیجے گئے یو اے ویز اور میزائلوں کے جی پی ایس سسٹمز اور سیٹیلایٹ کمیونیکیشن (SatCom) میں خرابی پیدا کی جس کے نتیجے میں ’Soft kills induced GPS errors‘ (سوفٹ کل انڈیوسڈ جی پی ایس ایررز) ان کے یو اے ویز اور میزائل ہدف پر پہنچنے سے پہلے ہی راستہ بھٹک گئے یا انھیں ناکارہ بنا دیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پی اے ایف نے براہموس کے خلاف سافٹ اور ہارڈ کل صلاحیتوں سے جواب دیا۔ جی پی ایس میں خلل ڈال کر ہم نے ان کے ہدف پر مار کرنے کی صلاحیت کم کر دی۔ کچھ میزائلوں کو راستے میں ہی تباہ کر دیا گیا۔ ایک میزائل اپنے ہدف سے آگے نکل کر کسی غیر آباد علاقے میں گر گیا جس کی تصدیق ہمارے ریڈار ڈیٹا سے ہوتی ہے۔‘

’یہ ریڈار تصویریں دکھاتی ہیں کہ پی اے ایف نے ان میزائلوں کو لانچنگ کے وقت، پرواز کے دوران، اور آخری مرحلے میں بھی ٹریک کیا۔‘

ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد کا کہنا تھا کہ ’پی ایف کے مؤثر سینسر سے شوٹر گرڈ اور سافٹ و ہارڈ کل کی صلاحیتوں نے دشمن کے بہت سے حملے ناکام بنائے۔‘

انھوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ اگرچہ دشمن کے داغے گئے زیادہ تر میزائل حملوں کو ناکام بنا دیا گیا تاہم چونکہ ’وہ سینکڑوں میزائل داغ رہے تھے، اسی لیے کچھ اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔‘

PAF

،تصویر کا ذریعہPAF

یاد رہے انڈین فوج نے حالیہ تنازع میں پاکستان کے خلاف براہموس میزائل فائر کرنے کا اقرار نہیں کیا۔ اتوار کی شام پریس کانفرنس کے دوران جب انڈیا کے ایئرمارشل اے کے بھارتی سے اے این آئی سے وابستہ ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپریشن سندور میں براہموس کتنے مؤثر رہے تو انھوں نے براہِ راست اس کا جواب دینے سے گریز کیا اور کہا کہ ’میں نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ ہم نے کون سے مخصوص ہتھیار استعمال کیے یا ان کا کیا کیلبر تھا۔ یہ آپریشنل تفصیلات ہیں جن پر میں بات کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔‘

’اتنا کہنا کافی ہے کہ جو بھی طریقے اور ذرائع ہم نے منتخب کیے اُن کا دشمن کے اہداف پر مطلوبہ اثر ہوا۔‘

تاہم یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ اتوار کے روز اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے دعویٰ کیا کہ آپریشن سندور کے دوران پاکستان پر حملوں میں براہموس میزائل استعمال کیا گیا۔ وہ لکھنؤ میں براہموس ایرو سپیس انٹیگریشن اور ٹیسٹنگ مرکز کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔

انھوں نے کہا ’آپ نے آپریشن سندور کے دوران براہموس میزائل کی طاقت کی جھلک ضرور دیکھی ہوگی۔ اگر نہیں دیکھی تو پاکستان والوں سے پوچھ لینا کہ براہموس میزائل کی طاقت کیا ہے۔‘

’چلاؤ اور بھول جاؤ‘: آواز سے زیادہ تیز رفتار براہموس میزائل

Getty Images

،تصویر کا ذریعہGetty Images

براہموس سپرسونک میزائل ہیں اور اسے زمین، سمندر اور فضا سے داغا جا سکتا ہے۔

براہموس میزائل انڈین ’دفاعی تحقیق و ترقی کے ادارے‘ اور روس کی ’این پی او ۔ ماشینوسٹرائے اینیا‘ کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ ہے جنھوں نے مل کر براہموس ایروسپیس کا ادارہ بنایا ہے۔ 12 جون 2001 کو اس میزائل کا تجربہ کیا گیا اور اس کے ہائپرسونک ورژن پر کام ہو رہا ہے۔

’براہموس‘ دو الفاظ سے مل کر بنا ہے۔ یہ دو دریاﺅں کے نام ہیں۔ انڈین دریا ’براہما پترا‘ اور مغربی روس میں بہنے والا دریا ’موس کووف‘۔

