SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہgettyimages
- مصنف, منزہ انوار، عمیر سلیمی
- عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد
-
43 منٹ قبل
پاکستان اور انڈیا کے درمیان پہلگام حملے کے بعد تناؤ کی کیفیت میں ایک جانب جہاں پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ممکنہ حملے کا عندیہ دیا وہیں دوسری جانب اس تنازع میں چین کے کردار پر بھی بات ہو رہی ہے۔
کیا چین اور پاکستان کا تعاون انڈیا کو کارروائی کرنے سے روک سکتا ہے؟ چین اس تنازع میں پاکستان کی کس حد تک مدد کر سکتا ہے؟ اور سب سے اہم سوال یہ کہ چین کا اپنا مفاد کیا ہے؟
واضح رہے کہ چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا ہے کہ ’کشمیر میں حملے کے بعد چین پاکستان اور انڈیا کے درمیان بڑھتے تناؤ پر نظر رکھے ہوئے ہے۔‘
چینی وزارت خارجہ کے مطابق پاکستانی نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی درخواست پر اتوار کو ہونے والی بات چیت میں چینی وزیر خارجہ وانگ یی کا کہنا تھا کہ ’چین کو امید ہے کہ دونوں فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں گے اور تناؤ میں کمی لائیں گے۔‘
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں واقع پہلگام میں سیاحوں پر حملہ ٹھیک ایک ہفتہ قبل گذشتہ منگل کو ہوا تھا جس کے اگلے روز بدھ کو چین نے اس پر مذمتی بیان جاری کیا تھا۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ وہ ’ہر قسم کی دہشتگردی کی مخالفت کرتے ہیں‘ جبکہ انڈیا میں چینی سفیر بھی متاثرین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کر چکے ہیں۔
تاہم اس واقعے کے بعد اگرچہ اب تک انڈیا کی حکومت کی جانب سے باضابطہ طور پر پاکستان پر الزام نہیں لگایا گیا تاہم متعدد پاکستان مخالف اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن میں سندھ طاس معاہددے کو معطل کرنے کا اعلان بھی شامل ہے۔ دوسری جانب پاکستانی وزیر خارجہ کی جانب سے انڈیا کے ممکنہ حملے کا عندیہ دیے جانے کے ساتھ ساتھ کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان فائرنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
ایسے میں بی بی سی نے ماہرین سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ تناو کی کیفیت میں چین کا کردار کتنا اہم ہے اور وہ کس حد تک پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔
اس سے قبل یہ دیکھتے ہیں کہ چینی وزیر خارجہ نے پاکستان کے نائب وزیر اعظم سے بات چیت میں کیا کہا ہے۔
’سکیورٹی سے متعلق پاکستان کی جائز تشویش‘

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
چینی وزارت خارجہ کے مطابق پاکستانی نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے بات چیت میں وانگ یی کا کہنا تھا کہ انسداد دہشتگردی دنیا کے تمام ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور چین ہمیشہ پاکستان کے انسداد دہشتگردی کے لیے اقدامات کی حمایت کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’چین سکیورٹی سے متعلق پاکستان کی جائز تشویش کو سمجھتا ہے۔۔۔ (چین) خودمختاری اور سلامتی کے مفادات کے تحفظ کو لے کر پاکستان کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔‘
