SOURCE :- BBC NEWS

- مصنف, الیا بارابانوف، اناستاسیا لوتاریوا
- عہدہ, بی بی سی نیوز، روسی
-
6 منٹ قبل
سرگئی اور تاتیانا ووروکوف جب روس سے یوکرین کے ایک چھوٹے سے گاؤں منتقل ہوئے تو انھیں امید تھی کہ وہ ایک پرسکون زندگی گزار پائیں گے۔ لیکن حالات بالکل مختلف ثابت ہوئے۔
روس کے یوکرین پر حملے کے بعد ان دونوں نے خود کو مقبوضہ علاقے میں پایا اور یوکرینی فوج کے لیے مخبر بننے کا فیصلہ کیا۔
اس کے لیے انھیں حراست اور تفتیش کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر جعلی دستاویزات اور ربڑ کی ٹیوب کی مدد سے وہ یورپ بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔
2014 میں روس کی جانب سے کریمیا کا الحاق کیے جانے کے کچھ ہی عرصے بعد سرگئی اور تاتیانا نے فیصلہ کیا کہ وہ روس چھوڑ دیں گے۔
ایک طویل عرصے سے وہ صدر ولادیمیر پوتن کی قیادت میں ان کا ملک جس سمت جا رہا تھا اس بارے میں خوش فہمی کا شکار تھے۔ لیکن کریمیا کا غیر قانونی الحاق اور مشرقی یوکرین میں لڑائی نے سب کچھ بدل دیا۔
سرگئی اب 55 سال کے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’ہم (جنگ مخالف) احتجاجوں میں حصہ لیتے تھے لیکن جلد ہی ہمیں احساس ہو گیا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔‘
’میں اپنے دوستوں اور جاننے والوں کو کہتا تھا کہ کریمیا کا الحاق اور (مشرقی یوکرین کے صنعتی علاقے) ڈونباس میں مدخلت صحیح نہیں۔۔۔۔ وہ کہتے کہ اگر تمھیں یہ سب پسند نہیں تو تم لوگ ملک چھوڑ کر جا سکتے ہو۔ تو ہم نے جانے کا فیصلہ کیا۔‘
52 سالہ تاتیانا پیدا تو ڈونباس میں ہوئی تھیں لیکن اپنے شوہر کی طرح وہ بھی روسی شہری ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے دفتر میں ان کے ساتھ کام کرنے والے ان کے کریملن مخالف نظریات کو پسند نہیں کرتے تھے۔ کریمیا کے الحاق کے بعد انھوں نے بالآخر اپنی نوکری چھوڑ دی۔

،تصویر کا ذریعہFAMILY ARCHIVE
اگلے پانچ برسوں تک دونوں میاں بیوی ہر چھ مہینے میں یوکرین جاتے تاکہ وہ ایک گھر تلاش کر پائیں۔
بالآخر 2019 میں وہ دونوں جنوب مشرقی یوکرین کے خطے زاپورزہیا کے گاؤں نووولیوبیمیوکا میں جا کر بس گئے۔ اس گاؤں کی کل آبادی 300 افراد پر مشتمل تھی اور یہاں انھوں نے مال مویشی پالنے کا کام شروع کیا۔
سرگئی کو لینڈ سروے کا کام بھی مل گیا۔ انھوں نے سوویت فوج میں گزارے اپنے وقت کے دوران اس کام میں مہارت حاصل کی تھی۔
24 فروری، 2022 میں پہلی بار ان کے گھر کے اوپر سے روسی راکٹ گزرے۔ تاتیانا اس دن کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’میں نے صبح سیٹی جیسی کوئی آواز سنی، جیسے کچھ اڑ کر جا رہا تھا اور میں باہر گئی۔‘
’میرے گھر کے اوپر سے ایک راکٹ جا رہا تھا۔ میں انٹرنیٹ پر گئی کہ دیکھ سکوں کہ کیا ہو رہا ہے اور وہاں لکھا تھا کہ کیئو پر پہلے ہی بمباری ہو چکی ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہFAMILY ARCHIVE

