SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
14 منٹ قبل
’آپ شوق سے گائے کا پیشاب پیئیں، روح افزا ہمارے لیے رہنے دیں۔‘
انڈیا میں ایک مرتبہ پھر گائے کے پیشاب اور روح افزا کے حوالے سے مباحثہ نظر آ رہا ہے جس کی ابتدا اُس وقت ہوئی جب ایک صحافی نے حکمراں جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی، کے مرکزی رہنما اور ریاست مہاراشٹر کی کابینہ کے رُکن نتیش رانے سے سوال پوچھا کہ ’گرمی آ گئی ہے، تو آپ اِس سے مقابلہ کرنے کے لیے کیا پی رہے ہیں؟ روح افزا یا شربتِ گلاب؟‘
اِس کے جواب میں نتیش رانے نے کہا کہ وہ ’گوموتر‘ (گائے کا پیشاب) بہت پیتے ہیں کیونکہ اس کے صحت کے لیے بہت فوائد ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ انھیں نیک نیتی کے ساتھ روح افزا کون دے گا؟
واضح رہے کہ شربت روح افزا ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے پورے بر صغیر میں انتہائی مقبول مشروب ہے جبکہ یوگا گرو رام دیو کی کمپنی ’پتنجلی‘ شربتِ گلاب بناتی ہے۔
اس کہانی کی ابتدا اصل میں چند روز قبل ہوئی تھی۔ جب یوگا گرو رام دیو نے کہا تھا کہ ’سافٹ ڈرنکس اور شربت جہاد کے نام پر ٹوائلٹ کلینرز فروخت کیے جا رہے ہیں۔‘ اگرچہ انھوں نے کسی خاص شربت کا نام نہیں لیا تھا لیکن سوشل میڈیا پر فورا لوگوں نے اسے شربت روح افزا کو نشانہ بنانے کے مترادف قرار دیا۔
وائرل ہونے والے ویڈیو میں بابا رام دیو نے الزام لگایا کہ شربت جہاد والے اپنے منافع سے مساجد اور مدارس تعمیر کر رہے ہیں۔ انھوں نے یہ الزام عائد کرنے کے بعد لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ بازار میں دستیاب شربتوں کے بجائے ان کی کمپنی ’پتنجلی‘ کا گلاب شربت خریدیں۔

،تصویر کا ذریعہReuters

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
’پتنجلی‘ کی ویب سائٹ پر پوسٹ اس ویڈیو کے ساتھ یہ تحریر بھی ہے کہ ’شربت جہاد کے نام پر بیچے جا رہے ٹوائلٹ کلینر اور کولڈ ڈرنک کے زہر سے اپنے خاندان اور بچوں کو بچائیں۔ صرف پتنجلی کا شربت اور جوس ہی گھر میں لائیں۔‘
بابا رام دیو پر جب منافرت پھیلانے اور مذہبی بنیاد پر سماج کو تقسیم کرنے کا الزام لگایا گیا تو انھوں نے کہا کہ انھوں نے کسی مخصوص پراڈکٹ کا نام نہیں لیا تھا اور اگر روح افزا والوں نے ’شربت جہاد‘ کو ذاتی طور پر لے لیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ’شربت جہاد‘ کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ بابا رام دیو کے اس بیان کے خلاف روح افزا بنانے والی کمپنی ’ہمدرد‘ نے دلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ منگل (22 اپریل) کے روز اس کیس میں ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس امت بنسل نے ’شربت جہاد‘ سے متعلق بیان کو ’عدالت کے ضمیر کے لیے جھٹکا‘ اور ’ناقابلِ دفاع‘ قرار دیا ہے۔
’لائیو لا‘ کے مطابق ’ہمدرد‘ کمپنی نے عدالت میں یہ مؤقف اپنایا ہے کہ یہ معاملہ ’روح افزا پراڈکٹ کی توہین سے بالاتر ہے اور یہ کہ درحقیقت یہ فرقہ وارانہ پھوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔‘
کانگریس کے معروف رہنما دگ وجے سنگھ نے اس کے خلاف آواز بلند کی ہے اور کہا کہ ’رام دیو کا بیان بہت تکلیف دہ اور مذہبی جذبات کو بھڑکانے والا ہے۔ روح افزا کی فروخت کو شربت جہاد کہنا نہ صرف توہین آمیز ہے بلکہ غیر قانونی بھی ہے۔‘
اس سے قبل بابا رام دیو نے اپنے کئی پروڈکٹس کے طبی فوائد کے دعوؤں پر سپریم کورٹ کی جانب سے تنبیہ کے بعد معافی مانگی تھی۔
طبی فوائد کو چیلنج