چینی وزارت خارجہ کے مطابق وانگ یی نے یہ بھی کہا کہ چین جلد از جلد غیر جانبدار تحقیقات کی حمایت کرتا ہے کیونکہ ’یہ لڑائی پاکستان یا انڈیا کے بنیادی مفادات سے موافقت نہیں رکھتی۔ نہ ہی یہ علاقائی امن اور سلامتی کے لیے سازگار ہے۔‘
انھوں نے یہ امید ظاہر کی کہ پاکستان اور انڈیا تناؤ میں کمی کے لیے تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔
خیال رہے کہ سنیچر کو پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے اس حملے سے متعلق انڈیا کے ’بغیر شواہد‘ لگائے گئے ’بے بنیاد‘ الزامات کی تردید کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پہلگام حملے پر ’غیر جانبدار اور شفاف‘ تحقیقات میں تعاون کے لیے تیار ہے۔
ادھر پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق وانگ یی سے گفتگو کے دوران اسحاق ڈار نے انڈیا کے ’یکطرفہ و غیر قانونی اقدامات اور پاکستان کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈا کو مسترد کیا۔‘
پاکستانی وزیر خارجہ نے ’مسلسل حمایت پر چین کا شکریہ ادا کیا۔‘
پہلگام حملے کی ’غیر جانبدار تحقیقات‘

،تصویر کا ذریعہgettyimages
اس حوالے سے بیجنگ میں مقیم سینئر فیلو تائے ہو انسٹیٹیوٹ اور چیئرمین ’ایشیا نیریٹیوز سب سٹیک‘ اینار ٹینگن کا ماننا ہے کہ ’انڈیا میں اس حملے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اور وہاں ایک قسم کی اجتماعی ہسٹیریا (پاگل پن جیسی کیفیت) پیدا ہو گئی ہے جہاں لوگ دعویٰ کر رہے ہیں کہ انھیں یقین ہے کہ یہ حملہ پاکستان نے کروایا ہے لیکن انھوں نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیے۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اینار ٹینگن نے کہا کہ انڈیا یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ جس تنظیم نے پہلگام حملہ کام کیا ہے، اس کا تعلق ایک اور تنظیم سے ہے جس کا مبینہ طور پر پاکستان سے تعلق ہے۔ ’یہ الزامات کا ایک طویل سلسلہ ہے جن کی تصدیق کے لیے ٹھوس اور مکمل شواہد درکار ہوں گے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ انڈیا کی پانی بند کرنے کی دھمکی نہایت سنگین معاملہ ہے۔ ’اصل سوال یہ ہے کہ کیا انڈیا واقعی اس پر کوئی عملی قدم اٹھائے گا؟ اگر ایسا ہوا تو دونوں ممالک کے درمیان تصادم کا خطرہ ہے لہٰذا امن قائم رکھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ پہلگام غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں اور ہر چیز حقائق کی بنیاد پر سامنے لائی جائے۔‘
’اور اس میں صرف پاکستان اور چین جیسے قریبی اتحادی شامل نہ ہوں بلکہ ترکی اور دیگر برکس جیسے دوسرے ممالک کو بھی شامل کیا جائے تاکہ تحقیقات شفاف اور فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔‘
اینار ٹینگن کہتے ہیں کہ ’حقائق واضح کرنا ضروری ہیں کیونکہ پاکستان نے کہا ہے کہ اس کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ پاکستان نے تو اس دہشت گرد حملے کی مذمت بھی کی ہے۔‘
’چین کو اپنے معاشی مفادات کا تحفظ چاہیے‘
