SOURCE :- BBC NEWS

- مصنف, نتالیہ زو
- عہدہ, بی بی سی آئی
-
ایک گھنٹہ قبل
ایبی وو چین میں کاسمیٹک سرجری کی ایک معروف انفلوئنسرز ہیں جن کی 100 سے زیادہ سرجریاں ہو چکی ہیں۔ پہلی کاسمیٹک سرجری کے وقت ان کی عمر صرف 14 سال تھی۔
ایبی نے ایک بیماری کے علاج کے لیے ہارمونل ٹریٹمنٹ کروایا جس کے بعد ان کا وزن صرف دو ماہ میں 42 کلوگرام سے بڑھ کر 62 کلوگرام ہو گیا۔
ان میں آنے والی اس تبدیلی کو ان کی ڈرامہ ٹیچر نے محسوس کر لیا۔ ایبی اس وقت اپنے ڈرامے کے امتحانات کی تیاری کر رہی تھیں۔
وہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میری ٹیچر نے کہا کہ آپ تو ہماری سٹار ہیں لیکن اب آپ بہت موٹی ہو گئی ہیں۔ یا تو (ڈرامہ) چھوڑ دیں یا پھر تیزی سے وزن کم کریں۔‘
ایبی کی والدہ ان کی مدد کے لیے آگے آئیں اور وہ انھیں پیٹ اور ٹانگوں سے چربی کم کرنے کے لیے لائپوسیکشن کروانے کے لیے لے گئیں۔
جب ایبی ہسپتال کے گاؤن میں اپنے آپریشن کا انتظار کر رہی تھیں تو اس وقت ان کی والدہ نے جو کہا تھا وہ انھیں آج بھی یاد ہے: ’ہمت کرو اور اندر چلو۔ باہر آتے ہی آپ خوبصورت نظر آؤ گی۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ سرجری تکلیف دہ تھی کیونکہ انھیں صرف جزوی اینستھیزیا دیا گیا تھا اور وہ پوری طرح ہوش میں تھیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’میں یہ دیکھ سکتی تھی کہ میرے جسم سے کتنی چربی نکالی جا رہی ہے اور میرا کتنا خون ضائع ہو رہا ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہAbby Wu

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
35 سال کی عمر میں ایبی کی 100 سے زیادہ کاسمیٹک سرجریاں ہو چکی ہیں۔ ان پر اب تک پانچ لاکھ ڈالر کی لاگت آ چکی ہے۔
وہ وسطی بیجنگ میں ایک بیوٹی کلینک کی شریک مالک ہیں اور چین میں پلاسٹک سرجری کو فروغ دینے والے سب سے زیادہ جانے پہچانے چہروں میں سے ایک بن گئی ہیں۔ لیکن انھیں ان سرجریوں کی بڑی قیمت چکانی پڑی۔
بیجنگ میں اپنے لگژری اپارٹمنٹ کے اندر آئنے کے سامنے بیٹھی وہ اپنے چہرے پر انجیکشن کے نشان کو کنسیلر سے ہلکے سے دباتی ہیں۔
انھوں نے چہرے کو دبلا پتلا کرنے کے لیے یہ انجیکشن لیے ہیں۔ جبڑے کو کم دکھانے کے لیے کی گئی تین سرجریوں کی وجہ سے ان کی ہڈیاں ہٹا دی گئی اور اس کی وجہ سے وہ ماہانہ یہ انجیکشن لیتی ہیں تاکہ ان کا چہرہ ’مستحکم اور پتلا‘ نظر آئے۔
اس کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ انھیں یہ سرجریاں کرانے پر کوئی پچھتاوا نہیں اور انھیں یقین ہے کہ ان کی والدہ نے برسوں پہلے ان کے لیے صحیح فیصلہ کیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’سرجری نے اپنا کام کیا۔ میں دن بہ دن زیادہ پر اعتماد اور خوش ہوتی جا رہی ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ میری ماں نے صحیح فیصلہ کیا تھا۔‘

،تصویر کا ذریعہAbby Wu
چین میں خوبصورت کے عجیب و غریب معیار
