SOURCE :- BBC NEWS
- مصنف, جو انووڈ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
-
25 منٹ قبل
انتباہ: اس تحریر میں میں موجود بعض تفصیلات قارئین کے لیے پریشانی کا باعث ہو سکتی ہیں۔
’پھر آخر میں، میں نے سوچا کہ میں مرنے کو ترجیح دوں گی۔‘
یہ الفاظ لوسیانا گلیٹا کے ہیں جنھوں نے ایک ڈوبتی کشتی میں 35 گھنٹے گزارے اور آخری لمحات کو یاد کرتے ہوئے ان کی آواز لڑکھڑانے لگی۔
انھوں نے کشتی سے فون کی لائٹ میں ویڈیو بنائی تھی جسے انھوں نے بی بی سی کے ساتھ شیئر کیا ہے۔ اس میں وہ جگہ دیکھی جا سکتی ہے جہاں ان کی جان جا سکتی تھی۔ سمندر کی تیز لہروں اور اس میں تیرتے ملبے نے انھیں وہاں سے نکلنے سے روکے رکھا۔
لوسیانا اِن 35 بچنے والوں میں سے آخری فرد تھیں جنھیں بچایا گیا۔ گذشتہ سال 25 نومبر کو بحیرۂ احمر میں غوطہ خوروں کی ایک کشتی ڈوب گئی تھی۔ اس واقعے میں 11 افراد ہلاک ہوئے یا تاحال لاپتہ ہیں۔ ان میں دو برطانوی شہری بھی شامل ہیں۔
اس وقت مصری حکام نے حادثے کی وجہ چار میٹر تک کی اونچی لہروں کو قرار دیا تھا تاہم بی بی سی نے بچنے والے 11 افراد سے بات کی ہے جنھوں نے اس دعوے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔
سمندری حالات کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ واقعے کے وقت کے مطابق لہروں کی وجہ سے کشتی نہیں الٹی بلکہ اس کی وجہ عملے کی کوتاہی اور کشتی میں خامی ہو سکتی ہے۔
تیزی سے ڈوبتی ہوئی کشتی میں پھنسے ہونے کا خوف بیان کرتے ہوئے بچنے والوں نے اسے چلانے والی کمپنی ’ڈائیو پرو لائیو ابراڈ‘ پر حفاظتی اقدامات نہ ہونے کا الزام لگایا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مصری حکام نے اقدام کرنے میں سستی دکھائی جس سے کچھ جانوں کا ضیاع ہوا۔
بی بی سی نے ڈائیو پرو لائیو ابورڈ اور مصری حکومت سے رابطہ کیا ہے تاہم ان کی طرف سے تاحال کوئی جواب نہیں آیا۔
یہ اس واقعے کی اندرونی کہانی ہے جو زندہ بچنے والوں نے پہلی بار خود بتائی ہے۔
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
غوطہ خوروں کی لگژری کشتی یعنی ڈائیو بوٹ 24 نومبر کو مصری ساحل مرسی علم (پورٹ غالب) سے بحیرہ احمر میں چلنا شروع ہوئی۔
اس پر 31 غیر ملکی مہمان، تین تجربہ کار غوطہ خور اور تین ڈائیو گائیڈ موجود تھے جبکہ 12 افراد پر مشتمل مصری عملہ تھا۔ یہ چھ روزہ سفر تھا جس کی پہلی منزل غوطہ خوروں کا مشہور مقام ستایا ریف تھی۔
باقیوں کی طرح ابتدائی طور پر لوسیانا کے سی سٹوری نامی اس لگژری کشتی کے بارے میں مثبت تاثرات تھے۔ وہ بیلجیئم میں اپنے گھر سے بی بی سی کو بتاتی ہیں کہ ’یہ بہت اچھی کشتی تھی۔ کافی بڑی، کافی صاف۔‘
کمپنی نے لوسیانا اور دیگر کو آخری لمحات کے دوران ایک دوسری کشتی میں منتقل کیا تھا جس کے آن لائن سینکڑوں اچھے ریویو تھے۔ کئی مہمانوں کو بتایا گیا کہ یہ ’اپ گریڈ‘ یعنی بہتر سروس ہے لیکن بعض پریشان ہو گئے کیونکہ اس کا مطلب تھا کہ اب وہ اس منزل تک نہیں جا سکتے جہاں کے لیے انھوں نے بُکنگ کروائی تھی۔
