SOURCE :- BBC NEWS

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

30 منٹ قبل

ہم سب مانتے ہیں کہ انسانی جان انمول ہے۔ کوئی اخلاقی، تہذیبی یا روحانی پیمانہ ہو، زندگی کی قدر و قیمت سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن اگر ہم زندگی کی قیمت کو صرف مالیاتی یا معاشی اصطلاحوں میں ناپنا چاہیں تو کیا ایسا ممکن ہے؟ اگر ہم یہ جاننا چاہیں کہ ایک انسان کی قیمت کسی کرنسی میں کتنی ہے تو کیا انسانی جان کی کوئی قیمت لگائی جا سکتی ہے؟ اور اگر جان کی کوئی قیمت ہے تو وہ قیمت ایک جیسی کیوں نہیں ہوتی؟

صحافی و براڈکاسٹر جینی کلیمن نے انھیں سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی جستجو میں کتاب ‘دی پرائس آف لائف’ لکھی ہے۔ اگر آپ یہ کتاب پڑھنا چاہیں تو ایمازون پر باآسانی مل سکتی ہے۔

بی بی سی پوڈ کاسٹ ’مور اور لیس‘ میں جینی کلیمن بتاتی ہیں کہ انھیں انسانی جان کی قیمت کا اندازہ لگانے کا خیال کیسے اور کہاں سے آیا اور اس کتاب کی تحقیق کے لیے انھیں کن افراد سے ملنا پڑا۔

مصنفہ نے اس کتاب میں جو انکشافات کیے ہیں وہ حیرت انگیز ہی نہیں بلکہ جھنجھوڑنے والے ہیں۔

جینی کلیمن نے یہ کتاب لکھنے کا فیصلہ کوڈ 19 کی وبا کے دوران کیا جب انھوں نے محسوس کیا کہ دنیا بھر کی حکومتیں انسان زندگی کی قیمت کا بہت بے رحمانہ تجزیہ کر رہی ہیں۔

قاتل کا ریٹ (زندگی ختم کرنے کی قیمت)

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کتاب کی تحقیق کے دوران مصنفہ حیرت انگیز مقامات پر گئیں۔ کبھی تو وہ ٹیکساس کی اسلحہ فیکٹری میں گئیں جہاں دنیا کے مہنگے ترین ہتھیار بنتے ہیں اور کبھی وہ پیشہ ور قاتلوں سے ملیں۔

کتاب کا آغاز ایک چونکا دینے والے باب سے ہوتا ہے جہاں مصنفہ ایک مافیا کے پیشہ ور قاتل سے ملاقات کرتی ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ ایک قتل کی ’قیمت‘ کیا ہوتی ہے۔ یہ قاتل، جو ’کیلکولیٹر‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، نیویارک کی مافیا فیملی کے لیے کام کر چکا تھا۔

اُس کا کہنا تھا کہ وہ ہر قتل پر کوئی مخصوص اُجرت نہیں لیتا تھا بلکہ اُسے ہر قتل کے عوض کاروبار میں حصے، پارکنگ کے ٹھیکے یا دیگر معاشی مواقع دیے جاتے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ اس قاتل نے درجن بھر لوگوں کو قتل کرنے کا اعتراف کیا مگر اس کے مطابق اس نے اپنی زندگی میں تقریباً دس کروڑ ڈالر کمائے۔ یعنی ایک قتل کی اوسط قیمت 20 لاکھ ڈالر بنتی ہے۔

لیکن جینی کلیمن کی تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قتل کی اصل قیمت اکثر قاتل کی ضرورت، غربت یا خطرے کی سطح پر منحصر ہوتی ہے۔ برطانیہ میں ایک قتل کروانے کی اوسط قیمت صرف 15 ہزار پاؤنڈ ہے۔ اس قیمت میں برطانیہ میں صرف ایک سیکنڈ ہینڈ فیملی کار ہی خریدی جا سکتی ہے۔

حادثات، دہشت گردی اور زرِ تلافی

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

وہ بتاتی ہیں کہ دنیا کی سب سے سستی اور سب سے مہنگی زندگیاں افغانستان میں پائی جاتی ہیں۔

افغانستان کے کچھ غریب باپ اپنی بیٹی کو 500 ڈالر تک میں فروخت کر سکتے ہیں جبکہ اِسی افغانستان میں امریکی حکومت کسی طالبان جنگجو کی زندگی ختم کرنے کے لیے دسویوں لاکھ ڈالر خرچ کرنے کو تیار تھی۔

لیکن شاید سب سے زیادہ پریشان کُن چیز معاوضے کی غیر منصفانہ تقسیم تھی۔ جینی نے سنہ 2017 میں لندن برج پر ہونے والے دہشتگردانہ حملے کی مثال دی ہے۔ اُس حملے میں آٹھ افراد مارے گئے تھے۔ اُن میں سے دو افراد ایک وین کے نیچے آ کر ہلاک ہوئے اور ان کے اہلخانہ کو وین کمپنی نے فی کس تقریباً 15 لاکھ پاؤنڈ کا ہرجانہ ادا کیا گیا۔