کبھی پلاسٹک سرجری کو چین میں بہت برا یا ممنوع سمجھا جاتا تھا لیکن گذشتہ 20 سال میں اس کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوا اور اس اضافے کی وجہ سوشل میڈیا کے آنے کے بعد سماجی رویوں میں تبدیلی اور آمدن میں اضافہ ہے۔
اب حال یہ ہے کہ ہر سال تقریباً دو کروڑ چینی شہری کاسمیٹک سرجری کے لیے پیسے خرچ کرتے ہیں۔
سرجری کرانے والی غالباً زیادہ تر نوجوان خواتین ہیں، جو خوبصورتی کے معیار پر پورا اترنے کے لیے دباؤ میں رہتی ہیں۔ ان میں سے 80 فیصد خواتین ہیں اور سرجری کی اوسط عمر 25 سال ہے۔
خیال رہے کہ چینی ثقافت میں بطور خاص خواتین کے لیے ظاہری شکل و صورت ہمیشہ سے اہم رہی ہے لیکن اب ملک میں خوبصورتی کے معیارات بدل رہے ہیں۔
برسوں سے خوبصورتی کے معیار میں دوہری پلکوں، تراشے ہوئے جبڑے، نمایاں ناک اور دلکش چہرہ شامل رہے ہیں لیکن حال میں قدرے زیادہ پریشان کن رجحان دیکھا جا رہا ہے، جس میں لوگ غیر حقیقی اور تقریبا بچے جیسی شکل کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔
بوٹوکس کے لیے اب کانوں کے پیچھے انجیکشن لگایا جاتا ہے تاکہ کان آگے کو جھکے ہوں اور اس سے چھوٹے اور نزاکت بھرے لطیف چہرے کا احساس ہو۔
اینیمیٹڈ فلموں کی ہیروئنز کی شیشے جیسی آنکھوں سے متاثر ہو کر اب نچلی پلکوں کی بھی سرجری کرائی جا رہی تاکہ آنکھیں بچوں کی طرح بڑی اور معصوم نظر آئیں۔
اسی طرح اوپری ہونٹ کو چھوٹا کرنے کی سرجری کرائی جا رہی ہے لیکن خوبصورتی کے اس پیکر کو زیادہ تر سکرین کے لیے بنایا گیا ہے۔ فلٹرز اور رِنگ لائٹس میں اس کے نتائج بے عیب نظر آسکتے ہیں۔
حقیقی زندگی میں یہ اکثر مصنوعی اور بچے جیسا لگتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہTikTok and RedNote

،تصویر کا ذریعہSoYoung
سوینگ (مطلب نیا آکسیجن) اور گینگ میئی (خوبصورت تر) جیسے کاسمیٹک سرجری ایپس کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے جو نام نہاد ’چہرے کی خامیوں‘ کا الگورتھم پر مبنی تجزیہ پیش کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
یہ ایپس صارفین کے چہروں کو سکین کرنے اور جانچنے کے بعد قریبی کلینک سے سرجری کرانے کی سفارش کرتے ہیں اور ہر آپریشن کے لیے اپنا کمیشن وصول کرتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر مشہور شخصیات اور انفلوئنسرز ان ایپس اور خوبصورتی کے دیگر ٹرینڈز کو شیئر کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے رجحانات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔
چین کے ابتدائی کاسمیٹک سرجری کے انفلوئنسرز میں سے ایک ایبی نے سوشل میڈیا کے بڑے پلیٹ فارمز پر اپنی سرجری کو دستاویزی شکل دی ہے اور سوینگ کے لانچ ہونے کے فوراً بعد اس میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔
اس کے باوجود 100 سے زائد آپریشنز سے گزرنے کے بعد جب وہ سوینگ کے ’میجک مرر‘ (جادوئی آئينے) کا فیچر کا استعمال کرتے ہوئے اپنا چہرہ سکین کرتی ہیں تو بھی وہ ایپ ان کے چہرے میں ’خرابیوں‘ کی نشاندہی کرتی ہے اور سرجریوں کی ایک لمبی فہرست تجویز کرتی ہے۔
