SOURCE :- BBC NEWS

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سنیچر کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کیا

،تصویر کا ذریعہReuters

  • مصنف, امبراسن ایتھیراج
  • عہدہ, ساؤتھ ایشیا ریجنل ایڈیٹر
  • ایک گھنٹہ قبل

انڈیا میں دہائیوں سے ایسا دیکھا گیا ہے وزارتِ خارجہ میں اگر کوئی ایک چیز ممنوع رہی ہے تو وہ کسی تیسرے فریق کی ثالثی ہے، بطور خاص پاکستان کے ساتھ کشمیر کے مسئلے پر طویل عرصے سے جاری تنازعے میں یہ بات زیادہ اہمیت کی حامل رہی ہے۔

اپنی غیر روایتی سفارت کاری کے لیے معروف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب دہلی کے لیے ایک حساس معاملے کو چھیڑ دیا تو ماہرین کو زیادہ حیرانی نہیں ہوئی۔

سنیچر کو انھوں نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ امریکی ثالثی میں انڈیا اور پاکستان چار دن کی شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد ’مکمل اور فوری جنگ بندی‘ پر رضامند ہو گئے ہیں۔

بعد میں ایک اور پیغام میں انھوں نے کہا: ’میں آپ دونوں کے ساتھ مل کر کام کروں گا تاکہ ایک ہزار سال بعد کشمیر کے معاملے کا کوئی حل نکالا جا سکے۔‘

واضح رہے کہ کشمیر کا تنازع سنہ 1947 میں برطانوی راج سے آزادی اور تقسیم ہند کے بعد قیام پاکستان سے شروع ہوا تھا۔ دونوں ممالک کشمیر پر اپنا اپنا مکمل دعویٰ پیش کرتے ہیں لیکن وہ صرف اس کے کچھ حصے پر اپنا کنٹرول رکھتے ہیں۔

لیکن کئی دہائیوں پر محیط دوطرفہ مذاکرات کے کئی ادوار کے باوجود کوئی حل سامنے نہیں آیا۔ کشمیر کو انڈیا اپنی ریاست کا لازمی حصہ سمجھتا ہے اور کسی بھی قسم کی بات چیت، بطور خاص تیسرے فریق کی ثالثی، کو مسترد کرتا ہے۔

تازہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب انڈیا نے گذشتہ ماہ انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں سیاحوں پر حملے کے بعد پاکستان میں مبینہ دہشت گردی کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے۔ اس حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر سیاح تھے۔

انڈیا نے اس واقعے کا الزام پاکستان پر لگایا جسے اسلام آباد مسترد کرتا ہے۔

قدرتی مناظر سے مالامال خطے کشمیر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

صدر ٹرمپ کی مداخلت اس وقت سامنے آئی جب دونوں جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایہ ممالک کے درمیان تنازعہ مکمل جنگ کی شکل اختیار کرنے کے خطرے سے دوچار تھا۔

دونوں طرف سے لڑاکا طیاروں، میزائلوں اور ڈرونز کا استعمال کیا جا رہا تھا اور دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ ایک دوسرے کے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، خاص طور پر سرحدی علاقوں میں۔

اگرچہ امریکی ثالثوں اور سفارتی بیک چینلز نے بڑے پیمانے پر تصادم کو روکا، لیکن صدر ٹرمپ کی پیشکش نے دہلی کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔

سابق انڈین سیکریٹری خارجہ شیام سرن نے بی بی سی کو بتایا: ’یقینی طور پر انڈین فریق اس (پیشکش) کو خوش آئند نہیں سمجھے گا کیونکہ یہ ہمارے کئی برسوں کے طے شدہ مؤقف کے خلاف ہے۔‘

دوسری طرف اسلام آباد نے ٹرمپ کے بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا: ’ہم صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ جموں و کشمیر کے حل کی کوششوں کی حمایت کی پیشکش کو سراہتے ہیں۔ یہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے جو جنوبی ایشیا اور اس سے آگے امن و سلامتی پر سنگین اثرات ڈال سکتا ہے۔‘

سنہ 2019 میں جب انڈیا نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تو اس کا موقف کشمیر پر سخت ہو گیا اور اس کے بعد کشمیر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔

صدر ٹرمپ کے حالیہ تبصروں نے بہت سے انڈینز کو ناراض کیا ہے۔ وہ ان کے بیان کو مسئلہ کشمیر کو ’بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے‘ کی کوشش سمجھتے ہیں۔

انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر

،تصویر کا ذریعہReuters

انڈیا میں حزب اختلاف کی بڑی جماعت کانگریس پارٹی نے حکومت سے وضاحت طلب کی ہے اور واشنگٹن ڈی سی کی جانب سے سب سے پہلے ’جنگ بندی کا اعلان‘ کیے جانے پر آل پارٹی اجلاس کا مطالبہ کیا ہے۔

کانگریس پارٹی کے ترجمان جے رام رمیش نے کہا: ’کیا ہم نے تیسرے فریق کی ثالثی کے لیے دروازے کھول دیے ہیں؟ انڈین نیشنل کانگریس جاننا چاہتی ہے کہ کیا انڈیا اور پاکستان کے درمیان سفارتی رابطے دوبارہ بحال ہو رہے ہیں؟‘

دہلی نے اسلام آباد کے ساتھ بات چیت کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔ وہ اس پر سرحد پار سے دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگاتا ہے۔