پاکستان کو چین کے زیرِ اثر رہنے والے ممالک میں سرِفہرست سمجھا جاتا ہے اور دونوں ممالک کے کئی دہائیوں پر محیط دفاعی تعاون اور سفارتی تعلقات رہے ہیں۔ اس عرصے کے دوران معاشی اعتبار سے بھی پاکستان کا چین پر انحصار بڑھا ہے۔
چاہے بات جدید ہتھیاروں تک رسائی کی ہو، ہر سال مالیاتی خسارے سے نمٹنے کے لیے قرض کی یا دہشتگردی کی مالی معاونت سے متعلق ایف اے ٹی ایف کی سختیوں سے بچنے کی، کئی مواقع پر پاکستان نے چین کی مدد کا سہارا لیا ہے۔
اسی طرح چین پاکستان اقتصاری راہداری یعنی سی پیک کے تحت چین نے پاکستان میں 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ حال ہی میں ساحلی شہر گوادر میں ایئرپورٹ کا افتتاح کیا گیا جسے لاکھوں ڈالر کی چینی سرمایہ کاری سے تعمیر کیا گیا۔
چین اور پاکستان کی نہ صرف مشترکہ فوجی مشقیں ہوتی ہیں بلکہ پاکستان جدید ہتھیاروں کے لیے بڑے پیمانے پر چین سے خریداری کرتا ہے۔ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ہتھیاروں کی درآمد کا 81 فیصد حصہ چین سے خریدا گیا جبکہ چین نے 5.28 ارب ڈالر کے ہتھیار پاکستان کو فروخت کیے ہیں جو اس کی جانب سے ہتھیاروں کی عالمی برآمدات کا 63 فیصد حصہ ہے۔
پاکستان کی سابق سفارتکار تسنیم اسلم کا کہنا ہے کہ ’چین کو اقتصادی مقاصد کے لیے پاکستان کے ذریعے خلیجی ممالک تک رسائی حاصل ہوتی ہے مگر پاکستان میں چینی شہریوں پر بھی حملے کیے گئے ہیں۔ جبکہ چین اس خطے کا بڑا ملک ہے جس کے دونوں روایتی حریفوں کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں۔‘
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جیسے انڈیا پاکستان پر سرحد پار دہشتگردی کا الزام لگاتا ہے اسی طرح پاکستان بھی بلوچستان کے تناظر پر انڈیا کو قصوروار ٹھہراتا ہے مگر ’اب صرف دونوں طرف سے الزامات مسئلے کا حل نہیں۔ یہ چین کے مفاد میں ہے کہ خطے میں امن ہو، دہشتگردی نہ ہو۔ چین کو اپنے معاشی مفادات کا تحفظ چاہیے۔‘
تسنیم اسلم نے کہا کہ ’چین یا خطے کے دیگر ممالک پاکستان اور انڈیا کے درمیان ثالثی کا کردار نبھا سکتے ہیں مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسا نظام تشکیل دیا جائے جس میں غیر جانبدار انداز میں شواہد کی بنا پر ایسے واقعات کی تحقیقات دی جائے۔‘
سابق سفارتکار کا کہنا ہے کہ دونوں طرف عام لوگ مارے جا رہے ہیں تو اس کے لیے کوئی نظام بنانے کی ضرورت ہے جس میں دونوں ملکوں کے درمیان بڑے مسائل کا حل کیا جائے۔ ‘
انھوں نے کہا کہ ’چین، ایران یا کوئی بھی دوسرا ملک ہو۔ یہ سب کے مفاد میں ہے کہ یہاں لڑائی نہ بڑھے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’پاکستان نے غیر جانبدار تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی ہے لیکن درمیان میں کوئی ثالث ہونا چاہیے۔ چین یہ کردار نبھا سکتا ہے اور ایران نے بھی ثالث بننے کی پیشکش کی ہے۔‘
پاکستان کی چین سے توقعات کیا ہیں؟

،تصویر کا ذریعہgettyimages
انڈیا کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے تناظر میں پاکستان سفارتی اور دفاعی شراکت داری کے تحت چین سے کیا توقعات رکھتا ہے؟