مگر اِسی حملے میں انھی دہشت گردوں کے ہاتھوں جب چھ افراد چاقو سے مارے گئے تو اُن کے ورثا کو صرف حکومتی معاوضہ ملا، جو کہ برطانوی قانون کے مطابق صرف 11ہزار پاؤنڈ تھا۔ یعنی ایک ہی حملے، ایک ہی مجرم اور چند سیکنڈ کے فرق سے انسانی زندگی کی مالی قیمت میں 140 گنا فرق آ گیا۔

زندگی کو جنم دینے کی قیمت

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انسانی زندگی کی قیمت صرف ختم کرنے یا اس کے ضیاع پر ہی نہیں بلکہ اسے پیدا کرنے میں بھی جُڑی ہوتی ہے۔

اگر کوئی جوڑا قدرتی طریقے سے بچہ پیدا کرنے کے قابل نہ ہو تو جدید طبی سہولیات مثلاً آئی وی ایف اُن کی مدد کر سکتی ہیں۔ برطانیہ میں آئی وی ایف علاج کی اوسط لاگت 13,700 پاؤنڈ بنتی ہے۔ اگرچہ برطانوی ادارہ صحت، این ایچ ایس، کسی حد تک مفت علاج فراہم کرتا ہے لیکن بیشتر لوگ یہ اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں۔

مزید برآں، ہم جنس پرست مرد جوڑوں کے لیے بچہ پیدا کرنا اِس سے کہیں زیادہ مہنگا ہوتا ہے کیونکہ انھیں نہ صرف اس کا خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے بلکہ سروگیسی (کرائے کی کوکھ) کے اخراجات بھی دینے پڑتے ہیں۔

امریکہ میں اس عمل پر آنے والا کل خرچ تقریباً 280,000 ڈالر ہے۔ یعنی اگر آپ حیاتیاتی طور پر خوش قسمت نہیں، تو شاید آپ کو والدین بننے کا حق صرف دولت سے ہی ملے گا۔

زندگی بچانے کی قیمت

ایک طرف تو زندگی کا خاتمہ اور اُس کی پیدائش مہنگی ہے، تو دوسری طرف، کسی زندگی کو بچانا بھی ایک عددی معاملہ بن چکا ہے۔ ’گیو ویل‘ نامی تنظیم کے مطابق افریقہ میں ایک بچے کی جان بچانے پر آنے والا مؤثر خرچ تقریباً پانچ ہزار ڈالر ہے۔ یہ رقم بظاہر زیادہ لگے گی لیکن جب ہم دوسرے ’قیمت والے‘ اعداد پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ رقم ایک زندگی کے لیے معمولی محسوس ہونے لگتی ہے۔

مصنفہ بتاتی ہیں کہ جب انھوں نے کووڈ 19 کے لاک ڈاؤن کی لاگت کا جائزہ لیا تو وہ حیران رہ گئی۔ برطانوی حکومت بچاؤ پر دیگر بیماریوں کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ خرچ کر رہی تھی۔ لاک ڈاؤن کے ذریعے ایک زندگی بچانے کی لاگت ایک لاکھ اسی ہزار پاؤنڈ فی شخص سالانہ تھی، جبکہ برطانوی محکمہ صحت این ایچ ایس عام طور پر دیگر بیماریوں سے بچاؤ پر صرف 20 سے 30 ہزار پاؤنڈ سالانہ خرچ کرتا ہے۔

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

موت کے بعد کی قیمت باقی ہے

سب سے لرزہ خیز حقیقت شاید یہ ہے کہ انسان کی قیمت موت کے بعد بھی لگتی ہے۔

سنہ 2017 میں ’سی این این‘ کی ایک رپورٹ نے انکشاف کیا گیا کہ لیبیا میں غلاموں کی منڈی میں ایک انسان کو صرف 400 ڈالر میں بیچا جا رہا تھا۔ جبکہ امریکہ میں ایک مردہ جسم جسے میڈیکل تحقیق یا تدریسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور شپنگ چارجز کے بغیر پانچ ہزار ڈالر میں خریدا جا سکتا ہے۔ یعنی ایک زندہ غلام کی قیمت ایک مردہ جسم سے دس گنا کم ہو سکتی ہے۔

محدود وسائل کی دنیا میں یہ اعداد ہمیں بتاتے ہیں کہ آئی وی ایف کے ذریعے بچہ پیدا کرنے اور کسی کو مارنے کے لیے کرائے کا قاتل بھرتی کرنے کی لاگت ایک جیسی ہو سکتی ہے۔ یہ ہماری ترجیحات کے بارے میں کچھ بتاتا ہے اور آج کی دنیا میں موجود عدم مساوات کو بے نقاب کرتا ہے۔

SOURCE : BBC