SOURCE :- BBC NEWS

- مصنف, لینا سنجاب
- عہدہ, نامہ نگار برائے مشرق وسطی
-
21 منٹ قبل
آٹھ دسمبر 2024 کی صبح میں لبنانی سرحد پر بے صبری سے راہداری کھلنے کا انتظار کر رہی تھی تاکہ جلد از جلد شام میں داخل ہو سکوں۔ تاہم میں یہ نہیں جانتی تھی کہ آگے میرے ساتھ کیا ہو گا۔
بشار الاسد کی 24 سالہ صدارت کا دور ختم ہو چکا تھا۔ حریف جنگجو حلب سمیت ملک کے دیگر بڑے شہروں پر قبضہ حاصل کر کے دمشق کی جانب پیش قدمی کر چکے تھے۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا دیکھ رہی ہوں۔ شام آزاد ہو چکا تھا۔
بہت سے شامیوں کی طرح میں نے شام پر صرف اسد اور ان کے والد حفیظ کی حکومت کو دیکھا تھا جو سنہ 1971 سے سنہ 2000 تک اقتدار میں تھے۔ بشار الاسد کے دور حکومت میں زندگی کا مطلب 50 سال سے زیادہ لاپتہ ہونا، قید رہنا تھا اور سنہ 2011 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی جس نے لاکھوں شامیوں کی جانیں لی تھیں۔
مجھے اس سال جب شام میں بغاوت کا آغاز ہوا، قید کیا گیا تھا اور اس کے بعد بھی متعدد بار قید کیا گیا۔ میں نے لوگوں کو قطار میں کھڑے مار کھاتے دیکھا ہے اور ان کی چیخیں سنی ہیں۔ سنہ 2013 میں ملک چھوڑنے کے بعد بھی مجھے معلوم ہوا کہ سکیورٹی فورسز نے دمشق میں میرے اپارٹمنٹ میں گھس کر توڑ پھوڑ کی تھی۔
میں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ میں نے ہمیشہ کے لیے اپنے وطن کو کھو دیا ہے مگر پھر اچانک پچھلے سال آمریت صرف ایک ہفتے میں ختم ہو گئی۔ جب میں گرفتاری کے خوف کے بغیر سرحد پار کر کے ملک میں داخل ہوئی اور باغی جنگجوؤں کو جشن مناتے ہوئے ہوائی فائرنگ کرتے اور لوگوں کو سڑکوں پر خوشی مناتے دیکھا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں بھی خوشی میں ایک ساتھ رو اور ہنس رہی ہوں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
کئی ہفتوں تک دمشق کا مرکزی عماید سکوائر جشن کا مرکز بنا رہا۔ نوجوان اور بوڑھے سیاست پر آزادانہ گفتگو کرتے تھے اور ہر جگہ، ہر گلی میں دکانداروں اور ٹیکسی ڈرائیوروں سے لے کر جوتے صاف کرنے والے لڑکوں کے درمیان شام کے مستقبل پر کھل کر بحث ہوتی تھی۔ یہ سب کچھ اسد کے دور میں ناقابل تصور تھا کیونکہ شامی کبھی بھی انتقامی کارروائیوں کے خوف سے آزادانہ احتجاج نہیں کر سکتے تھے۔
ابھی شام کو بشار الاسد کے دور سے آزاد ہوئے صرف چار ماہ ہوئے ہیں لیکن صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو گئی ہے۔ اگرچہ کچھ سماجی آزادیوں کو حاصل کرنے میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے لیکن جمہوریت کیسی ہوگی اور نئی حکومت میں سخت اسلامی قوانین کا کتنا کردار ہوگا، اس بارے میں خدشات پائے جاتے ہیں۔
ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا کہ یہ حاصل کردہ سماجی آزادی کب تک یا کتنی دیر تک رہ سکتی ہے جیسا کہ کچھ کو یہ خطرہ ہے کہ یہ آزادی قلیل المدت ہو سکتی ہے؟
بہت سے افراد کے لیے جلاوطنی سے واپسی
وسطی دمشق میں پارلیمنٹ کے بالکل سامنے راودا کیفے میں، دانشور شیشہ پینے اور ثقافت پر بحث کرنے کے لیے میزوں کے گرد جمع ہیں۔ اسد کے دور میں سیاسی کارکنوں کو وہاں سے اٹھا کر گرفتار کیا گیا تھا۔ افواہ یہ تھی کہ یہاں کے کچھ ویٹر حکومت کے مخبر تھے۔