اس رات حالات بہت خراب ہو گئے۔ ملاحوں سمیت بچنے والوں کے مطابق کشتی توقعات کے برعکس زیادہ ہچکولے کھا رہی تھی۔
ڈوبنے سے چند گھنٹے قبل سی سٹوری نامی کشتی کے پیچھے سے ایک چھوٹی ہوا والی کشتی خود ہی نکل گئی۔
ایک مسافر نے ویڈیو بنائی جبکہ عملہ اسے واپس لینے کی تگ و دو کرنے لگا۔ سمندری امور کے ایک ماہر نے بی بی سی کو بتایا کہ سمندری لہریں غیر معمولی نہیں تھی اور یہ مسلسل پانچ فٹ تک تھیں۔
اس سفر پر موجود لنکاسٹر سے این ایچ ایس کی ایک ڈاکٹر سارہ مارٹن بتاتی ہیں کہ ’لہروں کو دیکھتے ہوئے ایسا نہیں لگا کہ موسم خراب ہے۔‘ لیکن ان کے مطابق ’فرنیچر کشتی پر جھول رہے تھے۔ ہم نے عملے سے پوچھا کیا یہ عام بات ہے تو انھوں نے کندھے اچکائے۔ تو ہمیں معلوم نہیں ہوسکا کہ ہم کس خطرے میں ہیں۔‘
سپین سے تعلق رکھنے والی غوطہ خور ہسورا گونزالیز کشتی کی نچلی منزل پر کیبن میں تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’کشتی اتنی ہل رہی تھی کہ میں رات سو نہیں سکی۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ کشتی کئی بار گھومی اور رات تین بجے کے قریب الٹ گئی جس سے زوردار آواز آئی۔ اس کے بعد انجن بند ہونے سے خاموشی اور تاریکی چھا گئی۔
دوسرے کیبنز سے چیخ و پکار کی آوازیں آنے لگیں کیونکہ لوگ اپنے بستروں سے نیچے جا گِرے تھے۔ آس پاس سامان تھا جس نے باہر نکلنے کے راستے روک دیا تھا اور وہاں سے نکلنا انتہائی مشکل تھا۔
باہر سونے والے ایک شخص نے، جو واقعے میں بچ گئے تھے، بتایا کہ وہ بھاری فرنیچر تلے دب گئے تھے۔
ہسورا کا کہنا ہے کہ ’ہم کچھ بھی دیکھ نہیں سکتے تھے۔ ہمیں نہیں پتا تھا کہ چھت اور فرش کس طرف ہیں۔‘ اسی بوکھلاہٹ میں انھوں نے لائف جیکٹ ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ اس سے پہلے کہ وہ اسے ڈھونڈ پاتیں، ان کی دوست کرستھین سرکوس نے چِلا کر بھاگنے کا کہا۔
اس آواز نے شاید ان کی جان بچا لی۔ ان کا کیبن کشتی کے دائیں جانب تھا جو سمندری سے ٹکرائی تھی۔ ہلاک اور لاپتہ تمام مسافروں کے کیبن اسی طرف تھے۔
ہسورا کہتی ہیں کہ ’میں پانی کو کشتی کے اندر آتے سن سکتی تھی مگر دیکھ نہیں سکتی تھی۔‘ ان کا کیبن ڈور اب اوپر کی جانب تھا۔ وہ صرف اس لیے بچ گئیں کیونکہ کرستھین نے انھیں پانچویں کوشش کے دوران کھینچ لیا تھا۔
ہسورا سے کچھ فاصلے پر سارہ اور ان کی ساتھی ڈائیو گائیڈ نتالیہ سانچز فسٹر بھی گھپ اندھیرے میں تھے۔ وہ کیبن کا دروازہ نہیں ڈھونڈ پا رہے تھے۔ جب انھوں نے فون کی ٹارچ چلائی تو معلوم ہوا کہ ’سب 90 ڈگری پر الٹ چکا ہے۔ دروازہ چھت پر تھا اور ہماری چیزوں نے اسے بلاک کیا ہوا تھا۔‘
دورازے کے راستے سے چیزیں ہٹا کر وہ 10 دیگر لوگوں کے ساتھ مل گئے تاکہ کشتی کے سامنے والے حصے میں ایمرجنسی ایگزٹ تک پہنچ سکیں۔
اس گروہ کو کشتی کے مین ڈیک تک جانے کے لیے دو منزلوں تک رینگ کر ہنگامی حالات کے لیے نصب سیڑھیوں تک جانا پڑا، اس دوران انھیں ریستوران اور ڈائنگ روم سے گزرنا پڑا۔ راستہ ڈھونڈنا مشکل تھا اور کچن کی الماریوں سے چیزیں فرش پر گِر چکی تھیں۔