براہموس ’ٹو سٹیج‘ میزائل ہے۔ اس میں سالڈ پروپیلنٹ بوسٹر یا ٹھوس ایندھن سے رفتار بڑھانے والا انجن نصب ہے جو پہلے مرحلے میں میزائل کو اس کے دھماکہ خیز حصے سے الگ کرنے سے قبل سپرسونک رفتار (یعنی آواز کی رفتار سے زائد تیز ) تک لے جاتا ہے اور پھر الگ ہو جاتا ہے۔

دوسرے مرحلے میں مائع ریم جیٹ (ہوا کی شمولیت سے چلنے والا جہاز کا نظام) حرکت میں آ جاتا ہے اور میزائل کو کروز فیز میں تقریباً ماک تھری کی رفتار تک پہنچا دیتا ہے۔ سٹیلتھ ٹیکنالوجی اور جدید ایمبیڈڈ سافٹ ویئر سے لیس گائیڈنس سسٹم میزائل کو خصوصی صلاحیتیں فراہم کرتا ہے۔

یہ میزائل پرواز کے دوران سپرسونک رفتار کے ساتھ 290 کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس سے پرواز کا وقت کم ہو جاتا ہے، ہدف کو خود کو بچانے کا وقت نہیں ملتا، اس کا حملہ تیز اور دنیا کے کسی بھی میزائل شکن دفاعی نظام سے اسے روکنا ناممکن ہو جاتا ہے۔

اس میں دشمن کے ’ریڈار‘ (جہازوں اور اڑتی اشیا کا سراغ لگانے کا نظام) سے بچنے کی صلاحیت موجود ہے۔

اسے ’فائر اینڈ فارگیٹ‘ یعنی ’چلاﺅ اور بھول جاﺅ‘ کے اصول پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے ہدف تک پہنچنے کے راستے کی مستقل نگرانی نہیں کی جاتی کیونکہ یہ ہدف کی جانب جاتے ہوئے مختلف ڈائریکشن اختیار کر سکتا ہے۔

اس کی تباہ کن طاقت اس کے تصادم کے وقت پیدا ہونے والی توانائی (kinetic energy) کی وجہ سے مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہ میزائل 15 کلومیٹر تک کی بلندی پر کروز کر سکتا ہے جبکہ اپنے ہدف پر صرف 10 میٹر کی انتہائی کم بلندی سے حملہ کرتا ہے اور 200 سے 300 کلوگرام وزنی وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

براہموس کی چار اقسام ہیں جن میں زمین سے زمین پر مار کرنے والا، فضا سے زمین پر، سمندر کی سطح سے زمین پر اور آبدوز سے مار کرنے والے میزائل شامل ہیں۔

سروس میں موجود اقسام:

  • زمین کی سطح سے زمین کی سطح تک داغا جانے والا میزائل
  • بحری جہاز سے فائر ہونے والا میزائل
  • زمین سے داغا جانے والا میزائل
  • فضا سے داغا جانے والا ورژن (Su-30MKI طیارے پر نصب)

یاد رہے کروز میزائل کی تین اقسام ہوتی ہیں۔ ’سب سونک‘ کروز میزائل آواز کی رفتار یا اس سے کچھ کم رفتار سے فاصلہ طے کرتے ہیں۔ دوسری قسم ’سپر سونک‘ میزائل کی ہے جو آواز کی رفتار سے تین گنا تیزی سے فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

جبکہ تیسری قسم ’ہائپر سپر سونک‘ میزائل جو آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیزی سے فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دفاعی ماہرین کا ماننا ہے کہ انڈیا ہائپر سپر سونک ورژن پر کام کر رہا ہے۔

یاد رہے سنہ 2022 میں ایک براہموس میزائل پاکستان میں بھی آن گرا تھا جس کے بارے میں انڈین وزارت دفاع کی جانب سے کہا گیا تھا کہ یہ میزائل حادثاتی طور پر انڈیا سے داغا گیا تھا۔