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
26 فروری تک زاپورزہیا کے دیگر جنوبی علاقوں کی طرح نووولیوبیمیوکا بھی روس کے قبضے میں جا چکا تھا۔
ابتدائی طور پر تو سرگئی اور تاتیانا کا قابض فوج سے سامنا نہیں ہوا۔ لیکن کچھ ہی دنوں میں جب روسی فوجی قافلہ ان کے گھر کے نزدیک سے گزرا تو تاتیانا نے اس بارے میں کچھ کرنے کا فیصلہ کیا۔
قافلے کو گزرتے دیکھ کر وہ بھاگ کر گھر کے اندر گئیں، فون اٹھایا اور کیئو میں اپنے ایک جاننے والے کو پیغام بھیجا جن کے بارے میں انھیں معلوم تھا کہ ان کے یوکرینی سیکریٹ سروس میں جان پہچان تھی۔
ان کے واقف کار نے انھیں میسیجنگ ایپ ٹیلیگرام پر ایک خاص چیٹ بوٹ کا لنک بھیجا۔ چیٹ بوٹ کی جانب سے انھیں بتایا گیا کہ جلد ہی کوئی ان سے رابطہ کرے گا۔
جوڑے سے کہا گیا کہ وہ اپنا محلِ وقوع اور انھوں نے جو فوجی سازوسامان اور الیکٹرونک وارفیئر سسٹم دیکھا ہے اس کی تفصیلات بتائیں خاص طور پر ٹینکوں اور میزائلوں کے بارے میں۔
محلِ وقوع کی مدد سے یوکرینی فوج کو روسی فوج کو ڈرونز اور توپخانے سے نشانہ بنانے میں مدد ملتی۔
دونوں میاں بیوی کے روسی شہری ہونے کے باوجود تاتیانا کا کہنا ہے کہ ان کی نظر میں یہ غداری نہیں۔ ’اگر روس پر حملہ ہوا ہوتا اور ہم دشمن کے ساتھ کام کر رہے ہوتے تو یہ غداری ہوتی۔ لیکن کسی نے روس پر حملہ نہیں کیا تھا۔ یہ برائی کے خلاف جنگ تھی۔‘
تاتیانا اور سرگئی کا اصرار ہے کہ انھوں نے جو معلومات فراہم کی تھیں اس کے نتیجے میں کسی شہری یا شہری تنصیبات کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔
سرگئی کہتے ہیں کہ ایک موقع پر یوکرینی فوج ایک بڑے ٹارگٹ کو نشانہ بنا سکتی تھی لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیوں کہ اس سے لوگوں کے گھروں کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔

،تصویر کا ذریعہAnadolu Agency via Getty Images
تقریباً دو مہنے تک سرگئی کو آرڈینیٹس جمع کرتے اور تاتیانا اسے اپنے فون کے ذریعے بھیجتیں۔ بعد ازاں وہ بڑی احتیاط کے ساتھ اپنے فون سے ان پیغامات کے تمام ثبوت مٹا دیتی تھیں۔
یہ روسی جوڑا اپریل 2022 کے اواخر میں نووولیوبیمیوکا انٹرنیٹ بند ہونے تک کیئو میں موجود اپنے رابطہ کار سے رابطے میں رہا۔ تب تک مسلح افراد نے گاؤں میں آکر لوگوں کے گھروں میں داخل ہو کر تلاشی کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔
وہ کئی مرتبہ سرگئی اور تاتیانا کے گھر بھی آئے۔ جب مسلح افراد ان سے پوچھتے کہ وہ مقبوضہ علاقہ چھوڑ کر کیوں نہیں گئے تو وہ یہی جواب دیتے کہ ’ہم کہاں جائیں گے؟‘
وہ واپس روس نہیں جانا چاہتے تھے اور انھیں اپنے روسی دستاویزات کے ساتھ یوکرین کے غیر مقبوضہ علاقوں میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔ سب سے بڑھ کر وہ جہاں تھے وہاں انھیں گھر جیسا محسوس ہوتا تھا اور وہ جنگ میں یوکرین کی مدد جاری رکھنا چاہتے تھے۔
سرگئی کی گرفتاری کے ساتھ یہ سب ختم ہو گیا۔
سرد تہہ خانے میں گزارے دن
روسی شہری ہونے کے ناطے سرگئی اور تاتیانا شروع سے ہی روسی سکیورٹی حکام کی توجہ کا مرکز رہے۔
گذشتہ سال اپریل کے آخر میں مسلح افراد نے سرگئی کو ٹوکماک کے ریجنل سینٹر میں حراست میں لے لیا۔
سرگئی کہتے ہیں کہ جو لوگ انھیں لے گئے تھے ان کے کپڑوں پر فوجی نشان نہیں تھا اور انھوں نے ان کو دو میٹر چوڑے اور تین میٹر لمبے تہہ خانے میں بند کر دیا تھا۔ سرگئی کہتے ہیں کہ انھیں اکڑوں بیٹھ کر سونا پڑا۔
وہ بتاتے ہیں کہ اگلے روز ان کے سر پر کپڑا ڈال کر ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔ افسران ان سے یہ جاننا چاہتے تھے کہ آیا انھوں نے روسی فوج کی عسکری پوزیشنوں کے متعلق یوکرینی فوج کو کوئی معلومات فراہم کی تھیں۔
ابتدائی طور پر انھوں نے اس سے لاتعلقی ظاہر کی لیکن بالآخر چوتھے روز انھوں نے اس خوف کے مارے اعتراف کرلیا کہ اگر انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو وہ شاید غلطی سے دوسروں کا نام بھی اس میں شامل کر لیں گے۔
تاتیانا بتاتی ہیں کہ جب یہ سب ہو رہا تھا تو وہ اپنے شوہر کی تلاش میں ہسپتالوں اور مردہ خانوں کے چکر لگا رہی تھیں۔
ان دونوں کا بیٹا اس وقت ماسکو کے نزدیک رہائش پذیر تھا۔ انھوں نے ریاستی تفتیشی اداروں سے صدر تک ہر کسی کو رابطہ کرنا شروع کر دیا تھا۔
سرگئی کی گرفتاری کے دسویں روز سکیورٹی ادارے نووولیوبیمیوکا میں تاتیانا کے پاس آئے اوران کی جامع تلاشی لی۔ انھوں نے ان کے گھر کے باغیچے میں کھدائی کر کے چار ہزار 400 ڈالرز نکال لیے۔ یہ وہ بچت تھی جو دونوں میاں بیوی نے چھپا کر رکھی تھِی۔
سرگئی کی گرفتاری کے تقریباً 39 دن بعد سات مئی کو تاتیانا کو اپنے شوہر کے بارے میں علم ہوا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ٹوکماک میں پولیس نے مجھے بتایا کہ وہ ایک تہہ خانے میں بند ہے۔ روسی سکیورٹی سروس ایف ایس بی انھیں اٹھا کر لے گئی ہے۔‘
26 مئی کو سرگئی کا ایک اعترافی ویڈیو بیان ان لوگوں نے ریکارڈ کیا جنھوں نے اپنا تعارف ایف ایس بی کے اہلکاروں کے طور پر کروایا تھا۔
دو روز بعد اس وقت سرگئی کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انھیں رہا کر دیا گیا۔ تاہم ان کے ڈرائیونگ لائسنس کے علاوہ ان کے باقی تمام دستاویز واپس نہیں کیے گئے۔
آج تک سرگئی اور تاتیانا یہ سمجھ نہیں پائے ہیں کہ ان کے اعترافی بیان کے باوجود انھیں کیوں رہا کر دیا گیا۔
سرگئی ٹوکماک میں پاسپورٹ آفس گئے اور متبادل دستاویزات کے لیے درخواست دی۔ تاہم قابض روسی حکام نے انھیں نیا پاسپورٹ جاری کرنے میں کوئی جلدی نہیں دکھائی۔

،تصویر کا ذریعہFAMILY ARCHIVE
جوڑے کا ماننا ہے کہ سرگئی کو رہا کرنے کے بعد بھی روسی سکیورٹی حکام نے ان پر نظر رکھنا جاری رکھا۔ مختلف گاڑیاں ان کے گھر کے گرد چکر لگاتیں تاکہ ان پر نظر رکھی جا سکے۔ نامعلوم افراد ان کا دروازہ کھٹکھٹا کر پوچھتے کہ کیا وہ کچھ بیچ رہے ہیں۔
سرگئی اور تاتیانا کو معلوم تھا کہ انھیں روسی فوج کبھی نہیں چھوڑے گی۔
یورپ میں انسانی حقوق کے کارکنوں سے مشاورت کے بعد انھوں نے مقبوضہ علاقہ چھوڑنے کا ارادہ کیا۔ پہلے وہ روس واپس گئے جہاں سرگئی کو امید تھی کہ انھیں نیا پاسپورٹ مل جائے گا اور پھر وہ وہاں سے یورپ چلے جائیں گے۔
ٹوکماک میں ان کے پڑوسیوں نے ان سے مویشی اور دیگر چیزیں خرید کر ان کی مدد کی۔ سرگئی کہتے ہیں کہ انھیں سب سے زیادہ فکر اپنے کتوں کی تھی لیکن وہ ان کے لیے بھی ایک نیا گھر ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے۔
سرگئی کہتے ہیں کہ ان کے جانے کے دو ہفتے بعد روسی فوج نے ان کے گھر پر قبضہ کر لیا۔