لیکن آج یہ ایک بہت مختلف تصویر ہے۔ یہ کیفے اب مذاکروں اور موسیقی کے ڈراموں کی میزبانی کرتا ہے۔ ممتاز شخصیات جو کبھی ملک سے بھاگ گئی تھیں وہ بھی واپس آچکی ہیں، بہت سے لوگوں کا استقبال ایک بینڈ کے ذریعے کیا جاتا ہے جو بڑے ڈھول کے ساتھ روایتی گانے بجاتے ہیں۔

شامی صحافی محمد غنم ان میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ انھوں نے اسد کی حکومت کے دوران کئی ماہ جیلوں میں گزارے اور بعد میں فرانس چلے گئے۔ وطن واپسی پر اس کی خوشی قابل دید ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘میرے خیال میں ہر وہ شخص جو واپس آسکتا ہے، اسے دوبارہ ملک کی تعمیر کے لیے واپس آنا چاہیے۔’ وہ کہتے ہیں کہ آٹھ دسمبر 2024 سے پہلے اور آج کے مقابلے میں ملک میں سب کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ جو کرنا چاہے کریں۔’
ماضی کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ‘حتیٰ کہ اس دور میں مساجد کے اماموں کو اجازت لینا پڑتی تھی کہ وہ کیا تبلیغ کریں، مگر آج سب کو مکمل آزادی ہے۔ جمعے کے خطبے میں امام یہ کہہ رہے تھے کہ آپ کی ذاتی آزادی کسی اور شخص کی آزادی کی راہ میں نہیں آنی چاہیے۔’

عدی الزوبی بھی حال ہی میں 14 سال بعد شام واپس آئے ہیں۔ وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے چلے گئے تھے لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اس سے پہلے واپس نہیں آسکتے تھے کیونکہ وہ حکومت کے بارے میں کھل کر بولتے تھے۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ ‘یہاں میری کتابوں پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اب کوئی سنسر شپ نہیں ہے، آپ جو چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔ میں بہت حیران ہوا کہ بہت سے لوگ پڑھنا چاہتے ہیں اور مزید جاننا چاہتے ہیں۔’
‘یہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔’ شامی دستاویزی فلم بنانے والے اور شام کے سابق صدر نورالدین العطاسی کے بیٹے علی العطاسی نے اس بات سے اتفاق کیا۔ (ان کے والد کو حافظ الاسد نے ایک بغاوت میں معزول کر دیا تھا۔)
وہ کہتے ہیں کہ ‘اس نے کھیل کے اصولوں کو بدل دیا ہے اور ملک کے لیے بہت سے نقطہ نظر کھول دیے۔’
فن و ثقافت کا تحفظ
شام کی فنون اور ثقافت کا منظرنامہ ایک طویل عرصے سے ملک کے لیے قابل فخر رہا ہے۔ اس ثقافتی ورثے کو دنیا کے سامنے لانے میں اسد خاندان نے اس کی بھرہور حمایت کی تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ فنکاروں اور ادیبوں کو حکومت کے بارے میں اپنے خیالات کے اظہار کے سبب جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔
شام میں اس دوران کچھ مخصوص کتابوں کا رکھنا بھی گرفتاری کی وجہ بن جاتا تھا۔ تاہم آج دارالحکومت کے اردگرد دکانوں میں سیاسی موضوعات سمیت ہر قسم کی کتابیں نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ سنیما کلب اب وہ فلمیں بھی دکھا رہے ہیں جن کی اس سے قبل نمائش ممنوع قرار دے دی گئی تھی۔
بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد کئی ہفتوں تک نگراں حکومت نے وزیرِ ثقافت مقرر نہیں کیا تاہم اس دوران موسیقاروں اور فنکاروں نے یکجا ہو کر ثقافتی منظرنامے کی حفاظت کی۔


بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