سارہ کہتی ہیں کہ ‘ہمیں دروازے کے اوپر چڑھنا پڑا تاکہ راستہ بن سکے۔ تاریکی نے ان سب کو مزید بوکھلاہٹ میں مبتلا کیا۔ پھسلن بہت زیادہ تھی۔ ہر طرف ٹوٹے ہوئے انڈے اور کوکنگ آئل بکھرے ہوئے تھے۔
سارہ کے آگے ہسورا پہلے اوپر پہنچ گئیں۔ وہ پیچھے لوگوں کی چیخ و پکار سن سکتی تھیں لیکن مڑ نہیں سکتی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ‘میں اتنا پانی اندر آتا دیکھ کر واپس جانے کے بارے میں خوفزدہ تھی۔’
اس وقت تک کشتی تیزی سے ڈوب رہی تھی۔ کشتی کے اوپر پہنچنے والوں کو معلوم تھا کہ انھیں سات سے 10 فٹ نیچے پانی میں کودنا پڑے گا۔
ہسورا یاد کرتی ہیں کہ ‘میں منجمد ہوگئی کیونکہ کرستھین نے کہا ‘کودنا مت’ کیونکہ اس نے دیکھا کہ کوئی لائف رافٹ نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔’
سارہ وہاں سے نکلنے کے لیے بے تاب تھیں۔ ‘کئی کشتی کے مسافروں نے باہر کا راستہ روک رکھا تھا۔ ہم ان پر چیخ رہے تھے کہ راستے سے ہٹو۔’
تیزی سے آتے پانی کے بیچ و بیچ ہسورا، سارہ اور دیگر ایک درجن کے قریب لوگ کشتی کے اوپر پہنچے اور سمندر میں کود گئے۔ انھیں معلوم تھا کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔
سارہ کہتی ہیں کہ ‘اگر کشتی نیچے جانے والی تھی تو ہمیں اس سے دور رہنا تھا تاکہ یہ ہمیں اپنے ساتھ نیچے کی طرف نہ کھینج لے۔’
کودنے کے بعد نتالیہ کشتی کے گرد تیرتی رہیں جبکہ اندرسے لوگوں کی مسلسل چیخ آ رہی تھی۔ انھوں نے تیرتے ملبے کے ذریعے کھڑکیاں توڑنے کی کوشش کی مگر ناکام رہیں۔
سارہ اور نتالیہ ان لوگوں میں سے تھیں جنھوں نے نکلتے ہوئے لائف جیکٹ لے لی تھی۔ لیکن سارہ کے مطابق لائف جیکٹ ضرورت کے مطابق کام نہیں کر پا رہی تھی۔ ‘ہم نے دیکھا کہ لائٹ کام نہیں کر رہی۔ اب لگتا ہے کہ ان میں بیٹریاں ہی نہیں تھیں۔’
ہم نے جن لوگوں کا انٹرویو کیا انھوں نے ایسی کئی حفاظتی ناکامیوں کی نشاندہی کی ہے۔
مجموعی طور پر ہم نے نچلے ڈیک سے سات بچنے والوں سے بات کی۔ سبھی نے کشتی الٹنے کی ایک جیسی روداد سنائی۔ لیکن سبھی ایک طریقے سے نہیں بچے۔
لوسیانا گیلیٹا اپنے ساتھی کرسٹوف لیمنز کے ساتھ نچلے ڈیک کے پچھلے حصے کی طرف ایک کیبن میں تھیں۔ انھیں خطرے کو بھانپنے میں دوسروں کے مقابلے میں چند لمحے کی تاخیر ہوئی اور یہ تاخیر انھیں بہت مہنگی پڑی۔
لوسیانا کہتی ہیں: ‘ہم نے اٹھنا شروع کیا اور لائف جیکٹس تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ہم نے دروازہ کھولا لیکن راہداری میں پہلے سے ہی پانی بھرا تھا۔ ہم گھبرا گئے جب ہم نے چھلانگ لگائی تو ہم تقریباً ڈوب گئے تھے۔
سامنے سے باہر نکلنے کے راستے تک پہنچنے سے قاصر لوسیانا اور کرسٹوف کشتی کے سٹرن (عقبی) حصے مین انجن روم کے ساتھ ایک ایئر پاکٹ یا خالی جگہ میں پہنچ گئے جو کہ ابھی تک پانی سے بچا ہوا تھا۔ انھیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کہاں ہیں جب تک اس خالی جگہ میں کچھ دیر بعد غوطہ خوری کے انسٹرکٹر یوسف الفراماوی نہ پہنچ گئے۔