ایبی ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ ’یہ (ایپ) کہتی ہے کہ میرے آنکھوں کے نیچے تھیلے ہیں۔ ٹھوڑی میں ابھار لاؤ؟ میں نے وہ کر رکھا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ انھیں ’ناک پتلا کرنے‘ کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ’کیا مجھے ناک کی ایک اور سرجری کروانی چاہیے؟‘
عام ای کامرس سائٹس کے برعکس سوینگ جیسے بیوٹی ایپس بھی سوشل میڈیا کا کام کرتے ہیں۔ صارفین سرجری کرانے سے پہلے اور اس کے بعد کی تفصیل شیئر کرتے ہیں اور اکثر ایبی جیسے بڑے صارف مشورہ طلب کرتے ہیں۔
’ایسا لگتا تھا میری جِلد کے نیچے سیمنٹ ہے‘
بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے چین کے طول و عرض میں تیزی سے یہ کلینکس کھل رہے ہیں۔
مگر وہاں ماہر سرجنز کی کمی ہے اور بڑی تعداد میں ایسے کلینک چل رہے ہیں جن کے پاس لائسنس نہیں۔
مارکیٹنگ ریسرچ فرم آئی ریسرچ کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2019 میں چین کے 80 ہزار مقامات ایسے تھے جہاں کاسمیٹک پروسیجرز کی سہولت میسر تھی اور یہ کرنے والے ایک لاکھ کاسمیٹک پریکٹیشنرز ایسے تھے جن کے پاس لائنسنس نہیں تھا اور وہ بنا درست علم کے کام کر رہے تھے۔
اس کے نتیجے میں یہ انداز لگایا گیا کہ چین کے کاسمیٹک سرجری کے کلینکس کے اندر ہر روز سینکڑوں حادثات ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر یانگ لو ایک پلاسٹک سرجن ہیں اور شنگھائی میں ان کا لائسنس یافتہ کاسمیٹک سرجری کلینک ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ حالیہ برسوں میں ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو خراب سرجریز سے ہونے والی مسائل کے حل کے لیے ان کے پاس آئے۔
ڈاکٹر یانگ کا کہنا ہے کہ ’میں نے ایسے بہت سے مریض دیکھے ہیں جن کا پہلا آپریشن خراب تھا کیونکہ وہ غیر لائسنس یافتہ ڈاکٹر کے پاس گئے تھے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ کچھ مریض تو ایسے تھے جن کے آپریشن ’لوگوں کے گھروں‘ کے اندر کیے گئے۔

یویو کی عمر 28 برس ہے اور وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جن کی سرجری بُری طرح خراب ہو گئی تھی۔
سنہ 2020 میں انھوں نے بیبی فیس کولیجن انجیکشن لگوائے۔ یہ ایسا پروسیجر ہے جس میں چہرے زیادہ بھرا بھرا لگتا ہے۔ انھوں نے اپنی ایک قریبی دوست کی جانب سے کھولے گئے غیر لائسنس یافتہ کلینک سے آپریشن کروایا۔ لیکن ہوا یہ کہ ان کے چہرے پر لگائے گئے فلرز بہت سخت ہو گئے۔
وہ کہتی ہیں کہ ایسا لگتا تھا کہ ’میری جلد کے نیچے سیمنٹ ہو۔‘
یویو خود کو پہنچنے والے نقصان کو فوری طور پر ٹھیک کرنے کے لیے بے چین تھیں۔
انھوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے ایک معروف کلینک کا پتہ لگایا لیکن چیزیں ٹھیک ہونے کے بجائے اور بدتر ہو گئیں۔
ایک کلینک نے ان کے فلرز کو نکالنے کے لیے سرنجوں کا استعمال کیا۔ بجائے اس کے کہ وہ سخت مواد کو باہر نکالتے انھوں نے یویو کی جلد کے اندر موجود ٹشوز کو ہی نکال دیا جس کی وجہ سے ان کی جِلد ڈھیلی ہو گئی۔