اب البتہ ایک نئی تشویش جنم لے رہی ہے۔ کچھ لوگوں کو تشویش ہے کہ جس طرح بشار الاسد کے دور میں سیاسی مباحث کو دبایا گیا تھا اب موجودہ حکومت میں کہیں علما کی طرف سے ایسا جبر سامنے نہ آ جائے جس میں بعض فنون کو مذہب مخالف قرار دے کر ان پر پابندی لگا دی جائے۔
تاہم ان خدشات کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں۔ شام کے عبوری صدر کے بھائی ڈاکٹر ماہر الشرع کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ شہر کے اوپیرا ہاؤس میں دیکھا گیا ہے جہاں شامی موسیقاروں کی بجائی گئی عمدہ دھنوں سے وہ لطف اندوز ہو رہے تھے۔
اس ماحول میں ان کا خاندان کسی بھی ماڈرن خاندان کی مانند دکھائی دیتا تھا جو ویک اینڈ پر کسی ثقافتی سرگرمی میں حصہ لے کر لطف اندوز ہونے آیا ہو۔
اسد حکومت کے زوال کے بعد دمشق کے جس حصے میں یہودی آباد تھے وہاں کے تاریخی اہمیت کے حامل مکان، بیت فرحی میں ایک ثقافتی تقریب منعقد کی گئی جس میں سنیما، موسیقی، تھیٹر اور پرفارمنسز پر گفتگو ہوئی۔
اور وہیں آرکسٹرا پر انقلابات اور مرنے والوں کی تعریف میں نغمے پیش کیے جس نے حاضرین محفل کی آنکھیں نم کر دیں۔
کوریوگرافر نورا مراد کہتی ہیں کہ ‘خوش آئند بات یہ ہے کہ ہمیں یہ موقع ملا ہے کہ ہم آپس میں بیٹھ کر شامی فنون کو تحفظ دینے اور اس کی حمایت کی بات کر سکیں۔’
علی العطاسی بھی پُرامید رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘مجھے یقین ہے کہ شامی عوام اس حکومت کو اپنی نجی زندگیوں میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دیں گےاور نہ ہی یہ طے کرنے کی اجازت دیں گے کہ عوامی مقامات پر کس طرح کا رویہ اختیار کیا جائے۔’
اختیارات کا ارتکاز
اسد حکومت کے خلاف بغاوت کی قیادت کرنے والے احمد الشرع کو 29 جنوری کو ایک عسکری کونسل کے ذریعے صدر مقرر کیا گیا تو اس وقت انھوں نے اپنی تقریر میں اس بات پر زور دیا تھا کہ ‘اختیارات کے خلا کو جائز اور قانونی طریقے سے پُر کرنا’ ان کی اولین ترجیح ہے۔
تاہم آج کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی کچھ افراد کو خدشہ ہے کہ کیا واقعی دیرپا جمہوریت قائم ہو سکے گی۔
شام میں فی الحال کوئی ایسا نظام موجود نہیں ہے جو صدر سمیت دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو احتساب کے دائرے میں لا سکے تاوقتییکہ مستقل آئین نافذ نہ ہو اور انتخابات نہ ہو جائیں۔
علی العطاسی کہتے ہیں کہ ‘گزشتہ چند ماہ میں حکومت نے اقتدار کو منتقل کرنے یا دیگر سیاسی و سماجی قوتوں کو معاشرے میں جگہ بنانے کا موقع دینے کے لیے آمادگی ظاہر نہیں کی۔ جب تک سیاسی میدان کو دیگر قوتوں کے لیے کھولا نہیں جاتا، میرا نہیں خیال کہ احمد الشرع شام کو بین الاقوامی سطح پر دوبارہ لا کھڑا کر سکیں گے۔’

،تصویر کا ذریعہGetty Images
فروری 2025 میں دمشق کے صدارتی محل میں دو روزہ قومی مکالمہ کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد شام کے مستقبل پر گفتگو کرنا تھا۔اس تقریب میں سینکڑوں افراد شریک ہوئے۔
یہاں موجود بعض ناقدین کا کہنا تھا کہ جلد بازی میں منعقد کیا گیا یہ اجلاس اتنا مختصر تھا کہ اس میں تمام اہم موضوعات کا احاطہ ہی نہیں ہو سکا۔