وہ تینوں تقریباً 35 گھنٹوں تک وہیں پھنسے رہے۔ وہ اس دوران ایندھن کے ٹینکوں پر بیٹھے رہے تھے۔
سارہ اور ہسورا سمیت کشتی کے باہر چھلانگ لگانے والے دیگر افراد کو آخرکار وہ دو لائف رافٹس مل گئے، جو کشتی کے ڈوبنے کے بعد تعینات کیے گئے تھے۔ جب وہ جہاز پر چڑھے تو انھوں نے دیکھا کہ کشتی کے کپتان اور ديگر عملوں سمیت کئی دوسرے افراد وہاں پہلے سے موجود تھے۔
سارہ نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہاں موجود مہمانوں میں سے کسی نے کہا تھا کہ ’یہاں کچھ (کھانے پینے کا) سامان ہونا چاہیے۔‘ انھوں بی بی سی کو بتایا گیا کہ ’جن لوگوں سے ہم نے بات کی انھوں نے ایک حفاظتی بریفنگ کو یاد کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ لائف رافٹس (جان بچانے والی کشتیوں) میں خوراک اور پانی ہونا چاہیے تھا، لیکن ان میں کچھ نہیں تھا۔‘
سارہ نے بتایا کہ ’ہمیں ایک ٹارچ ملی، لیکن اس میں بھی کوئی بیٹری نہیں تھی۔ ہمارے پاس پانی یا کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ وہاں صرف فلیئرز تھے جو پہلے ہی استعمال ہو چکے تھے۔‘
سارہ بیڑے پر موجود تین کمبلوں کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ایک کو تو کپتان نے اپنے لے لیے لیا تھا، ایک باقی عملے کے لیے تھا اور تیسرا مہمانوں کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ سارہ کہتی ہیں کہ ‘ہم نے اسے کھولا اور سب اسی میں گھس گئے۔’
پھر کشتی کے الٹنے کے تقریبا آٹھ گھنٹے بعد 25 نومبر کی صبح تقریباً 11:00 بجے ریسکیو بحری جہاز ہمیں ملے اور ہم سب دھیرے دھیرے مشرق کی طرف بڑھنے لگے تھے۔
پیچھے الٹنے والی سی سٹوری نامی کشتی پر لوسیانا نے ریسکیو ہیلی کاپٹر کی آواز سنی لیکن اس کی آزمائش ابھی ختم ہونے والی نہیں تھی۔
انھوں نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر کی آواز سننے کے وقت ‘ہم بہت خوش تھے، لیکن ہمیں مزید 27 گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔’
کشتی کے لوکیشن کا پتہ چلنے کے باوجود انھین بچانے اور ان تک پہنچنے کی کوششیں کافی سست تھیں۔ لوسیانا کہتی ہیں: ‘ہمارا باہر سے کوئی رابطہ نہیں تھا، کسی قسم کا بھی نہیں۔ اور کسی نے یہ دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کی کہ آیا وہاں کوئی زندہ بھی ہے۔’
وہ مجھے بتاتی ہیں کہ ایسے لمحات بھی آئے جب ان پر اندھیرا اور مایوسی چھانے لگی۔ ‘میں مرنے کے لیے تیار تھی۔ ہمیں امید بھی نہیں رہی تھی کہ کوئی آئے گا۔’
کئی گھنٹے ایئر پاکٹس میں پھنسے رہنے کے بعد غوطہ خور گائیڈ یوسف نے کشتی کے اندر سے تیر کر نکلنے کی کوشش کرنا چاہی، لیکن لوسیانا اور کرسٹوف نے انھیں ایسا کرنے سے باز رکھا۔ لوسیانا نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے یوسف سے کہا تھا کہ ‘ہمارے ساتھ ہی رہو کیونکہ وہ ہماری لاشیں لینے آئيں گے اور اس طرح وہ ہمیں ڈھونڈ لیں گے۔’