ایک اور کلینک نے ان کے کان کے قریب موجود جلد کو ’لِفٹ‘ کرنے کی کوشش کی تاکہ فلرز اندر ہو جائیں لیکن اس کے نتیجے میں ان کے چہرے پر دو بڑے داغ پڑ گئے اور ان کا چہرہ غیر قدرتی طور پر سخت دکھائی دینے لگا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میرا پورا عکس بگڑ گیا۔ میں نے اپنی چمک کھو دی اور اس نے میرے کام کو متاثر کیا جو میں شنگھائی کی ایک غیر ملکی کمپنی کے ہیومن ریسورس کے شعبے کرتی تھی۔‘
پھر ان کی ملاقات ڈاکٹر یانگ سے گذشتہ برس ہوئی اور تب سے اب تک انھوں نے بحالی کے لیے تین آپریشن کروائے ہیں جن میں آنکھ کے اوپری پپوٹے کا آپریشن بھی شامل ہے جو کہ گذشتہ بار ایک اور کلینک سے سرجری کے دوران متاثر ہوا تھا۔
اگرچہ ڈاکٹر یانگ کی جانب سے کی گئی سرجریز سے نمایاں طور پر بہتری آئی ہے مگر خراب آپریشنز کی وجہ سے ہونے والے کچھ نقصانات ایسے ہیں جن کے اثرات ہمیشہ باقی رہیں گے۔
وہ کہتی ہیں میں اب مزید خوبصورت ہونے کی خواہشمند نہیں ہو۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’اگر میں ماضی میں جا سکتی کہ میں سرجری سے پہلے کیسی دکھائی دیتی تھی تو میں بہت خوش ہوتی۔‘
’اس نے میرے کریئر کو تباہ کر دیا‘
چین میں ہر سال لاکھوں لوگ یو یو کی مانند غیر لائسنس یافتہ کاسمیٹک کلینکس کا شکار بنتے ہیں۔
مگر یہ بھی ہے کہ کچھ لائسنس یافتہ اور قابل سرجنز ایسے ہیں جو کہ قوانین پر سختی سے عمل نہیں کرتے۔
سنہ 2020 میں گاو لو نے اپنی ناک کا آپریشن کروا اور اس کے نتیجے میں ہوا یہ کہ ان کی ناک کی نوک جل کر کالی ہو گئی، یہ خبر وائرل ہوئی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میرا چہرہ بگڑ گیا تھا اور میں بہت مایوس تھی۔ اس نے میرا ایکٹنگ کا کریئر تباہ کر دیا۔‘
انھوں نے گوانگژو کے لائسنس یافتہ کلینک میں ڈاکٹر ہی منگ سے ناک کی سرجری کروائی تھی، جنھیں اس کا ‘چیف سرجن’ اور ناک کی سرجری کا ماہر قرار دیا گیا تھا۔
مگر حقیقت میں ڈاکٹر ہی کسی نگرانی کے بعد آپریشن کرنے کے لیے مکمل طور پر اہل نہیں تھے اور انھوں نے پلاسٹک سرجن کے لیے گوانگ ڈانگ کے صوبائی ہیلتھ کمیشن کا لائسنس حاصل نہیں کیا تھا۔
حکام نے کلینک کو جرمانہ کیا جو کہ سکینڈل سامنے آنے کے بعد جلد ہی بند ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ہی کو چھ ماہ کے لیے پریکٹس کرنے سے بھی روک دیا گیا۔
تاہم شیز ٹائمز کے ختم ہونے کے چند ہفتے پہلے ہی ایک نئے کلینک گنگیا نے اسی پتے پر اپنی رجسٹریشن کی درخواست کی۔

،تصویر کا ذریعہGao Liu
بی بی سی آئی کو شی ٹائمز اور گنگیا کے درمیان مضبوط تعلق ملا، مثال کے طور پر دونوں کے ویبو اکاؤنٹ ایک ہی تھے اور ڈاکٹر ہی سمیت بہت سا سٹاف ایک جیسا ہی تھا۔
بی بی سی کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر ہی نے اپریل 2024 میں فقط پلاسٹک سرجن کا لائسنس حاصل کیا تھا، اگرچہ انھیں تکنیکی طور پر سنہ 2021 میں ان پر پانچ سال کے لیے اس سٹیٹس کے لیے اپلائی کرنے پر پابندی عائد تھی۔
گنگیا کا دعویٰ ہے کہ اب اس نے اپنی 30 برانچز کھول لی ہیں۔
بی بی سی کی جانب سے ردعمل کے لیے لیے بھجوائی گئی درخواستوں پر ڈاکٹر ہی، گنگیا اور گوانگ ڈانگ کی صوبائی ہیلتھ کمیشن نے کوئی جواب نہیں دیا۔