شامی ماہر قانون اور سید اینڈ سید لا فرم کے مینیجنگ پارٹنر عبدالحی سید کےمطابق یہ اجلاس نہ تو نمائندہ تھا اور نہ ہی اجتماعی اتفاق رائے کی عکاسی کرتا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ‘یہ وسیع تر منظوری کا تاثر دینے کے لیے ایک طریقہ کار کے طور پر ترتیب دیا گیا تھا جہاں شامی معاشرے کے بڑے حصے نے خود کو خارج یا غیر نمائندہ محسوس کیا۔’
تاہم ساتھ ہی وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ‘یہ اس بات کا اشارہ ضرور ہے کہ نئی قیادت مشاورت کے دائرے کو وسعت دینے کی کچھ حد تک خواہش مند ضرورہے۔’
احمد الشرع، جو کہ ہیئت التحریر الشام کے سابق سربراہ رہ چکے ہیں، نے واضح طور پر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ایک ایسا ملک قائم کریں گے جہاں ‘آزاد اور غیرجانبدار انتخابات’ ہوں گے۔
انھوں نے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے جو آئندہ پانچ سالہ عبوری مدت کے لیے آئینی اعلامیہ تیار کرے گی۔ تاہم بعد میں سامنے آنے والے اس اعلامیے میں اختیارات کی تقسیم کا کوئی واضح لائحہ عمل نہیں بتایا گیا تھا۔
علی العطاسی کے مطابق ‘انھیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ تمام گروہوں کی سیاسی شراکت داری کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔’

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اس حوالے سے کچھ مثالیں ضرور موجود ہیں جیسے کہ ایک مسیحی خاتون کو وزیر برائے سماجی امور مقرر کیا جانا جبکہ وائٹ ہیلمٹس کے سربراہ کو ایمرجنسی اور آفات کے وزیر کے طور پر تعینات کرنا۔ تاہم بعض افراد نے صدر کے امور کے سربراہ کے طور پر احمد الشرع کے بھائی کی تقرری پر سوال اٹھائے ہیں۔
عبدالحی سید کہتے ہیں کہ ہیئت التحریر الشام کے سابق اعلیٰ عہدے دار اب اہم ریاستی عہدوں پر براجمان ہیں۔”
دوسری جانب علی العطاسی مزید دعویٰ کرتے ہیں کہ ‘بین الاقوامی قانون کے ماہر باصلاحیت افراد کو کابینہ میں شامل نہیں کیا گیا، بلکہ انھیں نظر انداز کر دیا گیا۔’
وزیر انصاف نے شریعت (اسلامی قانون) میں ڈگری حاصل کر رکھی ہے تاہم وہ شام کے سول کوڈ کے ماہر نہیں ہیں جو بڑی حد تک فرانسیسی اور عثمانی قانون پر مبنی ہے۔ اس تناظر میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا سول قوانین کے بجائے شریعت پر مبنی قوانین کو نافذ کیے جا سکتے ہیں؟
عبدالحی سید کا کہنا ہے کہ ‘ابھی تک شام کی نئی قیادت نے موجودہ قانونی ضابطوں کو شریعت پر مبنی قانون سازی سے بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ تاہم یہ ایک ایسا پہلو ہے جس پر ہم مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔’
ان کے مطابق ‘سب سے اہم خدشہ یہ ہے کہ آیا عدلیہ کی آزادی بحال کی جائے گی اور اس کی مؤثر حفاظت کی جائے گی یا نہیں۔’
خواتین اور مذہبی آزادی
بشار الاسد حکومت کے دوران خواتین کو نسبتاً مساوی حقوق حاصل رہے۔ شام میں سنہ 1950 کی دہائی سے خواتین نہ صرف پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھتی رہی ہیں بلکہ تقریبا تمام شعبوں میں ان کی موجودگی نمایاں دکھائی دیتی رہی ہے۔
اب تک کوئی نیا تحریری قانون ایسا سامنے نہیں آیا جو اس صورتحال میں تبدیلی ظاہر کرے لیکن اس کے برعکس کچھ تشویشناک علامات ضرور ابھری ہیں۔