اس حوالے سے اینار ٹینگن کہتے ہیں چین پاکستان کی ہمیشہ کی طرح حمایت کرتا رہے گا کیونکہ پاکستان چین کا تجارتی پارٹنراور دوست ہے ’لیکن اگر کوئی ایسے ثبوت ہوں جس سے یہ یقین کیا جا سکے کہ پاکستانی حکومت اس تنظیم کو فروغ دینے میں ملوث تھی جس نے پہلگام حملہ کیا یا اس حملے میں خود ملوث تھی، تو صورت حال تبدیل ہو سکتی ہے۔ لیکن غالباً ایسا نہیں ہے۔‘
اینار ٹینگن سنہ 2020 میں امریکہ اور انڈیا کے مابین معلومات کے تبادلے کے لیے کیے گئے معاہدے کا حوالے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں پاکستان اور چین نے بھی کچھ ایسا ہی کرنے کا فیصلہ کیا ’لیکن یہ معاہدہ کسی فوجی اتحاد جیسا نہیں ہے، اس وقت چین کا واحد ایسا معاہدہ شمالی کوریا کے ساتھ ہے۔‘
یاد رہے 2020 میں امریکہ نے انڈیا کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کا مقصد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیکیورٹی کے شعبے میں تعاون کو فروغ دینا اور معلومات کے تبادلے کو مزید مستحکم کرنا تھا۔
اس معاہدے کو بیسک ایکسچینج اینڈ کوآپریشن ایگریمنٹ (BECA) کہا جاتا ہے اور یہ امریکہ اور انڈیا کے مابین ایک اہم دفاعی معاہدہ ہے۔ بیسک ایکسچینج اینڈ کوآپریشن ایگریمنٹ دونوں ممالک کو سیٹلائٹ اور نقشوں کے ڈیٹا سمیت جغرافیائی انٹیلی جنس کا تبادلہ کرنے کی اجازت دیتا ہے تاکہ دفاعی اور سیکیورٹی امور میں بہتر تعاون اور ہم آہنگی پیدا ہو سکے۔

،تصویر کا ذریعہReuters
’چین ہمیشہ غیر جانبدار رہتا ہے‘
پاکستان چین تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے خارجہ امور کے ماہر اور قائداعظم انٹرنیشنل یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر محمد شعیب کا کہنا ہے کہ ’چین ہمیشہ غیر جانبدار رہتا ہے اور فریقین کو صبر و تحمل کی ہدایت دیتا ہے۔‘
’یہاں بھی وہ یہی کر رہا ہے، چین کی مجبوری یہ بھی ہے کہ ایک طرف وہ امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ میں مصروف ہے لہذا وہ انڈیا کے ساتھ نیا محاذ نہیں کھولنا چاہتا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ سنہ 2020 میں لداخ میں ہونے والی سرحدی کشیدگی کے بعد چین انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر بنا رہا ہے۔
پروفیسر شعیب کے مطابق انڈیا چین کا بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے لہذا وہ انڈیا کے ساتھ مستحکم تعلقات چاہتا ہے۔
پروفیسر شعیب کا ماننا ہے کہ ’چین کھل کر بات نہیں کرے گا بلکہ ہمیشہ کی طرح اشارے دے گا جیسا کہ حالیہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’چین سکیورٹی سے متعلق پاکستان کی جائز تشویش کو سمجھتا ہے۔۔۔ (چین) خودمختاری اور سلامتی کے مفادات کے تحفظ کو لے کر پاکستان کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔‘
پروفیسر شعیب کہتے ہیں کہ ’یہ ایک سگنل ہے کہ پاکستان خودمختار ملک ہے اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اگر پچھلی مرتبہ کی طرح اس بار بھی فیس سیونگ کے لیے بالا کوٹ جیسا کوئی حملہ ہوتا ہے تو بات پہلے راؤنڈ پر ہی ختم ہو جانی چاہیے۔‘