بالآخر سی سٹوری کے ایئرپاکٹ میں تقریباً ڈیڑھ دن پھنسے رہنے کے بعد اندھیرے میں روشنی نمودار ہوئی۔
ایک مقامی مصری غوطہ خوری کے انسٹرکٹر اور یوسف کے چچا خطاب الفراماوی لوگوں کی تلاش میں ڈوبی ہوئی کشتی کی راہداریوں میں غوطہ لگاتے ہوئے پہنچے۔ انھوں نے پہلے یوسف کو باہر نکالا۔ پھر کوئی ایک گھنٹے کی تاخیر کے بعد وہ لوسیانا اور ان کے پارٹنر کو بحفاظت نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ انھیں تاخیر اس لیے ہوئی کہ غوطہ خوری کے سانس لینے والے آلے میں خرابی آ گئی تھی۔
لوسیانا کہتی ہیں: ‘میں نے اسے بہت زور سے گلے لگایا۔ ہم بہت، بہت خوش تھے۔’
مجموعی طور پر سی سٹوری سے پانچ افراد کو غوطہ خوروں نے بچایا، جن میں ایک سوئٹزرلینڈ کا شہری اور ایک فن لینڈ کا آدمی بھی شامل تھا۔ یہ لوگ نچلے ڈیک پر اپنے کیبن کے اندر ایک دوسری ایئر جیکٹ میں بچ گئے تھے۔ جبکہ انھوں نے وہاں دوسرے کیبنز سے چار لاشیں بھی نکالیں۔
لیکن لوسیانا اس بات پر نکتہ چیں ہیں کہ مصری بحریہ کو رضاکاروں پر انحصار کرنا پڑا۔ انھوں نے کہا: ‘ہم نے 35 گھنٹے انتظار کیا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ مصری فوجی کشتیوں پر غوطہ خور کیسے نہیں ہیں۔’
لوسیانا، کرسٹوف اور یوسف کو ساحل پر واپس آنے سے پہلے بحریہ کے منتظر جہاز پر لے جایا گیا۔ وہ بچائے جانے والے آخری تھے۔ کم از کم 11 افراد یا تو مر گئے یا لاپتہ ہیں، اغلب ہے کہ وہ سب فوت ہو چکے ہیں۔
ان میں ڈیون سے تعلق رکھنے والا ایک جوڑا جینی کاوسن اور ٹیریگ سینڈا بھی ہے جو پانی سے ٹکرانے والی کشتی کے کنارے پر مین ڈیک پر ٹھہرے ہوئے تھے۔ ان کی لاشیں نہیں ملیں۔
اس جوڑے کے دوست اینڈی ولیمسن نے کہا کہ انھیں ‘یقین ہی نہیں آ رہا ہے کہ یہ سب کچھ حقیقت میں ہوا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ ابھی وہ دروازے سے آئیں گے۔’ لیکن کشتی کے غرقاب ہونے کے ڈیڑھ ماہ بعد اب ان کے زندہ ہونے کی امیدیں دم توڑ گئی ہیں۔
وہ دونوں تجربہ کار غوطہ خور تھے اور وہ ہمیشہ اپنے سفر سے پہلے کشتیوں کے حفاظتی ریکارڈ کی احتیاط سے تحقیق کیا کرتے تھے۔ انھیں بھی آخری لمحات میں سی سٹوری پر منتقل کر دیا گیا تھا، جس کی بالآخر انھیں بہت زیادہ قیمت چکانی پڑی۔
بی بی سی نے اس جہاز کے تقریباً ہر کیبن سے زندہ بچ جانے والوں سے بات کی۔ ان میں سے سب نے یہی کہا کہ کشتی رات کے 02:00 اور 03:00 کے درمیان ڈوب گئی۔ تاہم، مقامی حکام کے مطابق انھیں تقریباً 05:30 تک کوئی پریشانی کا اشارہ موصول نہیں ہوا تھا جو کہ زیادہ جانیں ضائع ہونے کی ایک اور وجہ ہو سکتی ہے۔
پانچ زندہ بچ جانے والوں نے یہ بھی بتایا کہ اوپر والے ڈیک پر بھاری فرنیچر غیر محفوظ انداز میں تھے اور ڈوبنے سے پہلے ادھر ادھر ڈول رہے تھے۔ جو عورت عرشے پر سو رہی تھیں ان کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ ایک طرف ہو رہا تھا اور جیسے ہی کشتی الٹنے لگی اس نے سی سٹوری کو مزید غیر مستحکم کر دیا۔