،تصویر کا ذریعہPTI
سوشل میڈیا پر اس حوالے سے باتیں ہو رہی ہیں۔ جہاں بہت سے لوگ گائے کے پیشاب کے فوائد بیان کر رہے ہیں وہیں بہت سے لوگ اسے ’مذہب کے نام پر حماقت‘ قرار دے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل جنوری 2025 میں انڈیا کے مؤقر تعلیمی ادارے ’آئی آئی ٹی‘ مدراس کے ڈائریکٹر اور سائنسدان وی کاماکوٹی نے گائے کے پیشاب کے فوائد بیان کیے تھے جس پر انھیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ڈاکٹرز ایسوسی ایشن فار سوشل ایکویلٹی (ڈی اے ایس ای) کے جنرل سیکریٹری جی آر رویندر ناتھ نے وی کاماکوٹی پر سخت تنقید کی تھی اور گائے کے پیشاب اور گوبر کے مبینہ طبی فوائد کے متعلق ان کے بیان کو صحت عامہ کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف کہا تھا۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’ایسے وقت میں جب ڈینگی، سوائن فلو اور کووڈ 19 جیسی بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں، اگر لوگ ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کے بجائے اُن کا مشورہ مان لیں اور گائے کا پیشاب پی لیں تو کیا ہو گا؟‘
بہر حال انڈیا میں ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ گائے کو مقدس سمجھتا ہے اوراسے ماں کا درجہ دیتا ہے۔ گائے کے پیشاب اورگوبر کو بھی مقدس سمجھا جاتا ہے اور اکثر پوجا پاٹھ سے پہلے فرش پر گوبر کا لیپ اور پیشاب کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر تبصرے
انڈیا میں گائے کے پیشاب کے طبی فوائد بیان کرنے والوں کی کمی نہیں ہے اور آئے دن پیشاب پیتے اور گوبر کھاتے لوگوں کی ویڈیوز نظر آ جاتی ہیں۔ حال ہی میں دہلی یونیورسٹی کے ایک کالج کی پرنسپل کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ ایک کمرے میں اپنے ہاتھوں سے دیواروں پر گوبر کا لیپ کرتی نظر آئیں۔
ارون نامی ایک صارف نے لکھا: ‘اس طرح کے سوالات لائیو ٹی وی شوز میں ہمیشہ پوچھے جانے چاہییں اور ہاں میں جواب ملنے پر فورا ہی برانڈڈ گوموتر کی بوتل پینے کے لیے پیش کی جانی چاہیے۔‘
سوہم چودھری نامی ایک صارف نے لکھا: ’ہندو ہونے کے باوجود میں ایک چیز کا دفاع نہیں کر سکتا اور وہ گوموتر کا استعمال اور اس کا پینا ہے۔ بار بار جھوٹے ثابت ہونے کے باوجود کچھ جنونی اب بھی اسے پیتے ہیں جیسے یہ کوئی خدائی دوا ہے جو ایسی بیماریوں کا علاج کرے گی جو جدید فارما نہیں کر سکتی۔‘
بہت سے صارفین نے اس کے مذہبی فوائد اور پاکی حاصل کرنے کے فوائد کا ذکر کیا ہے اور اسے عقیدت سے منسلک کہا ہے۔
پاراشرنیا نامی ایک صارف کا کہنا ہے کہ ’کوئی بھی گوموتر نہیں پیتا، اسے پانی میں ملا کر بہت کم مقدار میں بعض مذہبی رسومات میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن دیہاتیوں نے اس کا کباڑا کر دیا ہے۔‘
منیشا امبیڈکر نامی ایک فیس بک صارف کی ایک پوسٹ کو بھی شیئر کیا جا رہا ہے جس میں انھوں نے ایک بچی کی تصویر کے ساتھ ہندی زبان میں لکھا ہے: ‘ہماری ٹکر ایسے لوگوں سے ہے جو دودھ کو بہا دیتے ہیں، گھی کو جلا دیتے ہیں، پیشاب کو پی جاتے ہیں اور گوبر کو کھا لیتے ہیں۔’
اس تناظر میں بہت سے لوگ اسے ہندو اور مسلم کی مذہبی عینک سے دیکھ رہے ہیں اور بہت سے لوگ یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ مسلم اونٹ کا پیشاب پیتے ہیں۔
SOURCE : BBC