SOURCE :- BBC NEWS
- مصنف, فرینک گارڈنر اور تھامس میکنٹاش
- عہدہ, بی بی سی نیوز
-
22 دسمبر 2024
اپ ڈیٹ کی گئی 3 گھنٹے قبل
جرمن شہر ماگڈیبرگ کی کرسمس مارکیٹ میں چار خواتین اور ایک نو سالہ لڑکے کو کار تلے کچل کر ہلاک کرنے کے الزام میں گرفتار 50 سالہ سعودی شہری کے بارے میں سعودی عرب کے حکام نے جرمنی کو متعدد مرتبہ متنبہ کیا تھا۔
جمعہ کو ایک سیاہ بی ایم ڈبلیو کار میں سوار مبینہ حملہ آور طالب العبدالمحسن نے ماگڈیبرگ کے کرسمس بازار میں موجود افراد پر گاڑی چڑھا دوڑی تھی جس کے نتیجے میں 200 سے زیادہ لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔
جرمنی کے مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق طالب العبدالمحسن سنہ 2006 میں جرمنی آئے تھے اور یہاں بطور ڈاکٹر کام کرتے تھے۔ ایک بیان میں پولیس نے کہا کہ ’مقامی عدالت نے قتل، متعدد قاتلانہ حملوں کی کوشش اور متعدد لوگوں کو سفاکانہ انداز میں زخمی کرنے جیسے پانچ جرائم پر ان کی قبل از ٹرائل حراست کا حکم دیا۔‘
تفتیش کاروں کے مطابق تاحال طالب العبدالمحسن کا کسی شدت پسند تنظیم سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا ہے۔ اُن کی سوشل میڈیا پوسٹوں سے تاثر ملتا ہے کہ وہ مذہب اسلام اور سعودی عرب کے ناقد ہیں۔
حملہ تین منٹ تک جاری رہا
جمعہ کی شام ہونے والے اس حملے میں 200 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے تھے جن میں سے کم از کم 41 کی حالت نازک ہے۔
ایک کالے رنگ کی بی ایم ڈبلیو ایس یو وی نے 400 میٹر کے رقبے پر بنائی گئی کرسمس مارکیٹ پر تین منٹ تک گاڑی چڑھائے رکھی۔
عینی شاہدین کے مطابق انھوں نے بڑی مشکل سے حملے کے دوران چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی۔
جرمن اخبار کو دیے انٹرویو میں ایک خاتون نے بتایا کہ وہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ کرسمس مارکیٹ میں تھیں جب ایک تیز رفتار کار اُن کی طرف آئی۔
32 سالہ خاتون نے اخبار کو بتایا کہ ’کار اُن سے ٹکرائی اور وہ (بوائے فرینڈ) میرے سے دور جا گرے۔ یہ خوفناک منظر تھا۔‘
سنیچر کی شام ماگڈیبرگ کیتھیڈرل میں حملے کے متاثرین کے لیے ایک میموریل سروس منعقد کی گئی جس میں چانسلر اولف شولز بھی شریک ہوئے۔ شولز نے اس واقعے کو دردناک قرار دیا اور کہا کہ ’اس قدر سفاکی سے کئی لوگوں کو ایسے مقام پر ہلاک اور زخمی کیا گیا ہے جہاں وہ لطف اندوز ہونے کے لیے آئے تھے۔‘
انھوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ بعض زخمی افراد کی حالت تشویشناک ہے جبکہ مبینہ حملہ آور کی تحقیقات کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔
مبینہ حملہ آور کون ہے؟
ریاست زاکسن انہالٹ کے سربراہ رینر ہاسلوف نے صحافیوں کو بتایا کہ جائے وقوعہ سے 50 سالہ سعودی شہری کو گرفتار کیا گیا ہے جو 2006 میں جرمنی آئے تھے اور یہاں بطور ڈاکٹر کام کر رہے تھے۔