عبوری حکومت میں صرف ایک خاتون کو شامل کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کالج لندن اور میک گل یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق خواتین کے حقوق کے حامی کارکنوں نے ہیئت تحریر الشام کی جانب سے اسلامی قوانین کی ایسی تشریح نافذ کرنے پر خدشات کا اظہار کیا ہے جو خواتین کی نقل و حرکت، لباس اور عوامی زندگی میں شرکت پر سخت پابندیوں کا باعث بنے۔
عبدالحی سید کہتے ہیں کہ ‘ایک اہم پہلو جس پر نظر رکھنا ضروری ہے وہ ہے عدلیہ میں تقریباً 35 سے 40 فیصد خواتین کی شمولیت۔ اب آیا اس کو نظرانداز کیا جائے گا یا نہیں۔ گو کہ اب تک ایسا کوئی رجحان سامنے نہیں آیا، لیکن اس حوالے سے مسلسل نظر رکھنا ضروری ہے۔’
جہاں تک مذہبی آزادی کا تعلق ہے ابھی تک کوئی نیا قانون یا حکم نامہ ایسا نہیں آیا جو سماجی زندگی پر پابندیاں عائد کرے لیکن کچھ شامی شہریوں نے ایسے واقعات کی نشاندہی کی ہے جو اسلامی قوانین نافذ کرنے کی بظاہر ایک کوشش معلوم ہوتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
وزارتِ انصاف نے مرد و خواتین کے لیے علیحدہ داخلی راستے مقرر کرنا شروع کیے ہیں اور ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ کچھ مرد بسوں اور دمشق کی اموی مسجد میں خواتین کو مکمل نقاب پہننے کی ترغیب سے متعلق پمفلٹس تقسیم کرتے پائے گئے ہیں۔
دارالحکومت کے ایسے محلوں میں جہاں مسیحی مذہب کے لوگ رہائش پذیر ہیں وہاں گاڑیوں سے بلند آواز میں اسلام کی تبلیغ کرتی ریکارڈنگ کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
پرانے شہر میں بارز اور ریستورانٹ بند کرنے کا حکم بھی پرزور عوامی دباؤ کے بعد واپس لیا گیا۔
دمشق اپنی رواداری کے لیے مشہوررہا ہے تاہم بعض حلقے متفکر ہیں کہ نئی حکومت کا پس منظر سلفی (سخت گیر، قدامت پسند سنی مسلم مکتب فکر) ہے۔
عبدالحی سید کہتے ہیں کہ ‘مذہبی اقدار کی طرف واپسی کا مطالبہ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور مساوی شہریت پر یقین رکھنے والوں کے لیے ان افراد کے لیے ایک مشکل چیلنج ہے۔’
سول سوسائٹی کی تحقیقی تنظیم ‘امپیکٹ’ سے وابستہ ایک شامی ماہر تعلیم حسام جازمتی اسلامی تحریکوں پر تحقیق کرنے والے ایک مفکر ہیں۔
حسام کا دعویٰ ہے کہ احمد الشرع اسلامی اور غیر اسلامی دونوں طرح کی سیاسی تحریکوں کی حمایت نہیں کرتے۔ نہ وہ اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اسے ممکن سمجھتے ہیں۔
ان کے مطابق ‘نہ وہ ایسا چاہتے ہیں اور نہ وہ کر سکتے ہیں’
اگرچہ حکومت سخت گیر نظریات نافذ کرنا بھی چاہے تو سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایسا کر بھی پائے گی؟ دمشق کے ایک امام علاء الدین السییک کا اس سوال کے جواب میں کہنا ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شامی معاشرہ ایسی کسی بھی کوشش کو مسترد کر دے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘یہ ناممکن ہے۔ ہمارا معاشرہ اسے قبول نہیں کرے گا۔ ہم نے سالوں سے حتیٰ کہ مشکل وقتوں میں بھی ہمیشہ مختلف فرقوں کے ساتھ ہم آہنگی سے زندگی گزاری ہے۔ قرآن واضح طورپر کہتا ہے کہ ‘دین میں کوئی کسی کو زبردستی داخل نہیں کیا جا سکتا۔’
مستقبل کے لئے مسابقتی وژن