انڈیا نے دعویٰ کیا کہ میزائل حادثاتی طور پر پاکستان میں گرا جبکہ آئی ایس پی آر کے مطابق یہ ایک زمین سے زمین تک مار کرنے والا سپرسونک میزائل تھا جو پاکستان کی حدود میں 124 کلومیٹر اندر آ کر تباہ ہوا۔ پاکستانی عسکری ذرائع کا کہنا تھا کہ ایئر ڈیفنس سسٹم نے میزائل کو سرسا سے فائر ہوتے ہی ٹریک کرنا شروع کر دیا تھا۔

Reuters

،تصویر کا ذریعہReuters

’الیکٹرونک کاؤنٹر میئزر‘: جدید ہتھیاروں کو ناکارہ بنانے کا طریقہ

ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد نے اپنی پریس کانفرنس میں براہموس میزائلوں کو ناکارہ بنانے کے حوالے سے بارہا ’سوفٹ کل انڈیوسڈ جی پی ایس ایررز‘ کا ذکر کیا۔

اس کا مطلب ہے کہ کسی میزائل یا ڈرون جیسے ہتھیار کو تباہ کیے بغیر (یعنی اپنا میزائل چلائے بغیر) ’سوفٹ کل‘ تکنیک یعنی جیمنگ، سپوفنگ یا سائبر حملے کے ذریعے ان کے جی پی ایس نیویگیشن سسٹم میں خلل ڈال کر انھیں اپنے ہدف سے بھٹکا دیا جائے یا غلط جگہ پہنچا دیا۔

یہی وہ تکنیک ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے، پاکستانی فضائیہ کے مطابق، براہموس میزائلوں کو ناکارہ بنایا گیا۔

لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟

سینٹر فار ایروسپیس اور سکیورٹی سٹڈیز کے ڈائریکٹر اور ایئر وائس مارشل (ریٹائرڈ) ناصر الحق وائیں کے مطابق براہموس تقریباً ہائپر سونک میزآئل ہے اور ہائپر سونک اور کروز میزائلوں میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ براہموس جیسے ہائپر سونک میزائل دشمن کے ریڈار سے بچنے کے لیے کم بلندی پر پرواز کرتے ہیں اور جب ایک میزائل اتنی تیز رفتار سے زمین کے قریب پرواز کر رہا ہو تو اسے ہارڈ کل سے انٹرسیپٹ کرنا مشکل ہوتا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ ’اسی وجہ سے پاکستان ائیر فورس نے براہموس کو ہارڈ کل کے بجائے سپوفنگ، جیمنگ اور سگنل ڈینائل سے انٹرسیپٹ کیا ہے۔‘

ناصر الحق وائیں اس تکنیک کے لیے ’الیکٹرانک کاؤنٹر میئزر‘ کی اصطلاع استعمال کرتے ہیں جن میں جیمنگ، سپوفنگ اور الیکٹرک ڈینائل ایک ساتھ استعمال کیے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ الیکٹرانک کاؤنٹر میئزر کا سائبر کے ساتھ مل کر استعمال بہترین نتائج دے سکتا ہے۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ چونکہ براہموس کا ٹائم آف فلائٹ زیادہ ہوتا ہے لہذا اس کے اندر دو اہم مراحل ہوتے ہیں: پہلا مڈ کورس اور دوسرا ٹرمینل فیز۔ جب جہاز ٹرمینل فیز میں چلا جائے تو اس کچ روکنا مشکل ہو جاتا ہے لہذا مڈ کورس کے اندر جیمنگ تکنیک کا استعمال کرنا بہتر اور آسان ہوتا ہے۔

ایئر وائس مارشل ناصر الحق وائیں سابقہ پائلٹ اور تربیت یافتہ فلائنگ انسٹرکٹر ہیں۔ وہ کامبیٹ کمانڈرز سکول اور ایئر وار کالج سے سٹریٹیجک اور وار سٹڈیز اور ڈیفنس مینجمنٹ میں فارغ التحصیل ہیں۔

پاکستانی فضائیہ کے مقامی طور پر تیار کردہ نظام کے متعلق وہ بتاتے ہیں کہ ’حالیہ تنازع میں الیکٹرونک وار فئیر اور سائبر کا کمبینیشن سب سے زیادہ استعمال ہوا ہے۔‘

ان کا ماننا ہے کہ ’چونکہ زیادہ سسٹمز مقامی طور پر تیار کردہ تھے اس لیے ہمارے پاس ان کا زیادہ کنٹرول تھا۔‘