تاریخی طور پر انڈیا نے کسی بھی تیسرے فریق کی ثالثی کی مخالفت کی ہے اور اس کی بنیاد سنہ 1972 میں کیے جانے والے شملہ معاہدے پر ہے۔ یہ معاہد دونوں ممالک کے درمیان سنہ 1971 کی جنگ کے بعد ہوا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق دونوں ممالک کے رہنماؤں نے ’اپنے اختلافات کو پرامن طریقے سے دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا۔‘

انڈین حکام کا یہ بھی مؤقف ہے کہ جب وہ پاکستان کی سویلین حکومت کے ساتھ کوئی مفاہمت کرتے ہیں تو ملک کی طاقتور فوج ان معاہدوں کو سبوتاژ کرتی ہے۔ وہ 1999 کی کارگل جنگ کی مثال دیتے ہیں، جو اس وقت شروع ہوئی جب پاکستانی حمایت یافتہ عسکریت پسندوں نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا۔

یہ تنازع اس وقت ابھرا تھا جب دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے اور ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت پر اتفاق کیا تھا۔

انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے اب تک صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش پر کوئی باضابطہ ردعمل نہیں دیا ہے۔

تاہم وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا: ’انڈیا نے ہر شکل میں دہشت گردی کے خلاف ہمیشہ سخت اور غیرلچکدار مؤقف اختیار کیا ہوا ہے اور وہ اس پر قائم رہے گا۔‘

اسے اس بات کی علامت سمجھا جا رہا ہے کہ انڈیا جلد ہی براہِ راست دوطرفہ بات چیت شروع کرنے کا خواہشمند نہیں ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف

پاکستان کا نقطۂ نظر مختلف ہے۔

اسلام آباد میں سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امتیاز گل نے بی بی سی کو بتایا: ’پاکستان ہمیشہ سے کشمیر کے مسئلے پر تیسرے فریق کی ثالثی چاہتا رہا ہے، کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد کا فقدان ہے۔‘

انھوں نے کہا: ’اب جبکہ ایک عالمی طاقت اس تنازع پر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے تو پاکستان اسے اخلاقی فتح کے طور پر دیکھے گا۔‘

پاکستان میں دفاعی امور کے ماہر سید محمد علی کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب سے مسلسل انکار ہی بین الاقوامی برادری کو مداخلت پر مجبور کرتا ہے تاکہ مستقبل کے کسی ممکنہ تنازعے سے بچا جا سکے۔

انھوں نے کہا: ’کشمیر بین الاقوامی برادری کے لیے انتہائی اہم مسائل میں سے ایک ہے۔ تیزی سے بڑھنے والی حالیہ کشیدگی یہ ثابت کرتی ہے کہ حالات (کبھی بھی) قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔‘

نریندر مودی کے سنہ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد انڈیا کی جارحانہ سفارت کاری کو ایک ابھرتی ہوئی عالمی معاشی طاقت کے اعتماد کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

لیکن انڈیا کو اب ایک مشکل توازن قائم کرنا ہو گا تاکہ ٹرمپ کی ثالثی کی کوششوں کو روکا جا سکے۔

امریکہ نے حالیہ برسوں میں انڈیا کو چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف ایک اہم شراکت دار کے طور پر اپنایا ہے۔ انڈیا کواڈ گروپ کا اہم رکن ہے جس میں امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان شامل ہیں اور اسے انڈو پیسیفک خطے میں چینی توسیع پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم کیا گیا۔

انڈین وزیر اعظم مودی نے گذشتہ رات قوم سے خطاب کیا

،تصویر کا ذریعہPTI

حالیہ دہائیوں میں واشنگٹن نے انڈیا کو جدید طیارے، ہیلی کاپٹرز اور دیگر عسکری ساز و سامان بھی فراہم کیا ہے۔ انڈیا 14 لاکھ فوجیوں پر مشتمل اپنی فوج کو جدید بنانے کا خواہاں ہے۔ ابھی تک وہ روسی ہتھیاروں پر بہت زیادہ انحصار کرتی رہی ہے۔

گذشتہ امریکی حکومتیں انڈیا کی کشمیر کے حوالے سے حساسیت سے آگاہ تھیں اور اس میں مداخلت سے گریز کرتی رہی ہیں۔ لیکن ٹرمپ کے ساتھ یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ آیا وہ پالیسی اب بھی برقرار ہے یا نہیں۔

امریکہ انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور گذشتہ سال سنہ 2024 تک دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت تقریباً 130 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ مودی حکومت اس وقت واشنگٹن کے ساتھ ایک تجارتی معاہدے پر بات چیت کر رہی ہے تاکہ محصولات سے بچا جا سکے۔

دہلی کے لیے اب ایک نازک راہ پر چلنا اس کی مجبوری نظر آ رہی ہے۔ وہ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش، یا امریکہ کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کو موجودہ عسکری کشیدگی سے آگے بڑھنے نہیں دینا چاہے گا لیکن اس کے ساتھ وہ امریکہ کے ساتھ خوشگوار تجارتی تعلقات بھی برقرار رکھنا چاہے گا۔

اگر دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کو آگے بڑھانے کی کوشش دریاؤں کے پانی کو روکنے یا کشمیر کی حیثیت تک جاتی ہے تو یہ اندرونِ ملک شدید تنقید کو جنم دے گا اور وزیر اعظم مودی اس پھندے سے بخوبی واقف ہیں۔

SOURCE : BBC