سفارتی محاذ پر چین پاکستان کی حمایت کیسے کر رہا ہے، اس حوالے سے پروفیسر شعیب کہتے ہیں کہ ’چین کا آپ کو فائدہ یہ ہے کہ جس طرح 2019 میں دنیا پاکستان پر چڑھ دوڑی تھی اس مرتبہ وہ سب نہیں ہوا۔‘
ان کا ماننا ہے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ چین ہے۔ وہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے حالیہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے پیچھے بھی چین ہے۔
سفارتی محاذ کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا بھی دنیا سے ویسی ہی سپورٹ چاہتا ہے جیسی اسرائیل نے حماس کے حملے کے وقت توقع کی تھی۔ کوئی بھی حملہ ہو وہ اس کا الزام پاکستان پر لگاتا آیا ہے مگر چین نے انڈیا کے سفارتی انفلوئنس کو کم کیا ہے اور دنیا کو بتایا کہ آپ پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کے لیے کی گئی کوششوں کو مانیں۔‘
’چین آ کر ہمارے پیچھے جنگ تو نہیں لڑے گا‘
پاکستان کی چین سے توقعات کے حوالے سے پروفیسر شعیب کہتے ہیں کہ ’پاکستان کے فیصلہ سازوں کو بھی اندازہ ہے چین آ کر ہمارے پیچھے جنگ تو نہیں لڑے گا نہ ڈائریکٹ انوالو ہو گا۔‘
وہ کہتے ہیں اگر یہ صورتحال سال پہلے بنی ہوتی تو شاید چین انٹیا کے ساتھ بارڈر پر کچھ موومنٹ کرتا جس سے انڈیا کو پیغام جاتا کہ دونوں سرحدوں پر لڑنا پڑے گا۔
تاہم وہ حالیہ سالوں میں چین انڈیا کے مابین بہتر ہوتے تعلقات کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ٹرینڈ ہمیں بتا رہے ہیں کہ چین انڈیا تعلقات بہتر ہو رہے ہیں، چین کے لیے بارڈر پر کوئی بھی موومنٹ بہت مشکل ہے، اس سے بڑا غلط سگنل جائے گا۔ لہذا چین چاہے گا کہ بات چیت سے معاملہ حل ہو جائے۔‘
پروفیسر شعیب پاکستان کے چین پر انحصار کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’ہم ترقی یافتہ قوم تو ہیں نہیں لہذا خاص کر سیٹیلائٹ کے حوالے سے ہم چین پر انحصار کرتے ہیں جس میں سب سے بڑی چیز انفارمیشن شئیرینگ ہے۔‘
’اور تاریخی لحاظ سے دیکھیں چین اس طرح کے معاملے میں دھوکہ نہیں دیتا۔‘
وہ بیڈو (Baidu) کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں ’ہم دنیا کا وہ پہلا ملک ہیں جن کے پاس بیڈو سسٹم کی ملٹری لیول ایکسس ہے۔‘
’انڈیا کے بہت سے سسٹم اپنے ہیں لیکن معلومات تک مسلسل رسائی کے لیے ہم چین پر انحصار کرتے ہیں اور اگلے چھ مہینوں میں جب ہم ان سے مختلف قسم کی معلومات (جہازوں اور فوجیوں کی موومنٹ دیکھنے وغیرہ) تک رسائی مانگیں گے تو اس میں ہمیں چینی مدد نظر آئے گی۔‘
یہاں آپ کو بتاتے چلیں کہ ’بیڈو‘ چین کی سب سے بڑی انٹرنیٹ اور مصنوعی ذہانت کی کمپنی ہے جو سرچ انجن، خودکار گاڑیوں اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ کی خدمات فراہم کرتی ہے۔ یہ گوگل کی طرح چین میں ویب سرچ اور اے آئی ٹیکنالوجیز میں لیڈنگ پلیئر ہے۔
’جن ہتھیاروں کی ضرورت ہے وہ چین سے آئے ہیں‘
اس کے علاوہ پاکستان بی وی آر میزائلوں کے لیے بھی چین پر انحصار کرتا ہے۔ پروفسیر شعیب سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کا حوالے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان میں تقریباً 80 فیصد سامان چین سے آتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے گذشتہ پانچ سال میں جو جدید ہتھیار بنائے ہیں ان پانچ میں سے چار چین سے آئے ہیں یا چین کی مدد سے بنے ہیں اور یہ بالکل وہی ہتھیار ہیں جن کی آپ کو انّڈیا کے ساتھ شوڈاؤن کی صورت میں ضرورت ہو گی۔