PAF

،تصویر کا ذریعہPAF

ناصر الحق وائیں بتاتے ہیں کہ گذشتہ آٹھ سے دس سال میں اور خصوصاً پچھلے چار پانچ سالوں میں پاکستانی فضائیہ نے ’سینٹرلائزڈ الیکٹرونک وار فئیر ڈاکٹرائن‘ پر کام کیا ہے اور اس حوالے سے ’ائیر ویپن کمپلیکس اور نیشنل ایروسپسس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نیسٹیک) میں ریسرچ اور چیزیں بنانے کا کام ہو رہا ہے۔‘

ان کے مطابق ’سینٹرلائزڈ الیکٹرونک وار فئیر ڈاکٹرائن‘ میں جو چیزیں استعمال ہو رہی ہیں ان میں:

  • گراؤنڈ بیسڈ الیکٹرونک وار فئیر (ای ڈبلیو) پلیٹ فارمز
  • ایئر بورن ارلی وارننگ اینڈ کنٹرول (AEW&C) پر لگے ائیر بورن جیمنگ سوئچ
  • اس کے علاوہ جے ایف 17 کے بلاک تھری پر بھی ایک بہتر قسم کا الیکٹرونک وار فئیر سوئچ موجود ہے

ناصر الحق وائیں کے مطابق جب ان الیکٹرونک وار فئیر پلیٹ فارمز کو اکھٹا اور سائبر وار فئیر کے ساتھ انضمام کیا جاتا ہے تو اسے ’سائبر الیکٹرونک اینٹیگریشن‘ کا نام دیتے ہیں۔

سابق ایئر وائس مارشل کے مطابق اس سائبر الیکٹرونک اینٹیگریشن کی وجہ سے نیویگیشن سسٹم کے تحت چلنے والے میزائل یا پروجیکٹائل کے اندر خلل پیدا کیا جا سکتا ہے اور اس خلل کے باعث اس میزائل کے اپنے ریڈار سیکر کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے تاکہ اس کے اندر ’فالس‘ قسم کی ریٹرنز آنا شروع ہو جائیں۔‘

یہاں قارئین کو سمجھانے کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ ریڈار اپنی لہریں پھینکتا اور واپس لیتا ہے جس کے ذریعے خود کو ماحول کی صورتحال سے آگاہ رکھتا ہے اور ہدف کا تعاقب کرتا ہے۔

ناصر الحق وائیں مزید بتاتے ہیں کہ ’جب آپ ریڈار کی لہریں واپس لینے والے سیکر کے اندر الیکٹروک سپوفنگ کر دیتے ہیں یا اسے غلط معلومات دے دیں یا اس کا لنک توڑ دیتے ہیں تو وہ ہدف کی طرف نہیں جا سکتا اور اس کے اندر ’سیلف ڈسٹرکٹ موڈ‘ ان ہو جاتا ہے یا وہ اپنے ہدف سے بھٹک کر کہیں اور گر جاتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر ٹیکٹیکل اور سٹریٹجک الیکٹرانک کاؤنٹر میئزر (ای سی ایم) سسٹمز زمین پر استعمال کے لیے خاص طور پر گاڑیوں پر نصب کیے جاتے ہیں اور یہ مختلف فریکوئنسی بینڈز پر سگنلز بھیجنے اور وصول کرنے کے لیے مخصوص اینٹینا استعمال کرتے ہیں۔

پاکستانی فضائیہ کے پاس الیکٹرونک وار فئیر کے سسٹمز کی رینج کے متعلق ایئر وائس مارشل ناصر الحق وائیں بتاتے ہیں کہ اس کی مؤثر رینج تقریباً 400 کلومیٹر تک ہے۔

اس کے ساتھ وہ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ ’لیکن جب گراؤنڈ کی 400 کلومیٹر صلاحیت کو فضا میں لیجایا جائے تو بے شک اس کا سائز چھوٹا ہوتا ہے لیکن مقابلے میں کوئی بھی رکاوٹ یا مداخلت نہ ہونے کی بدولت اس کی رینج بہت بڑھ جاتی ہے یعنی رینج 800 کلومیٹر تک بھی جا سکتی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ جب زمین اور فضا میں موجود نظام مل کر کام کرتے ہیں تو ان کی افادیت بڑھ جاتی ہے۔ ’الیکٹرونک وار فئیر کا مطلب وہ توانائی ہے جو آپ دور پھینکتے ہیں اور زیادہ بڑا پلیٹ فارم ہو گا تو زیادہ توانائی ہو گی۔ لیکن الیکٹرونک وار فئیر کو سائبر کے ساتھ ملا کر استعمال کرنے کی صورت میں کم چیز بھی بہتر نتائج دے سکتی ہے۔‘