آج شام میں ہر طرف کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ ساحلی شہروں میں ہونے والے پرتشدد واقعات میں مجموعی طور پر 1400 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے۔(یہ بشار الاسد کے اقلیتی مسلک سے وابستہ ہیں)۔
کہا جاتا ہے کہ یہ شامی سکیورٹی فورسز کے حملوں کا بدلہ تھے۔
دوسری جانب ملک کے شمال مشرق میں اگرچہ کردوں کی قیادت میں شامی جمہوری افواج (ایس ڈی ایف) نے 2019 میں نام نہاد دولت اسلامیہ کے خلاف فتح کا اعلان کیا تھا مگر اب بھی کیمپوں میں تقریباً 56 ہزار افراد موجود ہیں، جن میں زیادہ تر افراد نہاد دولت اسلامیہ سے وابستہ مشتبہ افراد کے اہل خانہ ہیں جنھیں پانچ سال بعد بھی انھیں رہائی نہ مل سکی۔
تاہم شام کو اس وقت سب سے اہم سوال درپیش ہے وہ یہ کہ شام کے لوگ اپنے مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں؟ حسام کے مطابق انھیں اس سلسلے میں قیادت اور ہیئت التحریر الشام کے درمیان کچھ تناؤ محسوس ہوتا ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ اگرچہ احمد الشرع کے قریبی ساتھی ایک ’قدامت پسند مگر معاشی طور پر آزاد‘ ریاست بنانا چاہتے ہیں، لیکن جس طرح اپنے بعض ساتھیوں کو انھوں نے مختلف عہدوں پر تعینات کیا گیا ہے اورجن پر انھیں اعتماد ہے اس سے لگتا ہے کہ وہ عوامی زندگی کو ’اسلامی رنگ دینے سے نہیں روک پا رہے۔‘
تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے بھی کچھ ایسی ہی تشویش ظاہر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شام اس وقت مختلف قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔
‘عبوری حکومت کے مالی وسائل ختم ہو رہے ہیں، سکیورٹی فورسز پر بوجھ بڑھ رہا ہے، غربت بڑھتی جا رہی ہے اور سرحدی علاقوں میں بغاوت کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ بیرونی مداخلت جاری ہے۔ مغربی پابندیاں قیادت کو ملک کی بحالی کے لیے ضروری وسائل سے محروم رکھ رہی ہیں، اور ساتھ ہی ٹوٹ پھوٹ یا خانہ جنگی کو دوبارہ دعوت دیتی دکھائی دے رہی ہیں۔’

،تصویر کا ذریعہGetty Images
علی العطاسی کے مطابق اس مسئلے کا حل واضح ہے کہ احمد الشرع کو سیاسی میدان کو کھولنا ہو گا۔
‘آج شام میں انتخابات نہیں ہو رہے، صرف نامزدگیاں ہو رہی ہیں۔ یہ بہت خطرناک رجحان ہے۔’
ایک توقف کے بعد انھوں نے کہا کہ ‘یہ ممکن ہے کہ ایک نئی آمریت جنم لے رہی ہو لیکن میں نہیں مانتا کہ شامی عوام پانچ دہائیوں کے بعد دوبارہ ایک اور آمریت کو قبول کریں گے۔ اور جہاں تک پائیدار جمہوریت کا تعلق ہے توہمیں انتظار کرنا ہو گا کہ کیا ہوتا ہے لیکن میں بالکل بھی پُرامید نہیں ہوں۔’
البتہ ایک اور بڑا سوال بھی ہے کہ کیا شام کی حالیہ تاریخ کے پیش نظر لوگ جمہوریت کے تصور سے ہی مایوس ہو چکے ہیں؟
عبدالحی سید کا ماننا ہے کہ ایسا ہو چکا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘اگرچہ اسد دور کے آئین نے بظاہر سیاسی آزادیوں کا اعلان کیا مگر ہمیں جدید سیاست کا تجربہ توپوں کے گولوں کی صورت میں ملا اور ہماری لاشیں حراستی کیمپوں میں بے یار و مددگار پڑی رہیں۔’
‘شامی عوام کے ایک بڑے طبقے نے جدید سیاست کے وعدوں پر سے اعتماد کھو دیا ہے۔ نئی قیادت کو درپیش بے شمار چیلنجز میں سے شاید یہ سب سے اہم ہے جس سے نبرد آزما ہو کر ہی وہ ملک کے مستقبل کے لیے ایک نیا راستہ متعین کر سکتی ہے۔
SOURCE : BBC