برطانیہ میں چینی سفارتخانے کا کہنا ہے کہ ‘چینی حکومت مسلسل طور پر کاروباری اداروں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ قومی قوانین، قواعد و ضوابط اور متعلقہ پالیسی شقوں پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے کام کریں۔’
چار سال اور پھر درستی کی خاطر کیے گئے دو آپریشنز کے بعد بھی گاؤ لیو کی ناک ناہموار ہی رہی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے واقعی اس پر پچھتاوا ہے، میں نے یہ کیوں کیا؟‘
چین میں سینٹرل ہیلتھ کمیشن حالیہ برسوں میں اپنی مہارت سے بڑھ کر کام انجام دینے والے کم تعلیم یافتہ ہیلتھ پریکٹیشنرز کے معاملے پر کریک ڈاؤن کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس میں مقامی صحت کے اداروں کو ریگولیشن کو بہتر بنانے اور سخت ہدایات جاری کرنے کا حکم دینا بھی شامل ہے، مگر مسائل بدستور موجود ہیں۔
24 گھنٹے کے اندر نوکری کی پیشکش سے قرض اور سرجری تک
آج کے چین میں اچھا دکھائی دینا پروفیشنل کامیابی کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے۔
اگر وہاں معروف نوکریوں کی بھرتیوں کے حوالے سے مختلف پلیٹ فارمز کا ایک جائزہ لیا جائے تو بہت سی ایسی مثالیں آپ کے سامنے آئیں گی جن میں آجروں کی جانب سے نوکری کے لیے اپلائی کرنے والوں کے جسمانی حالت کے حوالے سے بھی شرائط لکھی جاتی ہیں، اور یہ ایسی نوکریوں کے لیے بھی ہوں گی جن میں حقیقی معنوں میں کام بہت کم ہوتا ہے۔
جیسا کہ ایک ریسیپشنسٹ کے رول کے لیے دبلی پتلی اور خوبصورت خاتون کا تقاضہ کیا گیا تھا۔
نکری کی مثلاشی خواتین کو ملازمتوں کی پیش کش کی جاتی ہے، لیکن اس شرط پر کہ جب وہ اپنے متوقع آجروں کی طرف سے کی جانے والی مہنگی سرجریوں کے لیے ادائیگی کرتی ہیں۔
ڈان لان (فرضی نام) نے بیوٹی کنسلٹنٹ کی نوکری کے لیے چین کے جنوب مغربی شہر چینگڈو میں نوکری کی بھرتی کے لیے معروف ویب سائٹ پر مارچ 2024 میں اپلائی کیا۔
انٹرویو کے بعد اسی شام انھیں اس پوزیشن کے لیے نوکری کی آفر ہو گئی۔
مگر وہ کہتی ہیں جب اگلے روز انھوں نے اپنی سیٹ پر کام شروع کیا۔ انھیں مینیجر ایک چھوٹے کمرے میں لے کر گئے اور اوپر سے نیچے تک ان کا معائنہ کیا اور انھیں الٹی میٹم دیا کہ کاسمیٹک کام کروائیں یا پھر نوکری سے ہاتھ دھو لیں۔
ڈان لین کہتی ہیں کہ ’مجھے فیصلہ کرنے کے لیے ایک گھنٹے سے بھی کم وقت دیا گیا تھا۔‘
اس وقت دباؤ کی وجہ سے وہ اپنی ڈبل آئی لڈ یعنی پپوٹے کی سرجری کروانے کے لیے تیار ہو گئیں جس کی قیمت 13000 یوان تھی اور وہ ان کی ماہانہ تنخواہ سے تین گنّا زیادہ تھی اور اس پر سالانہ 30 فیصد ٹیکس بھی لگنا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’وہاں موجود سٹاف نے میرا فون لے لیا اور اس سے نام نہاد ’بیوٹی لون‘ کے لیے اپلائی کیا اور اس مقصد کے لیے ان کی آمدن کے حوالے سے غلط معلومات درج کیں، ایک منٹ میں ہی ان کا لون منظور ہو گیا۔‘
جلد ہی ان کا میڈیکل ٹیسٹ لیا گیا اور ایک گھنٹے بعد وہ آپریشن کے لیے مختص ٹیبل پر تھی۔