پروفسیر شعیب کے مطابق ہمیں سفارتی سطح پر چین کی ضرورت ہے، انفارمیشن کے لیے بھی اور ہتھیاروں کے لیے بھی۔ میزائل اور ریڈاروں سے لے کر پاکستان ہر باکس چیک کرنے کے لیے چین پر انحصار کرتا ہے۔۔۔۔ تاہم وہ اسے ’کریٹیکل ڈپنڈنس‘ بھی قرار دیتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہgettyimages
’چین اپنے وعدوں کی پاسداری کرے گا‘
اینار ٹینگن کا کہنا ہے کہ بیجنگ اسلام آباد کے اس مطالبے کی مکمل حمایت جاری رکھے گا کہ پہلگام حملے کی غیر جانبدار اور شفاف تحقیقات کرائی جائیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر روس، امریکہ، انڈیا اور پاکستان مل کر فوری اور جامع تحقیقات میں حصہ لیں تو یہی اس معاملے کو حل کرنے کا سب سے مؤثر اور قابلِ قبول طریقہ ہوگا۔
اینار ٹینگن کے مطابق چین انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پاکستان کی مدد جاری رکھے گا۔
’جہاں تک داخلی معاملات کا تعلق ہے تو چین اور پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے رکن ہیں اور چین اس پلیٹ فارم کے تحت اپنے وعدوں کی پاسداری کرے گا۔ دفاعی اعتبار سے چین پاکستان کا سب سے اہم علاقائی شراکت دار ہے لیکن یہ شراکت داری اندرونی سلامتی اور دفاع کے لیے ہے اور اس کا کی دوسرے ملک سے جارحیت سے کوئی تعلق نہیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ چین نے پاکستان کو پی ایل 15 میزائل فراہم کیے ہیں مگر غالب امکان یہی ہے کہ یہ پہلے سے طے شدہ معاہدے کا حصہ ہیں اور ان کا کسی حالیہ واقعے سے تعلق نہیں ہے۔
یاد رہے پی ایل -15 اور ایس ڈی-10 جیسے میزائل چین کی جدید بی وی آر ٹیکنالوجی سے بنے ہیں۔ یہ میزائل طیاروں کو طویل فاصلے سے فضائی اہداف کو تباہ کرنے کی صلاحیت فراہم کرتے ہیں۔
کیا چین-پاکستان دفاعی تعاون انڈیا کو حملے سے باز رکھ سکتا ہے؟
اینار ٹینگن کا ماننا ہے کہ اس کی وجہ پاکستان چین دوستی یا چین کی پاکستان کے لیے سپورٹ نہیں بلکہ بنیادی وجہ جو انڈیا کو حملے سے باز رکھے ہوئے ہے وہ یہ ہے کہ دونوں جوہری طاقتیں ہیں۔
تاہم تجزیہ کار پروفیسر شعیب کا ماننا ہے کہ چائنہ فیکٹر کا کردار یقیناً اہم ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ انڈیا بہت عرصے سے ’ٹو فرنٹ وار‘ کی بات کرتا آ رہا ہے یعنی انڈیا پاکستان سے لڑائی مول لے سکتا ہے لیکن انڈیا کے فیصلہ ساز اس بات کی پیش گوئی نہیں کر سکتے کہ چین اس پر کیا ردِعمل دے گا اور ’جنگ میں ہر وہ چیز جو دھندلی ہو، وہ نیگیٹو ہے۔‘
پروفیسر شعیب کہتے ہیں کہ انڈس واٹر ٹریٹی کے حوالے سے چین فیکٹر بہت اہم ہے۔ ’جب یہ شور شرابا کم ہو گا تو انڈینز کو سوچنا پڑے گا کہ اگر ہم پاکستان کے پانی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں تو یہ سارا پانی جو تبت سے آ رہا ہے، اس صورت میں تبت کیا کرے گا۔‘
وہ کہتے ہیں ’انڈیا اپنا کیس پیش کرنے کی پوزیشن بھی کھو دے گا کیونکہ چین کہے گا کہ آپ کی اپنی پریکٹس یہی ہے۔‘
SOURCE : BBC