،تصویر کا ذریعہFAMILY ARCHIVE
جعلی پاسپورٹ اور ربڑ کی ٹیوب
جب سرگئی اور تاتیانا نے نووولیوبیمیوکا میں اپنا گھر چھوڑا تو انھوں نے فرضی کہانی بنانے کا سوچا تاکہ اگر انھیں روسی اہلکاروں نے روکا تو وہ انھیں یہ کہانی سنا سکیں اور انھوں نے اسے مزید قابلِ یقین بنانے کے لیے مختلف اشیا کا بھی سہارا لیا۔
انھوں نے اپنی گاڑی میں ساحل سمندر پر پہنے جانے والی تنکوں سے بنی ٹوپی اور تیرنے کے لیے استعمال ہونے والی ٹیوب بھی رکھی۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ اگر انھیں کسی نے روکا تو وہ کہیں گے کہ تاتیانا کو دمہ ہے اور تازہ ہوا کے لیے وہ ساحلِ سمندر پر جا رہے ہیں۔
لیکن انھیں کسی نے نہیں روکا۔
پہلے پہل تو انھیں روس میں داخل ہونے نہیں دیا گیا لیکن بعد ازاں جب سرگئی نے سرٹیفکیٹ پیش کیا کہ انھوں نے نئے پاسپورٹ کے لیے درخواست دی ہوئی ہے تو انھیں داخل ہونے کی اجازت مل گئی۔
پاسپورٹ کے اجرا میں مزید تاخیر اور روس سے براستہ بیلاروس نکلنے کی کوشش ناکام ہونے کے بعد سرگئی نے ٹیلی گرام کی مدد سے اپنے ہی نام کا ایک جعلی پاسپورٹ خریدا۔
اس کے بعد دونوں میاں بیوی بذریعہ بس بیلاروس پہنچے اور سرگئی کے جعلی پاسپورٹ کی مدد سے سرحد عبور کر کے لتھوانیا میں داخل ہو گئے جو کہ یورپی یونین کا رکن اور یوکرین کا اتحادی ملک ہے۔
بٹا ہوا خاندان
لیکن لتھوانیا میں سرحد پر موجود محافظوں کو معلوم پڑ گیا کہ سرگئی کے دستاویزات جعلی ہیں اور انھیں حراستی مرکز میں ڈال دیا گیا۔
سرگئی کو یہ تجربہ ناگوار نہیں لگا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اتنا سب جھیلنے کے بعد، ایسا محسوس ہوا جیسے میں کسی گیسٹ ہاؤس میں ہوں، ایک ایسا گیسٹ ہاؤس جسے آپ چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ کو ہفتے میں دو بار نہانے کی اجازت تھی، بستر باقاعدگی سے بدلے جاتے اور کھانا بھی ٹھیک تھا۔‘

،تصویر کا ذریعہAnadolu Agency via Getty Images
لتھوانیا کی عدالت نے سرگئی کو جعلی دستاویزات استعمال کرنے کے جرم میں قصوروار پایا اور انھیں 26 روز قید کی سزا سنائی جو وہ پہلے ہی حراستی مرکز میں گزار چکے تھے۔
دونوں میاں بیوی کو امید ہے کہ انھیں لتھوانیا میں سیاسی پناہ مل جائے گی۔ وہ فی الوقت پناہ گزینوں کے لیے بنائے گئے کیمپ میں رہائش پذیر ہیں۔
ان کے سابق ہینڈلر کی درخواست پر یوکرین کی فوج نے انھیں شکریہ کا خط بھی لکھا ہے تاکہ ان کی پناہ کی درخواست میں مدد ہو سکے۔ بی بی سی نے انھیں بھیجے گئے خط کی کاپی دیکھی ہے۔
سرگئی کی 87 سالہ والدہ اب بھی روس میں ہیں۔ وہ اپنے بیٹے سے مختلف نظریات رکھتی ہیں۔ یوکرین جنگ کے آغاز میں دونوں ماں بیٹے کی تکرار ہوئی تھی جس کے بعد کچھ وقت تک دونوں کے درمیان بات چیت بھی بند رہی۔
سرگئی اور تاتیانا کے بیٹے نے یہ جاننے کے بعد کہ اس کے والدین نے کیا کیا تھا ان سے بات چیت بند کر دی ہے۔
ان سب چیزوں کے باوجود سرگئی اور تاتیانا بضد ہیں کہ وہ روس واپس نہیں جائیں گے۔
سرگئی کہتے ہیں وہ تب ہی واپس جائیں گے جب روس کچھ انسانیت کا مظاہرہ کرے گا۔ ’فی الوقت تو مجھے کوئی انسانیت نہیں نظر آتی۔‘
SOURCE : BBC