ان کے مطابق ابتدائی تفتیش میں معلوم ہوا ہے کہ مبینہ حملہ آور اکیلا تھا۔
پراسیکیورٹر ہورسٹ والٹر نوپنز نے سنیچر کو بتایا کہ تحقیقات جاری ہے تاہم یہ ممکن ہے کہ مبینہ حملہ آور ’جرمنی میں سعودی عرب سے آنے والے پناہ گزین کے ساتھ سلوک پر مشتعل ہوا ہو۔‘
پولیس کا خیال ہے کہ العبدالمحسن اپنی کار میں ایک ایسے داخلے کے راستے سے کرسمس مارکیٹ میں داخل ہوئے جو ایمرجنسی سروسز کی گاڑیوں کے لیے مختص تھا۔
ملزم ایک ماہرِ نفسیات ہے جو ماگڈیبرگ سے 40 کلومیٹر جنوب میں واقع برنبرگ نامی علاقے میں رہائش پذیر تھا۔
اگرچہ وہ 2006 میں جرمنی آئے تھے تاہم انھیں پناہ گزین کا درجہ سنہ 2016 میں ملا تھا۔ وہ ایک ویب سائٹ چلاتے تھے جس کے ذریعے خلیجی ممالک میں تشدد سے بچ کر جرمنی میں پناہ لینے والے مسلمانوں کی مدد کی جاتی تھی۔
جرمنی نے مبینہ حملہ آور سے متعلق سعودی انتباہ کو ’نظر انداز کیا‘: فرینک گارڈنر کا تجزیہ
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
سعودی حکام اس وقت ماگڈیبرگ میں حملے کے ملزم طالب العبدالمحسن سے متعلق وہ تمام تر دستیاب معلومات جمع کر رہے ہیں جو جرمن تفتیش کاروں کے ساتھ شیئر کی جائیں گی۔
ریاض میں سعودی وزارت خارجہ کی قلعہ نما دیواروں کے اندر شاید کچھ مایوسی ہو گی کیونکہ سعودی عرب نے جرمن حکومت کو ملزم کے انتہا پسند خیالات کے بارے میں ماضی میں متعدد مرتبہ متنبہ کیا تھا۔
سعودی عرب نے جرمنی کو چار مرتبہ انتباہ ’نوٹس وربل‘ بھیجا تھا، تین مرتبہ جرمنی کے خفیہ اداروں کو اور ایک بار برلن میں وزارت خارجہ کو۔ سعودی حکام کے مطابق اس پر جرمنی کی جانب سے کوئی جواب نہ دیا گیا۔
اس کی ایک وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ طالب العبدالمحسن کو جرمنی کی حکومت نے سنہ 2016 میں پناہ دے دی تھی۔ سنہ 2015 میں سابق جرمن چانسلر اینگلا مرکل نے مشرق وسطیٰ سے ایک لاکھ سے زیادہ پناہ گزینوں کے لیے ملکی سرحدیں کھول دی تھیں تاہم مبینہ حملہ آور اس سے بھی 10 سال قبل جرمن آ گیا تھا۔
اگرچہ ملزم کا تعلق ایک ایسے ملک (سعودی عرب) سے ہے جہاں اسلام کے علاوہ کسی مذہب کے عوامی اظہار کی اجازت نہیں اور ایسی صورتحال میں وہ (ملزم) غیر معمولی سعودی شہری ہیں۔ وہ اسلام سے منھ موڑ کر کئی لوگوں کی نظروں میں ’ملحد‘ بن گئے تھے۔
وہ سعودی شہر ہفوف میں سنہ 1974 میں پیدا ہوئے اور اُن کی ابتدائی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ انھوں نے 32 سال کی عمر میں سعودی عرب چھوڑ کر یورپ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔
وہ سوشل میڈیا پر اپنے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر متحرک رہے ہیں اور خود کو ماہرِ نفسیات اور سعودی عرب میں انسانی حقوق کی تحریک کا بانی کہتے ہیں۔ وہ ’سعودی ایکس مسلمز‘ (یعنی سعودی عرب کے سابقہ مسلمان) کی اصطلاح بھی استعمال کرتے ہیں۔