خیال رہے اس سے قبل بالاکوٹ حملے کے بعد جب پاکستان نے ابھینندن ورتھمان کے طیارے کو گرایا تب بھی ای ڈبلیو یعنی ’الیکٹرانک وار فیئر‘ کی قیاس آرائیاں سامنے آئیں تھیں۔

آسان الفاظ میں ای ڈبلیو کا مطلب ہے آپ مخالف کے ہتھیار کو اندھا کر دیں، یعنی اس کی دیکھنے یا سننے کی صلاحیت ختم کر دیں۔

Open Source

،تصویر کا ذریعہOpen Source

اسلام آباد میں مقیم دفاعی امور کے ماہر سید محمد علی بھی ناصر الحق وائیں سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں لڑاکا طیاروں کی ’کائینیٹک کلز‘ (ہتھیاروں کے ذریعے ہدف کو مارنے کی صلاحیت) کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور جو چیز مخفی رہتی ہے وہ ’پاکستان کی انڈیا پر الیکٹرونک وار فیئر میں سبقت ہے اور پاکستانی فضائیہ نے حالیہ کچھ سالوں میں فضائی جنگ کی ڈاکٹرائن تبدیل کی ہے۔‘

بی بی سی بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اسی نئی ڈاکٹرائن کے تحت دوسرے ملکوں پر انحصار کو کم کرتے ہوئے مقامی سطح پر ریسرچ اور سسٹمز بنانے پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ براہموس انڈیا کا ’سب سے مہلک ہتھیار‘ ہیں اور ’اسے کنفیوژ، مس گائیڈ یا جیم کرنا تکنیکی حوالے سے بہت بڑی کامیابی ہے۔‘

سید محمد علی کے مطابق ’پاکستانی فضا میں میزائل داخل ہونے کے بعد اسے ریڈار سمیت بہت سے دیگر سینسرز سے ٹریک و مانیٹر کیا جاتا ہے اور اس کے فلائٹ پاتھ اور کہاں جا کر ہٹ کرے گا، اس کے مطابق یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اسے جیم کیا جائے، سپوف کیا جائے ہے یا اسے ہارڈ کل یا جائے (سرفیس ٹو ائیر میزائل سے روکا جائے)۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ آپشن سارے ہوتے ہیں مگرمیزآئل کو سافٹ یا ہارڈ کل کا فیصلہ ائیر ڈیفینس سسٹم موقع پر کرتا ہے۔

جب ایران نے امریکی ڈرون ’سپوفنگ‘ سے نیچے اتار لیا

social media

،تصویر کا ذریعہsocial media

دیگر ممالک کی بات کی جائے تو امریکہ اس کا استعمال ایران ، عراق اور افغانستان میں کر چکا ہے۔

سید محمد علی کے مطابق اس کی سب سے بہترین مثال وہ ہے جب امریکہ نے ایک جدید اور مہنگا ترین ڈرون (سٹیلتھ ڈرون RQ-170 Sentinel) ایران بھیجا۔ ایران نے اس وقت دعویٰ کیا تھا کہ اس ڈرون کو ناصرف نیچے اتار لیا گیا بلکہ ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی بھی ہو گئی۔

یوکرین روس جنگ، ایران اسرائیل کشیدگی اور آرمینیا آذربئیجان تنازعہ میں بھی اس تکنیک کا کافی استعمال ہوا ہے۔

ناصر الحق وائیں کے مطابق روس بھی سپوفنگ کرتا ہے جبکہ یوکرین نے روسی سسٹمز کی جیمنگ کے لیے مقامی ڈرون الگوردم بنائے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ اسرائیلی ایف 35 پر بھی بہت بہترین قسم کے الیکٹرونک وار فئیر پلیٹ فارمز نصب ہیں اور ایران یا شام کے ساتھ تنازعہ میں ان کا استعمال ہوا ہے۔

’جب اسرائیلی ایف 35 فوجی کارروائی کرنے جاتے تو شام میں ایس 300 یا 400 کی قسم کے سسٹمز انھیں الیکٹرونکلی سپوف یا جیم کر لیتے تھے۔‘

SOURCE : BBC