سرجری نے ان کی نوکری کے مستقبل میں بھی مددگار ثابت نہیں ہوئی۔
ڈا لان کہتی ہیں کہ ان کی مینیجر ان کی تضحیک کرتی تھیں ان پر سر عام چیختی چلاتی تھیں اور لعن طعن کرتی تھی۔
فقط چند ہی ہفتوں کے بعد اس نے نوکری چھوڑ دی۔ اب پیچھے مڑکر جب وہ اس کے بارے میں سوچتی ہیں تو انھیں لگتا ہے کہ وہ حقیقت میں نوکری تو تھی ہی نہیں۔
وہ کہتی ہیں ’وہ شروع سے ہی چاہتے تھے کہ میں نوکری چھوڑ دوں۔‘
وہاں دس دن سے زیادہ روز تک کام کرنے کے باوجود انھیں 303 یوان جو کہ 42 امریکی ڈالر کے برابر ہیں دیے گئے۔
چھ مہینے کے بعد اپنی دوستوں کی مدد سے ڈا لان نے اپنا قرض ادا کیا۔
بی بی سی آئی نے درجنوں متاثرین سے بات کی اور ان میں سے تین سے ملاقات بھی کی جن میں ڈا لان سے چینگ ڈو میں ملاقات کی۔ یہ شہر چین کی کاسمیٹک سرجری کا مرکز کہلاتی ہے۔
یہاں کچھ ایسے لوگ بھی آتے ہیں جو برسوں سے قرض کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔
ڈا لان نے جس کلینک کی نشانشدہی کی اس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس سے قبل دیگر گریجویٹس نے اس کلینک کے حوالے سے رپورٹ کیا اور مقامی میڈیا نے بھی اس کے بارے میں انکشاف کیا تھا لیکن یہ کلینک اب بھی کھلا ہوا ہے اور وہ اسی رول کے لیے بھرتی کر رہا ہے۔
یہ دھوکہ فقط کلینک میں نوکری کرنے والوں تک محدود نہیں، یہ دوسرح صنعتوں میں بھی گھس چکی ہے۔
کچھ لایئو سٹریمنگ کمپنیاں جلد شہرت کے حصول کا یقین دلا کر نوجوان عورتوں پر زور دیتی ہیں کہ وہ سرجری کروانے کے لیے قرض لیں۔
لیکن پس پردہ ان فرمز نے اکثر اوقات بیوٹی کلینکس کے ساتھ ان معاہدوں کو شیئر کیا ہوتا ہے اور سرجری کے لیے جانے والے ہر فرد کی فیس میں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔

بیجنگ میں بوہیمین طرز کے ایک کیفے میں ایبی کافی کے لیے اپنے دوستوں سے ملتی ہے۔ تینوں اپنے پوز کو ایڈجسٹ کرتی ہیں اور اپنے چہروں میں کچھ تبدیلی لاتی ہیں جس میں وہ اپنی پلکوں کو بڑھاتی ہیں اور اپنے گالوں کو نئی شکل دیتی ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے چہرے کے خدوخال کے بارے میں کیا سب سے زیادہ پسند کرتی ہیں، وہ ہچکچانے لگیں اور کوشش کرنے لگی کہ وہ کسی ایک حصے کے بارے میں بتائیں جسے وہ بدلنے کی خواہش نہیں رکھتیں۔
گفتگو کا رخ تھوڑی امپلانٹ کرنے، اوپر کے ہونٹ کو پتلا کرنے اور ناک کی سرجری کی جانب بڑھ گیا۔
ایبی کا کہنا ہے کہ وہ ناک کی ایک اور سرجری کروانے کا سوچ رہی ہیں، چھ برس پہلے انھوں نے ناک کی سرجری کروائی تھی مگر سرجنز کو لگتا ہے کہ اب پھر سے آپریشن کرنا مشکل ہو گا۔
وہ کہتی ہیں کہ میری جلد بہت زیادہ پروسیجرز کروانے کے بعد اب پہلے جیسی لچکدار نہیں رہی۔
ڈاکٹرز کے پاس اب اس پر مزید کرنے کو زیادہ کچھ باقی نہیں ہے۔ ایسے ہی جیسے کہ آپ جیکٹ کا کپڑا دے کر بدلے میں شادی کا جوڑا بنانے کی توقع نہیں کر سکتے۔
مگر ہر چیز کے باوجود ایبی کا رُک جانے کا اور یہ سب چھوڑ دینے کا کوئی پلان نہیں ہے۔
’میرا نہیں خیال کہ میں مزید خوبصورت ہونے کے اپنے اس سفر کو کبھی روک پاؤں گی۔‘
SOURCE : BBC