انھوں نے ایک ایسی ویب سائٹ بھی بنائی تاکہ ملک سے فرار ہو کر یورپ آنے والی سعودی خواتین کی مدد کی جا سکے۔
سعودی عرب کا دعویٰ ہے کہ وہ (ملزم) انسانی سمگلنگ میں ملوث تھے۔ سعودی وزارت داخلہ کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس مبینہ حملہ آور سے متعلق ایک مفصل فائل ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران ایسی اطلاعات آئی ہیں کہ سعودی حکومت کے ایجنٹس کینیڈا، امریکہ اور جرمنی میں پناہ لینے والے شہریوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وفاقی اور ریاستی جرمن حکام نے ملزم کے کیس میں سنگین غلطیاں کی ہوں اور کئی باتوں کو نظر انداز کیا ہو۔
سعودی حکام کا دعویٰ ہے کہ ملزم کے انتہا پسند خیالات سے متعلق متعدد تنبیہی پیغامات پر جرمنی کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ جواب نہ دینے کی کوئی بھی وجہ ہو، لیکن ممکن ہے کہ ملزم میزبان ملک کے لیے خطرہ تھے۔
یہ کوتاہی بھی ہوئی کہ ماگڈیبرگ کے کرسمس بازار میں جانے کے لیے اس راستے کو بند نہ کیا جا سکا جو ایمرجنسی سروسز کے لیے مختص تھا۔ وہ مبینہ طور پر اسی راستے سے اپنی بی ایم ڈبلیو کار پر بھیڑ والے علاقے تک پہنچے۔
جرمن حکام نے مارکیٹ کے لیے سکیورٹی انتظامات کا دفاع کیا اور کہا کہ ملزم کے ماضی کے حوالے سے تحقیقات جاری ہے۔
مگر ایک پیچیدہ معاملہ یہ ہے کیونکہ سعودی عرب، جسے مغرب کا دوست اور اتحادی سمجھا جاتا ہے، میں انسانی حقوق کا خراب ریکارڈ ہے۔
جون 2018 تک سعودی خواتین پر کار چلانے پر پابندی تھی اور ماضی میں جو خواتین اس پابندی کے خلاف آواز اٹھاتی تھیں انھیں تشدد اور قید کی سزائیں دی جاتی تھیں۔
نوجوان سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ملک میں کافی مقبول ہیں۔ تاہم ان پر 2018 میں صحافی اور ناقد جمال خاشقجی کے قتل کا الزام لگا تھا اور تب سے مغربی رہنماؤں نے ان سے کنارہ کشی اختیار کی ہے۔ سعودی ولی عہد اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔ تاہم سعودی عرب میں ان کی قسمت کا ستارہ آج بھی چمک رہا ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں سعودی عرب میں روزمرہ کی عوامی زندگی بہتری کی طرف گئی ہے۔ مرد و خواتین اب آزادی سے میل جول کر سکتے ہیں، سنیما کھل چکے ہیں جبکہ کھیل اور تفریح کے عالمی مقابلوں کی میزبانی ہو رہی ہے۔
مگر یہاں ایک تضاد پایا جاتا ہے۔
سعودی عرب میں شہری زندگی میں بہتری کے ساتھ ساتھ سیاسی و مذہبی آزادی کے خلاف کریک ڈاؤن بھی دیکھا گیا ہے۔ صرف ٹویٹس کی بنیاد پر لوگوں کو 10 سال یا اس سے زیادہ قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔
ملک کس طرح چلایا جا رہا ہے، اس پر سوال اٹھانے کی کسی کو اجازت نہیں۔ بظاہر جرمنی نے اسی تناظر میں طالب عبدالمحسن کے کیس میں کوتاہی کی۔
SOURCE : BBC