اس کے فوراً بعد مصری حکام نے یہ بیانیہ پیش کیا کہ ایک بڑی لہر کے کشتی سے ٹکرانے سے یہ حادثہ پیش آیا اور اسی بیانیے کو دنیا بھر کی خبر رساں ایجنسیوں نے رپورٹ کیا لیکن زندہ بچ جانے والوں نے اپنے جو مشاہدات شیئر کیے وہ اس بیانیے پر شبہ پیدا کرتے ہیں۔
سارہ کہتی ہیں کہ ‘جب ہم پانی میں تھے تو لہریں زیادہ بڑی نہیں تھیں کہ ہم ان میں تیرنے کے قابل نہ ہوں، اس لیے یہ ہمارے لیے حیران کن ہے کہ اس میں کشتی کیونکر ڈوب گئی۔
ان کے شکوک و شبہات کی تائید سمندر کے متعلق ڈیٹا سے ہوتی ہے۔
ساؤتھمپٹن یونیورسٹی کے ڈاکٹر سائمن باکسل سمندری حالات کے ماہر ہیں۔ انھوں نے اس دن کے موسم کا تجزیہ کیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس دن سب سے بڑی لہریں تقریباً 1.5 میٹر یا تقریبا پانچ فٹ تھیں۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت اس خطے میں چار میٹر (13 فٹ) اونچی لہر آنے کا کوئی سوال نہیں ہے۔‘
جبکہ مصری محکمہ موسمیات نے 24 اور 25 نومبر کو بحیرہ احمر میں اونچی لہروں کے بارے میں خبردار کیا تھا اور بحری سرگرمیوں سے اجتناب کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن ڈاکٹر باکسل کا کہنا ہے کہ یہ انتباہ ’جہاں جہاز ڈوبا تھا اس سے 200 کلومیٹر (120 میل) سے زیادہ شمال کی طرف‘ کے لیے تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس صورت میں ان کے سامنے کشتی کے ڈوبنے کی صرف دو وجوہات رہ جاتی ہیں۔ ایک یا تو پائلٹ کی غلطی تھی یا پھر جہاز کے ڈیزائن میں خرابی تھی یا پھر دونوں ہی بات تھی۔
برطانیہ کے میرین ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن بورڈ (ایم اے آئی بی) جلد ہی ڈوبنے سے متعلق ایک حفاظتی بلیٹن شائع کرنے والا ہے۔ اس نے حال ہی میں متعدد واقعات کے بعد بحیرہ احمر میں حفاظتی مسائل کے بارے میں غوطہ خوروں کو متنبہ کیا ہے۔ حالیہ دو واقعات میں ایک ہی کمپنی ڈائو پرو لو ابورڈ شامل ہے۔
بی بی سی نے اس مضمون میں اٹھائے گئے تمام حفاظتی خدشات مصری حکومت اور متعلقہ کمپنی ڈائو پرو لو ابورڈ کو متعدد بار بھیجے۔ ہمیں ابھی تک دونوں طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
حادثے کے بعد مصری حکام نے فوری طور پر ڈوبنے کی تحقیقات شروع کر دیں۔ اس کے متعلق ابھی رپورٹ آنی باقی ہے، لیکن جینی اور ٹیرگ کے دوستوں کے لیے یہ ایک سے زیادہ کشتیوں کے بارے میں ہے۔
اینڈی ولیمسن کہتے ہیں: ‘ہمیں بدقسمتی سے مصر میں انتہائی المناک حالات میں غوطہ خوری کے خطرات کے بارے میں جاننا پڑا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہم اس پر کیسے قابو پائیں گے۔’
لوسیانا شدت کے ساتھ یہ سمجھنا چاہتی ہیں کہ کیا غلط ہوا۔ وہ کہتی ہیں: ‘ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم زندہ ہیں۔ لیکن بہت سارے لوگ ہیں جو اس سے واپس نہیں آئے اور میں چاہتی ہوں کہ ان کے اہلِخانہ کم از کم ان کا ماتم تو کر سکیں۔’
SOURCE : BBC